آزادکشمیر میں حالیہ انتخابات اگرچہ جب
شروع ہوئے تھے تو یوں لگتا تھا کہ یہ بہت خون خرابے اور انتشاری قوتوں کا
شاخسانہ رہیں گے مگر اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انتخابات انتہائی پر امن
طریقے سے اپنے انجام کو پہنچیں ہیں اگرچہ انتخابات میں چند قیمتیں جانوں کا
ضیاع ہوا اور کچھ جگہوں پر بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنان زخمی ہوئے ہیں مگر
اتنے بڑے انتخابی عمل میں اسطرح کے اکا دکا واقعات کو خون خرابے سے تشبیہہ
نہیں دی جا سکتی کیونکہ بعض اوقات انتخابات کی آڑ میں لوگ ذاتی دشمنیوں کو
بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے اگر حالیہ انتخابات کو دیکھا جائے تو
یہ انتہائی منظم اور پر امن تھے جبکہ اس بار ان انتخابات میں ایک نئی بات
جو دیکھنے میں آئی وہ بڑی حیران کن ہے کہ جس جماعت کے دور اقتدار میں یہ
انتخابات ہوئے وہی ان انتخابات کو شفاف کہنے سے گریزاں ہے اور مسلسل
دھاندلی زدہ انتخابات کا رونا رو رہی ہے اسکی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا
انتخابات میں بری طرح ہارنا ہے تاہم پیپلز پارٹی کا یہ مؤقف کسی صورت وزن
نہیں رکھتا کیونکہ ایک جانب تو انتخابات کے وقت پیپلز پارٹی کا وزیراعظم
اور صدر دونوں اپنے عہدہ پر موجود تھے اور دوسرا انتظامیہ ساری بھی انکے
ہاتھ میں تھی پھر بھی اگر پیپلز پارٹی انتخابات میں ناکام رہی ہے تو اپنی
پانچ سالہ ناقص کارکردگی کے باعث عوام نے پیپلز پارٹی کو نا پسندیدگی سے
دیکھا اور اس کی جھلک الیکشن کمپین میں سب کو نظر آرہی تھی اور تجزیہ نگار
پہلے ہی اسکی نشاندہی کر رہے تھے خالی بیانات دینے سے کارکردگی میں اضافہ
نہیں ہوتا اب عوام بہت با شعور ہیں اور اس بار آزاد کشمیر کے انتخابات میں
جس طرح ووٹر نے کمال مہارت سے ووٹ کاسٹ کیا اسکی جتنی بھی داد دی جائے وہ
کم ہے ۔ووٹرز نے جس شخصیت کو پسند کیا پوری آزادی کے ساتھ اس کو ووٹ ڈالا
اس لئے بہت کم شواہد ایسے ہونگے جن کے تحت یہ کہا جائے کہ یہ انتخابات
دھاندلی زدہ ہیں ۔تاہم سیاسی جماعتیں الزام تراشی کی سیاست کرتی آئی ہیں یہ
انکا ماضی ،حال کا وطیرہ ہے جو مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا اسے تبدیل
نہیں کیا جا سکتا۔
قارئین……!! میں حالیہ انتخابات میں شرقی باغ سے کامیابی کی ہیٹرک کرنیوالے
سردار میر اکبر خان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ،سردار میر اکبر صاحب نے
سیاسی مفاد کی سیاست کی اور انتہائی موقع پر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر کے
ایک بار پھر اسمبلی میں بیٹھنے کا جواز جیت کی صورت میں پیدا کر لیا اور
یوں وہ ایک بار پھر پانچ سال مظفرآباد کی قانون ساز اسمبلی میں شریک رہیں
گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی وزات کیلئے بھی اہل ہو جائیں تاہم مشتاق منہاس کی
صورت میں مشکل ہے کہ میر اکبر صاحب کو ئی وزارت لے سکیں ہاں اگر وزارت عظمیٰ
سردار فاروق حیدر کو ملی تو پھر سردار میر اکبر کی لاٹری ایک بار پھر نکل
آئے گی تاہم یہ تجزیہ ہے حتمی فیصلہ نہیں کیونکہ آجکل کے سیاسی میدان میں
ہر روز نئے اصول بنتے اور پرانے اصول توڑے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میر اکبر
صاحب آج مسلم لیگ(ن) کے پلیٹ فارم سے ایم ایل اے منتخب ہو گئے ہیں تاہم میر
اکبر صاحب ماضی میں بھی اس حلقے میں دو بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں مگر مجھے
انتہائی افسوس ہے کہ انکے پانچ سالہ دور اقتدار میں کوئی قابل ذکر کام نہیں
ہوا کہ جسکی روداد نظر آئی ہو۔ 21اپریل کو ایک پولنگ اسٹیشن کی چند تصاویر
میرے ذہن میں گھومتی ہیں یہ وہ پولنگ اسٹیشن ہے جس پولنگ اسٹیشن کو مسلم
کانفرنس کا گڑھ کہا جا سکتا ہے غالباً اسے گلی (کھرل عباسیاں(پولنگ اسٹیشن
کا نام دیا گیا ہے یہ پولنگ اسٹیشن بچوں کیلئے ایک قطعہ اراضی پر ٹوٹے
پھوٹے کمروں کے بغیر تعمیر کمروں کا ایک سکول ہے جس میں بچے زیور تعلیم سے
آراستہ ہوتے ہیں اور وہ گرمی اور سردی کی سختیاں اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ
شاید ان میں سے ہی کوئی کل کو ایم ایل اے بن کر اس سکول کی تقدیر بدل دے
مگر وہ وقت تو بہت دور ہے ۔میر اکبر صاحب کیلئے یہ بات بڑی فکر انگیز ہے کہ
اس سکول میں انکا پولنگ اسٹیشن تھا اور یہاں مسلم کانفرنس کے گڑھ سے کاسٹ
ہونیوالے 400ووٹوں میں سے انہیں 126ووٹ کاسٹ ہوئے جو حیران کن ہے میر اکبر
صاحب چاہیں تو مسلم کانفرنس کے اس گڑھ کو مسلم لیگ(ن) کے گڑھ میں تبدیل کر
سکتے ہیں اوراسکی ایک صورت یہ ہے کہ اس سکول کو فوری تعمیر کروانے کی
جدوجہد کریں اور بوسیدہ عمارت سے بچوں کی جان چھڑائیں اور یہاں ایک ایسی
عمارت تعمیر کروائیں جو فنون لطیفہ کی تاریخ میں انکی خدمات کو ہمیشہ
یاددلاتی رہے جیسے سردار خلیل عباسی کے دور میں ہونے والے ترقیاتی کام اس
گاؤں کے باسیوں کو آج بھی مسلم کانفرنس سے دور نہیں ہونے دیتے اسکے ساتھ اس
گاؤں کو لگنے والی سڑکیں چوکی اور پانیالی والی شاہراہوں کو تعمیر کروائیں
اور ان کے ساتھ نالیاں بنوانا نہ بھولیں تویقینا یہ انکی سیاسی اور آخروی
زندگی کیلئے سہولیات کا سامان پیدا ہوگا۔
میر اکبر صاحب کے مخالفین اس وقت اس گاؤں کے باسیوں میں ایک غلط کمپین کرتے
نظر آرہے ہیں کہ وہ اب اس گاؤں کے ترقیاتی کاموں کی جانب توجہ نہیں دیں گے
بلکہ ان سے سیاسی انتقام لیں گے میر اکبر صاحب کو چاہئے کہ فوری اس گاؤں
میں کوئی جلسہ کریں اور وہاں کے عوام کو یہ یقین دلائیں کہ سیاست21اپریل تک
تھی اور اسکے بعد سیاست نہیں خدمت کا آغاز ہوگا کیونکہ وہ جس جماعت کے ساتھ
وابستہ ہوئے ہیں وہ صرف ترقیاتی کاموں کے باعث ہی عوام میں مقبول ہے اور
ساتھ ہی ان سیاسی کارکنان کا حوصلہ بھی بڑھائیں جنہوں نے انہیں مسلم
کانفرنس کے گڑھ سے126ووٹ لیکر دیئے جو50%بنتا ہے جہاں سے آپ کو 5%ووٹ کی
امید نہیں تھی وہاں سے اگر اتنے پرسنٹ ووٹ ملے ہیں تو اس میں کارکنان کا
بہت بڑا کردار ہے اسلئے ضروری ہے کہ آپ ان کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں
اور ساتھ عوام کا بھی شکریہ ادا کریں جنہوں نے برادی ازم سے ہٹ کر آپ کو
ووٹ کاسٹ کیا اور آپکی کامیابی میں آپکے حصہ دار رہے اگرچہ آپ بھی ان باتوں
سے بخوبی واقف ہونگے تاہم اچھا مشورہ ہے اگر آپ اس پر عمل کر لیں گے تو
آپکا ہی بھلا ہوگا اور اگر نہیں کریں گے تو اس علاقے کے لوگ جس کسمپرسی کی
حالت میں زندگی گزار رہے ہیں آگے بھی گزار لیں گے مگر آئندہ برادری ازم پر
اکتفاکریں گے اسلئے ضروری ہے کہ سیاست کو وسعت دی جائے اگر آپ وسعت نظری
رکھیں گے تو یقیناً اسکا رزلٹ بھی پائیں گے لیکن اگر اس سے کنارہ کشی کریں
تو اسکی سزا بھی بھگتیں گے ۔
دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں کے متحرک سپورٹران سے بھی گزار ش ہے جنہوں
نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھر پور کردار ادا کیا وہ انتخابات کے بعد
اس ساری جدوجہد کو بھول جائیں اور ذاتی دشمنیاں نہ پالیں بلکہ سیاسی عمل کو
سیاسی ہی رہنے دیں یہ نہ ہو کہ اگلے پانچ سال جیتنے والے سیاستدان مزے کریں
اورآپ تھانہ کچہری کی سیاست میں انکے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں اسلئے نہ اپنا
چین تباہ کریں نہ دوسروں کے سکون کو غارت کریں بس اب جہاں تک ہو سکے خدمت
کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں بلکہ اگر میری رائے پر عمل کریں تو سیاسی
لیبلز کے سیرپ انتخابات کے بعد استعمال نہ کریں بلکہ جہاں سے عوامی خدمت کے
کام کروانے کی دسترس آپ کو نظر آئے وہیں پر پڑاؤ جما لیں اورعوامی خدمت کے
بھر پور کام کریں اصل سیاست یہی ہے جبکہ جو طالب علم اس سیاسی ماحول سے خوب
لطف اندوز ہوتے رہے اور اپنی کتابیں گوال،الماری یا چارپائی کے نیچے اوپر
پھینک کر بھول گئیں یا آدھی کتابیں ڈھوک میں اور آدھی گاؤں میں ہیں وہ بھی
اب اپنی کتابیں تلاش کریں اور دوبارہ سے تعلیمی عمل میں مصروف ہو جائیں اور
بھر پور محنت کریں اورامتحانات میں اچھے نمبر حاصل کریں کیونکہ اگر وہ
اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے تو آج وہ لوگوں کیلئے نعرے لگاتے ہیں کل اگر وہ
سیاسی میدان میں آئیں گے تو لوگ انکے لئے نعرے لگائیں گے اب تعلیم کے بغیر
سیاسی میدان میں ترقی کرنا نا ممکن ہے اسلئے کوشش کریں کہ اس میدان میں آنے
کیلئے اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنائیں جبکہ دیار غیر سے آئے ہوئے تمام
اوورسیز کشمیری بھی اب سکھ کا سانس لیں اور چند دن اپنے خاندان والوں کو
دیں تاکہ انہیں آپکی شفقت میسر آئے اور اپنی غیر موجودگی میں گھر کے احوال
کا بھی جائزہ لیں کہ آپکی موجودگی میں بچوں کی عادت و اطوار ویسی ہیں یا
بدل گئی ہیں اگر بد ل گئی ہیں تو اسے بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کریں
کیونکہ اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو آپ کا دیار غیر میں پردیس کی قید
کاٹنا بے فضول ہے یہ نہ ہو آپ جس پھول کو خوبصورت دیکھ رہے ہوں وہ اندر سے
کسی خطرناک بیماری نے کھوکھلا کر دیاہو اور یوں عین وقت پر آپ اسکی مرجھائی
ہوئی حالت دیکھیں جب آپ کے پاس نہ سوچنے کااور نہ کچھ کرنے کا وقت ہو
یقیناً آپکی ساری زندگی کی جدوجہد اس پھول کو نکھارنے اور اسے کھلتا دیکھنے
کیلئے ہے اور یہ آپکی توجہ کا مستحق ہے اس پر جتنی توجہ دیں گے اتنا یہ مضر
صحت اور جان لیوا بیماریوں سے محفوظ رہے گا- |