آئینہ اور بگڑی ہوئی شکل
(Sultan Hussain, Peshawar City)
تصویری نمائش میں ایک خاتون ایک مصور سے
باتیں کر رہیں تھیں اس نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''آپ کی سب
تصویریں تو بہت خوب ہیں مگر یہ دیکھیں اس کے خدو خال ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ
نظر پڑ جائے تو دوباہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا '' مصور نے اشارے والی تصویر
کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ''آپ نے بجا فرمایا محترمہ لیکن مجھے افسوس ہے کہ
یہ تصویر نہیں بلکہ آئینہ ہے''آئینہ ہمیشہ سچ بولتا ہے اس میں انسان کو
اپنی ہی صورت نظر آتی ہے چاہے وہ اچھی ہو یا بری لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ
ہم ہمیشہ اچھی صورت ہی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے ہماری صورت اچھی ہو یا
نہ ہو نہ صرف یہ کہ بری صورت دیکھنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی
یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہماری صورت کی تعریف کریںاسی لیے ہم سچ کو
بھی اپنی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اصل سچ تک نہ خود
پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس کا کھوج لگانے چھوڑتے ہیں
اور یہی ہمارا دوغلا پن ہے جس کے باعث ہم آگے بڑھنے کی بجائے تنزلی کی طرف
ہی جا رہے ہیں اب یہی دیکھ لیں ترکی میں15 جولائی کو فوجی بغاوت کی کوشش کی
گئی تو طیب اردگان کی ایک کال پر عوام نے باہر نکل کر اسے ناکام بنا دیا
یار لوگوں نے اس پر جہاں ترک صدر کو مبارک بادیں دیں وہاں ان کی بانچھیں
بھی کھل گئیں اور اسے بعض قوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سبق حاصل کرنے کا
درس دیا لیکن خود اس سے سبق حاصل کرنے کا درس وہ بھول گئے وہ یہ بھی بھول
گئے کہ اردگان اور پاکستان کے حکمرانوں میں بڑا فرق ہے ترقی میں چار فوجی
بغاوتیں اس سے پہلے بھی ہوئیں جس میں کوئی ایک بھی ناکامی سے دوچار نہیں
ہوئی صرف15 جولائی والی بغاوت ہی ناکام ہوئی آخر اس کی کیا وجہ تھی اس''وجہ''
سے حکمرانوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیںاردگان دوہزار دو میں برسراقتدار آئے
انہوں نے پندرہ سال مسلسل حکومت کی اور ترکی کے وزیراعظم رہے چونکہ ترقی کے
قانون کے مطابق وہ چوتھی بار اس عہدے پر نہیں آسکتے تھے اس لیے انہوں نے
ملک میں صدارتی نظام کے لیے قانون سازی کی اور ایک بار پھر وہ عوام کی
ووٹوں سے وزیراعظم کی بجائے براہ راست صدر منتخب ہوئے سوال یہ ہے کہ آخر
اسے عوام نے چوتھی مرتبہ کیوں منتخب کیا ان کے پاس کون سی گیڈر سنگھی تھی
جس کی وجہ سے اس کے ملک کے لوگ اسے چاہنے لگے ہیں اتنے عرصے تو کسی بادشاہ
کے حکومت کرنے سے بھی لوگ اکتا جاتے ہیں پھر آخر لوگ کیوں اسے بار بار موقع
دے رہے ہیں اس کا بہت ہی آسان جواب ہے کہ جس وقت اردگان برسراقتدار آئے اس
وقت ان کے ملک کی حالات پاکستان سے ملتے جلتے تھے ترکی قرضوں میں جھگڑا ہوا
تھا معیشت کی حالت دگرگوں تھی روزگار کے مواقع انتہائی کم تھے عوام کو
بنیادی سہولتیں حاصل نہیں تھیں لوگوں کی فی کس آمدن بہت کم تھی اس مرد آہن
نے ملک کے حالات کو درست کرنے کے لیے کمر کس لی عالمی مالیاتی اداروں کے
تمام قرضے ادا کر دئیے 'معیشت بہتر بنادی روزگار کے مواقع سب کو فراہم کئے
نہ کہ صرف پارٹی والوں کے لیے ۔آج ملک کے ہر فرد کی فی کس آمدنی اتنی ہے کہ
ہر شخص مطمین ہے طیب اردگان نے قوم کو ایک قیادت فراہم کی جس پر پوری قوم
نے اعتماد کیا اور آج ترکی وہ ترکی نہیں جو طیب اردگان کے دور سے پہلے کا
تھا اسی لیے جب انہوں نے قوم کو آواز دی تو پوری قوم نے ان کی آواز پر لبیک
کہا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے طیب اردگان نے جب آئینے میں اپنی قوم کی بگڑی
ہوئی شکل دیکھی تو اسے سنوانے کا عزم لیکر سامنے آئے اور اسے سنور کر ہی
رہے اب ان کی قوم کو اپنی بگڑی ہوئی شکل کی بجائے آئینے میںاپنی اصل شکل
نظر آرہی ہے اسی لیے وہ اپنی قیادت کا ساتھ دے رہے ہیں کیا ہمارے حکمرانوں
نے کبھی قوم کی بگڑی ہوئی شکل کو بہتر بنانے کی کوشش کی ؟اگر وہ اپنے
گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو انہیں اس کا بہتر جواب مل جائے گا لیکن
افسوس یہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے ۔اگر 1971 ء کے بعد سے دیکھا جائے تو سب
نے صرف اپنی بگڑی ہوئی شکل تو بنائی لیکن قوم کی بگڑی ہوئی شکل بہتر بنانے
کی کوشش نہیں کی ہر ایک نے آکر اپنی فیکٹریوں اور کارخانوں کا چین بنایا
قومی بنکوں سے قرضے لیکر اپنا کاروبار بڑھایا اور پھر قرضے ادا کرنے کی
بجائے اسے معاف کروالیے کرپشن اس قدر بڑھ گئی کہ اب کرپشن 'کرپشن نہیں رہی
بلکہ کمیشن بن گئی جسے یہ لوگ اب اپنا حق سمجھنے لگے جس سے ملک کے خزانے تو
خالی ہونے لگے لیکن ان کے خزانے بھرنے لگے ہیں ہمارے حکمرانوں کے یہی وہ
کرتوت ہیں جس کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ ملک کے مستقبل سے
مایوس ہوگئے تھے اور ملک کا قائم رہنا ایک سوالیہ نشان بن گیا تھا
سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اس قوم کی نیا پار لگانے کے لیے کچھ نہیں کیا
صرف اپنی نیا ہی وہ پار لگاتے رہے اور تا حیات ذاتی خزانے بھرنے اور مراعات
کے حصول کی دوڑ میں لگے رہے اسی لیے جب ان پر آتی ہے تو قوم ان کی آواز پر
لبیک کہنے کی بجائے آنے والوں کو نجات دہندہ سمجھ کر ان کا استقبال کرتے
ہیں اور مٹھایاں تقسیم کرتے ہیں ترکی کی ناکام بغاوت پر ہمارے حکمرانوں کو
بغلیں بجانے کی بجائے اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے لیکن لگتا نہیں کہ ہمارے
حکمران اس سے سبق حاصل کریں گے ۔ |
|