اشرف غنی سچ بولو .!!کس کی زبان بول رہے ہو ؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
کیاواقعی القاعدہ اور طالبان سے بڑاخطرہ پاکستان سے ریاستی تعلقات ہیں؟
افغان صدر کی ہٹ دھرمی کی انتہا، دہت تیری کی،کیا پاکستان نے افغان روس جنگ میں اشرف غنی جیسے افغانیوں کو پناہ دے کر غلطی کی ہے..؟؟؟
|
|
افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی
ابوالمنافق نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویودیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’
القاعدہ اور طالبان سے بڑاخطرہ پاکستان سے ریاستی تعلقات ہیں‘‘اِن کے اِس
کہے پر جہاں اور بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں تو وہیں ایک سوال یہ بھی ہے
کہ اشرف غنی ابوالمنافق کی ذہنی کیفیات کو بھی پرکھاجائے کہیں یہ پاگل تو
نہیں ہوگئے ہیں؟؟ اور اِس کے ساتھ مسٹرغنی کیا یہ بتاسکتے ہیں کہ وہ اپنے
منہ میں کس کی زبان لگاکر یہ کچھ کہہ رہے ہیں؟؟ اور یہ کس کے الفاظ اپنے
کانوں میں ٹھونس کر اپنی زبانِ منافق سے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات
کا یوں اظہار کیا ہے کہ آج ہر پاکستانی کو اِن کے اور افغانیوں کے منافق
ہونے کا یقین ہوگیاہے ، اوراِسی کے ساتھ ہی کیا وہ اِس بات کوبھی ایک پکے
اور سچے مسلمان اور اصول پسند نڈر افغانی ہونے کے ناطے ایک اﷲ ،ایک رسول
اﷲﷺ اور ایک قرآن کی قسم کھا کر حلفیہ کہہ سکتے ہیں کہ آج وہ افغانستان کے
پاکستان سے ریاستی تعلقات سے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ اِن کی اپنی خالص
سوچ ہے اوراَب یہ اِس پر ہمیشہ قائم بھی رہیں گے اور وہ یہ بھی واضح کردیں
کہ اپنی اِس بات اور جملے کوکھلے عام باربار دہراتے بھی رہیں گے کہ میں نے
پاکستان سے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ سب سچ ہے ورنہ اِس سے متعلق جب تک اشرف
غنی کی طرف سے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں آجاتاہے اِس بات پر اِدھرہر
پاکستانی اشرف غنی ابوالمنافق سے بار بار ایک یہی سوال کرتا رہے گا کہ’’
کیاواقعی القاعدہ اور طالبان سے بڑاخطرہ پاکستان سے ریاستی تعلقات ہیں؟؟
بہر حا ل، آج ہم پاکستانیوں کو اپنی اِس غلطی کا بڑی شدد سے احساس ہورہاہے
کہ جب ہم نے روس افغان جنگ میں افغانیوں کو اپنی زمین پر پناہ دی تھی اِن
کی مہمان نوازی کی اور اپنا تن من دھن سب کچھ لوٹاکر اِنہیں اپنے دامن میں
چھپائے رکھا ،خود بھوکے رہے مگر اِن منافقوں کا پیٹ بھررکھا،ہم خود ننگے
رہے مگر اشرف غنی جیسے بکے ہوؤں کا تن ڈھانپا، ہم خود بے گھر رہے مگر اِن
گرمی سردی بارش اور دھوپ سے چھپانے کے لئے اپنی مقدس زمین پر گھر بناکردیئے
اور آج یہی افغانی ہیں جوکہ اَب اپنے دیس میں جانے کے بعد اپنی حکومتیں
قائم کرلینے کے بعد بھارتی عیاراور مکارحکمرانوں کی گودوں میں بیٹھ گئے ہیں
اُنہیں بھی مزے دے رہے ہیں اور خود بھی مزے لوٹ رہے ہیں بھارت تو تھاہی
پاکستان کا دُشمن مگر آج افغانی بھی بھارت کے اُکسانے پر بھارت سے زیادہ
پاکستان کے خطرناک دُشمن کا روپ اپناچکے ہیں اور بھارت کی گود میں بیٹھے
افغان صدر اپنی ساری ٹیم اور حکومتی اراکین کے ساتھ مفاد پرستی کی لولی پاپ
چاٹتے چاٹتے پاکستان کی دُشمنی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ آج وہ اپنی
منافقوں والی زبان سے بھارتی محبت اور دوستی کا دم بھرتے ہوئے بڑی دیدہ
دلیری اور ہٹ دھرمی سے پاکستان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ’’بھارت ہمارادوست ہے،
پاکستان ہاتھ بڑھائے توہم بھی ہاتھ بڑھائیں گے‘‘ورنہ...؟؟ فی الحال
توموجودہ حالات اور واقعات کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ اور
طالبان سے بڑاخطرہ پاکستان سے ریاستی تعلقات ہیں؟بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج
افغان صدر اشرف غنی ماضی و حال اور مستقبل میں پاکستان کی جانب سے دوستی
اور محبت کے تمام بڑھائے جانے والے خلوص کے وعدوں اور معاہدوں کو بھول چکے
ہیں اور آج افغانستان سے بھارتی مفادات کی آنکھوں پر چڑھی پٹی کواُتار
پھینکنے کی بھی زحمت گواراکئے بغیر ہی افغان صدر اشرف غنی ابوالمنافق
پاکستان دُشمنی کی نئی نئی مثالیں قائم کرنے پرتُلے بیٹھے ہیں اورآج ہماری
ہی آستینوں کے سانپ ثابت ہورہے ہیں افغانی یہ بات یاد رکھیں پاکستان کل بھی
افغانیوں کا بے لوث دوست تھااور آج بھی ہے ۔
اِس پراَب ہم پاکستانی سِوائے کفِ افسوس ملنے کہ کچھ بھی نہیں کر پارہے
ہیں، اور اُدھر ہم افغانستان میں بیٹھے احسان فراموش اور ابولمنافق شرف غنی
اور کرزئی جیسے حکمرانوں اور وہاں کے عوام کے منافق رویوں کو دیکھ رہے ہیں
تواِدھرہم اپنے اُس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق مرحوم جیسے بہت سے اپنے
کرتادھرتاؤں کے قول و فعل پربھی سوائے سوالات اور انگلیاں اُٹھانے کے کچھ
بھی نہیں کر پارہے ہیں اور پچھتاوے اور دُکھ بھرے لہجے کے ساتھ یہ کہتے
نہیں تھک رہے ہیں کاش کہ ضیاء الحق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ امریکیوں کے کہنے
پر افغانستان کے کرزئی اور اشرف غنی جیسے افغانیوں کو سرزمینِ پاکستان پر
پناہ نہ دیتے تو آج کم ازکم پاکستان اِس طرح دہشت گردی و نارگی اور
لاقانونیت کا شکار ہرگز نہ ہوتاجیسا کہ افغانیوں کی وجہ سے آج کل پاکستان
ہوگیاہے اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں اور اپنے شہروں میں آباد افغان
بستیوں کی وجہ سے تاریخ کی بدترین دہشت گردی اور ناسور جیسی بہت سی
بُرائیوں میں دھنس چکاہے ۔اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آج پاکستان میں
کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کا عام ہونااور ایسے بہت سی بُرائیوں کا معاشرے
میں سراہیت کرجانا بھی روس افغان جنگ کے باعث پاکستان میں پناہ لینے والے
افغان باشندوں کا ہی کارنامہ ہے ورنہ عین ممکن تھاکہ پاکستان اِن شیطان صفت
بُرائیوں سے محفوظ رہتاہے یہاں ایک اور سوال جو ساری پاکستانی قوم
ابوالمنافق افغان صدر شرف غنی سے کرناچاہتی ہے وہ یہ ہے کہ تب بھارت کہا ں
تھا جب افغان روس جنگ میں افغانی مارے جارہے تھے اور اِنہیں بھارت جیساکوئی
بھی مُلک پناہ دینے کو تیار نہ تھااور اُس وقت بھارت کااِنہی افغانیوں سے
متعلق کہے ہوئے یہ الفاظ آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ’’ہم پہاڑوں میں رہنے
والے قدیم رسم وروایت اور بات بات پر غصہ کرنے اورلڑنے مرنے والی افغان قوم
کو اپنے یہاں جگہہ نہیں دے سکتے ہیں، اِس سے بھی زیادہ یہ کہ یہ ہیروئین
جیسی دیگر نشہ کی عادی قوم ہے بھارت ایسی قوم کے افراد کو اپنی زمین پر
پناہ دے کر اپنی قوم کا مستقبل اور ترقی و خوشحالی داؤپر نہیں
لگاسکتاہے‘‘اور آج یہی بھارت ہے کہ جو خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے اور
پاکستان کے خلاف افغانیوں کو استعمال کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے
افغانیوں کا دوست بن گیاہے اور عقل کے اندھے افغانی بھی اِس کے دوست ..(ختم
شُد) |
|