مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیرکا اصل امتحان اب شروع!

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آزاد کشمیر اسمبلی کے عام انتخابات2016ء میں دو تہائی اکثریت سے ایسی شاندار کامیابی حاصل کی ہے جو آزاد کشمیر کی تاریخ میں ماضی کی مسلم کانفرنس کو بھی کبھی حاصل نہیں ہو سکی۔الیکشن کمیشن کے جاری نتائج کے مطابق 41نشستوں کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے31،پیپلز پارٹی نے3،تحریک انصاف نے2،مسلم کانفرنس نے3،جموں و کشمیر پیپلز پارٹی نے1اور ایک آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔میر پور کی 4سیٹوں میں 3 مسلم لیگ(ن) جبکہ ایک پیپلز پارٹی کو ملی اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری ہار گئے۔بھمبر کی 3سیٹوں میں پی ایم ایل این کو 2جبکہ1آزاد ،کوٹلی کی5سیٹو میں مسلم لیگ (ن) کو3،مسلم کانفرنس 1،پیپلز پارٹی 1،باغ کی3سیٹوں میں سے مسلم لیگ(ن) 2،مسلم کانفرنس 1،حویلی کی 1سیٹ مسلم لیگ(ن)،ضلع پونچھ کی 6سیٹو میں مسلم لیگ(ن)4،جے کے پی پی(اتحادی مسلم لیگ ن) 1،مسلم کانفرنس 1،ضلع نیلم کی 1سیٹ پر مسلم لیگ (ن)، مظفر آباد کی تمام 6سیٹوں پر مسلم لیگ(ن) نے کامیابی حاصل کی ہے۔یوں میر پور ڈویژن کی12 سیٹو میں سے مسلم لیگ (ن) نے 8،پیپلز پارٹی 2،مسلم کانفرنس1اور 1سیٹ آزاد امیدوار نے حاصل کی ۔پونچھ ڈویژن کی 10میں سے مسلم لیگ (ن) نے+1=8 7،مسلم کانفرنس2سیٹیں حاصل کیں۔مظفر آباد کی تمام 6سیٹوں پر مسلم لیگ(ن) کامیاب۔مہاجرین جموں و دیگرمقیم پاکستان کی تمام 6سیٹیں مسلم لیگ(ن) نے حاصل کیں اور مہاجرین وادی کشمیر کی 6سیٹوں میں سے مسلم لیگ(ن) نے 3،تحریک انصاف نے2اورن پیپلز پارٹی نے 1سیٹ حاصل کی ۔ان نتائج سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ کشمیری عوام نے پیپلز پارٹی کی بدعنوان اور تحریک انصاف کی غیر یقینی،غیر ذمہ دار سیاست کو بری طرح مسترد کر دیا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے اگلے ہی دن مظفر آباد میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس دن کا انتظار ہے جب کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزاد کشمیر والو،آپ نے دل خوش کردیا۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جیسے ہی مجھے رات کو انتخابات کا نتیجہ موصول ہوا اور آزاد کشمیر میں کامیابی نظر آنی شروع ہوئی تو میں نے سوچا کہ میں کل مبارکباد دینے کے لیے جاؤں گا ،مجھے کہا گیا کہ آپ پرسوں چلیں جائیں تو میں نے کہاکہ مجھ سے انتظار نہیں ہوتا، پرسوں تک کون انتظار کرے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں منفی سیاست کرنے والے لوگوں کو بھی آزاد کشمیر میں متعارف کروانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں کے عوام کو سلام ہے کہ وہ ان باتوں میں نہیں آئے اور مسلم لیگ(ن)کو ووٹ دیا۔ وزیراعظم نے آزاد کشمیر کے لیے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی بات کی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ تقریر کے اختتام پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘کے ساتھ ساتھ’’آزاد کشمیر‘‘اور ’’آزادی مقبوضہ کشمیر‘‘ کے نعرے بھی لگوائے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان نے ’’جیوٹی وی‘‘ کے پروگرام’’ کیپٹل ٹاک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات پہ متفکر ہیں کہ الیکشن میں بھاری عوامی مینڈیٹ کے حوالے سے مسلم لیگ(ن)پر جوبڑی ذمہ داری عائید ہوئی ہے،اس سے کیسے عہدہ برآ ہو ا جا سکتا ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مہاجرین مقیم پاکستان کے حلقوں میں بڑی تعداد میں جعلی ’’سٹیٹ سبجیکٹ‘‘(باشندہ ریاست جموں و کشمیر)بنائے گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں جعلی ’’سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ ختم کراؤں گا۔آزاد کشمیر کے الیکشن میں بے مثال کامیابی کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے مراحل مکمل کئے جائیں گے۔پہلے منتخب ارکان اسمبلی اجلاس میں 8خصوصی سیٹوں پر ا میدواروں کا انتخاب کریں گے اور اس کے بعد قائد ایوان(وزیر اعظم) کا انتخاب ہو گا۔وزیر اعظم اور حکومت کے دوسرے حکومتی عہدوں کے لئے افراد کا انتخاب مسلم لیگ(ن) کے لئے ایک بڑا امتحان ہو گا کیونکہ اس سے نئی حکومت کی دلچسپیاں اور اہداف ظاہر ہو جائیں گے۔اگلا مرحلہ حکومتی عہدیداران کا انتخاب اور حکومتی ٹیم کی تشکیل ہے۔ سیاسی اور سرکاری نامزدگیاں نئی مسلم لیگی حکومت کے رجحانات کے اظہار کا واضح ذریعہ ہو سکتا ہے۔اس مرحلے کے مکمل ہونے سے ہی یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آزاد کشمیر میں مثبت طرز عمل کی ترویج ہوتی ہے یا روائیتی انداز ہی جاری رکھے جائیں گے۔پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ حکومت میں کرپشن ،اقرباء پروری اور سرکاری بد انتظامی کی انتہا کی وجہ سے آزاد کشمیر کے سیاسی اور سماجی شعبوں سمیت سرکاری ڈھانچہ بھی شدید طور پر متاثر ہوا ہے جس سے آزاد کشمیر حکومت کے کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔یوں نئی حکومت کی حکومتی اور سیاسی ٹیم کے انتخاب سے کافی حد تک واضح ہو جائے گا کہ کو ن کون سے امور نئی حکومت کی نظر میں اہم اور ضروری ہیں۔

آئینی ترامیم کے ذریعے آزاد کشمیر کو انتظامی اور مالیاتی امور میں بھی صوبوں کے برابر اختیارات دینا اور وزارت امور کشمیر کی بے جا مداخلت پر مبنی حاکمانہ انداز کو ختم کرنا ایک دیرینہ مطالبے کے طور پرموجود ہے۔آزاد کشمیر حکومت کواپنے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ طور پر بااختیار اور باوقار بنانے کے لئے یہ بات بھی ناگزیر ہے کہ آزاد کشمیر میں ’’ انصار اور مہاجرین‘‘ کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے۔اس بات پر وسیع پیمانے پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں آزاد کشمیر حکومت کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے اور آزاد کشمیر کو ’’عطا کردہ‘‘ آئینی ڈھانچے کے ذریعے اپنی علاقائی حدود تک محدود رکھا گیا ہے۔ اس ؤؤسے آزاد کشمیر میں انتشار اور خرابیاں حد سے بڑھ چکی ہیں۔آزاد کشمیر کی نئی مسلم لیگی حکومت کو درپیش چیلنجز میں یہ چیلنج بھی شامل ہے کہ آزاد کشمیر میں قبیلائی اور علاقہ پرستی کے رجحان کی واضح طور پر حوصلہ شکنی کی جائے۔اس نقصاندہ رجحان کی وجہ سے جہاں بدنامیاں آزاد خطے سے وابستہ ہیں وہاں یہ بھی کہا جانے لگا کہ ’’ آزاد کشمیر کے ہر ضلع کااپنا الگ مسئلہ کشمیر ہے‘‘۔

آزاد کشمیر کی مسلم لیگی حکومت کے اہداف کا دائرہ کار وسیع اور ہر شعبے سے متعلق ہے تاہم ان اہداف میں پیش رفت کے لئے بنیادی نقطہ توازن اچھے سیاسی رجحانات کی ترویج کے طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہی ہے۔آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کے قیام سے پہلے کے حالات و واقعات اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) بنانے کے مقاصد آج ایک چیلنج کے طور پر مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے رہنماؤں کے سامنے ہیں۔یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ آزاد کشمیر کے سیاسی اور حکومتی امور میں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کو کتنا اختیار حاصل ہوتا ہے۔بعض مسلم لیگی کارکن یہ دریافت کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ ’’ فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے مسلمانوں‘‘ کی قربانیوں اور کردار کا کوئی امتیاز رکھا جائے گا یا ’’ادھر کو چلو جدھرکی ہوا ہو‘‘ کے مصداق طرز عمل اپنایا جائے گا؟مختصر طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی الیکشن میں بھاری عوامی مینڈیٹ پر مبنی بھر پورکامیابی ،اس کا عزم اور اس نئی حکومت سے وابستہ عوامی توقعات سے آزاد کشمیر کا خطہ آج ایک ایسے دوراہے پہ نظر آتا ہے جہاں سے ایک راستہ بہتری کی طر ف اور دوسرا راستہ مکمل ناامیدی کی طرف جاتا ہے،اس بات کا احساس و ادراک مسلم لیگ(ن) کی آزاد کشمیر قیادت ہی نہیں بلکہ مرکزی قیادت کا بھی اس کے لوازمات کو یقینی بنانا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے رہنماؤں کواب اختیارات اور وفاق کی مکمل حمایت حاصل ہے،اب نگاہیں ان کی طرف ہیں کہ وہ اپنے افعال میں اپنے اقوال کا کتنا خیال کرتے ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699001 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More