ائے شاہ نجاشی ۰۰۰آج کے دورمیں انصاف کہاں ؟

یہی انصاف کا صحیح طریقہ ہے اور یہ کبھی یکطرفہ کارروائی کرنے سے وجود میں نہیں آتا۔ یہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب دونوں فریقوں کی باتیں بغور سنی جائیں اور کسی دباؤ اور جھکاؤ کے بغیر بے لاگ فیصلہ سنا دیا جائے۔ اس طرح سے دیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ انصاف کا ہی فیصلہ کہا جائے گا ۔
اسلام کے ابتدائی دور میں جب مشرکین مکہ کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ مکہ چھوڑ کے حبشہ چلے جاؤ وہاں شاہ نجاشی کی حکومت ہے ،جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت منصف اور امن پسند انسان ہے۔ اس کی حکومت میں کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تم لوگ وہاں جاؤ ہوسکتا ہے اللہ تمہارے لئے وہاںکوئی بہترصورت پیدا کردے ۔پھر یہی ہوا کہ مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد حبشہ پہنچ گئی ۔اس بات کا علم جب قریش کو ہوا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے اپنے دو خاص آدمیوں کو حبشہ بھیجا جن میں سے ایک عبداللہ بن ربیعہ اور دوسرے عمروبن العاص تھے۔ ان لوگوں نے حبشہ پہنچ کر سب سے پہلے بادشاہ کے درباریوں کو تحفے و نذرانے پیش کئے اور انہیں اپنے اعتماد میں لیا تاکہ وہ لوگ نجاشی سے ان کی سفارش کریںاور شاہ نجاشی ان کی باتیں سن کر براہ راست مسلمانوں کو ان کے حوالے کردے ۔مکہ کا وفد دربار میں پہنچا، اس نے بادشاہ سے کہا ہمارے وطن سے کچھ لوگ اپنے آبائی دین سے پھر کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں ، ان کی نادانی کا خیال کرتے ہوئے امید ہے کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے اور انہیں ہمارے حوالے کرنے کی اجازت دے کر ہمیں اور پورے قبیلہ ٔ قریش کو ممنون کریں گے ،جس کی تائید تمام درباریوں نے بھی کی ۔

وفد سمجھ رہا تھا بادشاہ ان کی باتیں سن کر متاثر ہوگا اور بغیر کسی پوچھ گچھ کے مسلمانوں کو ان کے حوالے کردے گا۔لیکن ایسا نہیں ہوا ،بادشاہ ان کی باتیں سن کر برہم ہوگیا ۔اس نے کہا،خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ان سے تفتیش کئے بغیر میں انہیں تمہارے حوالے کردوں۔ حالانکہ درباریوں نے بھی بادشاہ کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو فورا ً وفد کے حوالے کردینا چاہئے ۔لیکن بادشاہ اپنی بات پر قائم رہا ، اس نے کہا کہ انصاف کا تقاضا ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں ان کی باتیں سنے بغیر فیصلہ کردوں ۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا۔ وہ آئے تو انہوں نے درباری آداب کے مطابق بادشاہ کوسجدہ نہیں کیا،حالانکہ مسلمانوں کا یہ عمل بادشہ کو برگشتہ کرنے کیلئے کافی تھا ، اس کے باوجود بادشاہ پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ بادشاہ مذہباً عیسائی تھا اور اپنے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح ؑکوخداکا بیٹا مانتا تھا۔ دوران گفتگو حضرت عیسیؐ کا ذکر چلا تو مسلمانوں کے امیر جعفرؓابن ابی طالب نے صاف لفظوں میں کہا ،حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے نہ کہ بیٹے ۔ بظاہر یہ دونوں ہی باتیں بادشاہ کو غضبناک کرنے والی تھیں، اس کے باوجود اس نے مشتعل ہوئے بغیرمسلمانوںکی باتیں بغور سنیں ۔اس کے بعد وفد کے لائے تحائف واپس کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ جاسکتے ہیں اور یہ مسلمان میری مملکت میں جب تک چاہیںرہ سکتے ہیں۔ میں انہیں کسی صورت تمہارے حوالے نہیں کرسکتا ۔

یہی انصاف کا صحیح طریقہ ہے اور یہ کبھی یکطرفہ کارروائی کرنے سے وجود میں نہیں آتا۔ یہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب دونوں فریقوں کی باتیں بغور سنی جائیں اور کسی دباؤ اور جھکاؤ کے بغیر بے لاگ فیصلہ سنا دیا جائے۔ اس طرح سے دیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ انصاف کا ہی فیصلہ کہا جائے گا ۔ یہ بات چاہے گھریلو سطح کی ہو یا پھر علاقائی اور ملکی سطح کی ۔جب بھی دوفریقوں کے مابین تنازعہ پیدا ہو تو کسی ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ کردینا انصاف نہیں ظلم کہلائے گا۔ ایسا کرنا کسی کیلئے بھی درست نہیں ہوسکتا ،خواہ وہ کتنے ہی بڑے منصب پرکیوں نہ فائزہو ۔مندرجہ بالا واقعہ ہمیں انصاف کے ایک اعلی ٰ معیار کی نظیر فراہم کرتا ہے کہ انصاف کرتے وقت ہمیں صرف اور صرف انصاف کے ان پہلوؤ ں پر نظر رکھنی چاہئے جہاں جہاں سے انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکتا ہو ۔ نجاشی نے صرف سچائی اور انصاف کو پیش نظر رکھا، اسے نہ تو مکہ والوں کے نذرانے اور تحائف متاثر کرسکے نہ ہی اس نے اپنے قریبی مصاحبین اور وزراء کی پرواہ کی۔ یہاں تک کہ اس نے اس بات کا بھی خیال نہیں کیا جو بظاہر اس کے عقیدے سے متصادم ہورہی تھی اور اس کے عقیدے کی تصغیر و توہین ہورہی تھی۔یہی نہیں بلکہ درباری آداب کی خلاف ورزی بھی جو بذات خود اس کی توہین کے مترادف تھی ۔لیکن ان میں سے کوئی بھی بات اسے مشتعل کرسکی نہ ہی اس پر کوئی متعصبانہ رنگ چڑھاسکی جس کے سبب وہ انصاف سے برگشتہ ہوجاتا اور غیر منصفانہ فیصلہ سنا دیتا ۔ اس کے برعکس شاہ نجاشی نے سارے معاملے کو عدل و انصاف کی نظر سے دیکھا اور ان سارے عوامل کو یکسر نظر اندازکردیا جس کے دباؤ میں آکر انسان انصاف کی راہ سے ہٹ جاتا ہے۔ اس نے صرف اور صرف یہ کیا کہ دونوں فریقین کی باتیں بغور سنیں اور پھر پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرتے ہوئے وہی کیا جو عین انصاف کا تقاضا تھا۔ظاہر ہے اس کے برعکس کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ امن کے بجائے صرف ظلم کوہی بڑھا وا دیتا ۔

آج ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں ، وہاں ہر طرف ظلم و جبر کی حکمرانی ہے ۔جو جہاں ہے خود سری اور انانیت کا بازارگرم کئے ہوئے ہے ، چھوٹے چھوٹے عہدوں پر قائم شخص اپنے ماتحتوں پر ہر ظلم روا رکھے ہوئے ہے، جس کا اسے کوئی حق نہیں۔ اسے مظلومین کے دردو غم اور پریشانیو ں سے کوئی سروکار نہیں ، جس کا تدارک وازالہ اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ہمارے معاملات ایک دوسرے سے صاف نہیںرہتے ،جس سے بھی کوئی معاملہ کرتے ہیں،وہ بیشتر بدمعاملگی پر ہی ختم ہوتا ہے ۔قرض لینا اور دینا انسانی ضرورتوں میں شامل ہے ، اس سے بھی بہت سارے لوگوں کی مشکلیں حل ہوتی ہیں۔ سخت ترین حالات میں قرض دینے والاانسان قرض لینے والے کی نظر میں کسی فرشتہ سے کم نہیں ہوتا ۔لیکن اب یہ ذہن بھی عام ہوتا جارہاہے کہ قرض لینا اور دینا دونوں ہی عمل دوستی کی مقراض بن جاتا ہے ۔ قرض لینے اور دینے کے بھی کچھ آداب ہیں ، کچھ اصول ہیں ، لیکن اس معاملے میںبھی بد عہدی عام ہوچکی ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے چاروں طرف آج اسی قسم کے غیر منصفانہ عمل کے مظاہرے ہورہے ہیں جسے انجام دینے میں ہر کوئی شامل ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب،چھوٹا ہو یا بڑا ، رہبر ہو یا رہزن ، سرکش ہو یا شریف ۔لیکن کچھ استثنا ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا ابھی بھی دنیا ایسے افراد سے خالی نہیں ہے، جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتےہیں یا کم سے کم کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، ان کا وجودبہر حال ہمارےلئے باعث رحمت ہے ۔ آج شاہ نجاشی کو یاد کرتے ہوئے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔’’اے شاہ نجاشی ۰۰۰آج کے دورمیں انصاف کہاں ہے ۔‘‘جی ہاں !آج سب سے اہم کا م یہی ہے کہ انسان عدل کے مطابق فیصلہ کرے خواہ اس پر کیسا ہی دباؤ ہو ، یہاں تک کہ وہ فیصلہ اس کے نفس اور مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔بلا شبہ یہی وہ لوگ ہوں گے جو سماجی طور پر بھی سربلند رہیں گے اور اللہ کے یہاں بھی سرخرو ہوں گے ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.