پاکستان بمقابلہ ترکی،،، ایک تقابلی جائزہ

ترکی میں گزشتہ ہفتے ہونے والا فوجی بغاوت ترکش عوام نے ناکام بنادی اور ایک جمہوری ملک اور جمہوریت پسند قوم ہونے کا ثبوت دیا، واقعی ایک فوجی بغاوت کو ناکام بنانا ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو ایک جمہوری حکومت کے بساط لپیٹنے کے خواہاں تھے لیکن ترکی میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ تین دفعہ اس سے پہلے بھی جمہوری حکومت کا بساط لپیٹا جا چکا ہے ، اسی طرح پاکستان بھی ہے اور دونوں ممالک میں یہ ایک بات قدر مشترک ہے کہ دونو ں ممالک کو تین دفعہ مارشل لاء کی زیارت نصیب ہوئی ہے، لیکن اس دفعہ ترکی کے عوام نے اس روایت کو تبدیل کردیا اور انتہائی بہادری سے فوجی بغاوت کا راستہ روکے رکھا ، ،،کچھ لوگ ترکی میں ہونے والے اس غیر معمولی واقعے کے بعد پاکستان کا بھی ترکی کے ساتھ موازنہ کررہے ہے اور کچھ چینلوں میں بیٹے نواز حکومت کے زر خرید کالم نگار اور اینکر حضرات تو خوشی سے اتنے نہال ہورہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے جیسا کہ اردوان کی جگہ نوازشریف نے کوئی معرکہ سرکیا ہو، مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ آج کی ترکی اور آج کی پاکستان میں زمین اسمان کا فرق ہے اور وہاں فوجی انقلاب کو عوامی طاقت کے زریعے کچلنے کی کئی وجوہات ہیں، اگر آپ ترکی معیشت کا ایک تقابلی جائزہ لیں اور اس کا موازنہ پاکستان کے ساتھ کریں تو آپ کو ان عوامل کا اسانی سے اندازہ ہوجائیگا جو ترکی میں فوجی بغاوت ناکام کرنے میں کارفرما ہیں،،،، ترکی نے موجودہ صدر طیب ردوان کی قیادت میں پچھلی دہائی میں جو ترقی کی اس کے مطابق تاریخ نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ آج ترکی میں ایک امرانہ جمہوریت اور عوام مخالف سخت فیصلوں کے باوجود ترکش عوام نے فوج کی جگہ اردوان کا ساتھ دیا ہے، 2002سے 2012تک ترکی کی جی ڈی پی کی شرح نمو 64 فیصد اور فی کس امدنی 43 فیصد بڑھ گئی، جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2006 سے 2016 تک 5.82 فیصد سے 4.24 فیصدتک گرگئی ، عالمی بینک کے مطابق 2002 میں ترکی کی جی ڈی پی 232.5 ارب ڈالر تھا جو 2012میں 788 ارب ڈالر تک بڑھ گیا، ایک دہائی میں جی ڈی پی میں تقریباً 240 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی میں دس سال میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا ، 2002میں ترکی میں فی کس امدنی 3570 ڈالر تھا جو کہ 2012میں بڑھ کر10554 امریکی ڈالر تک بڑھ گئی، جبکہ پاکستان میں فی کس امدنی پچھلے دس سالوں میں 586 امریکی ڈالر سے 1561امریکی ڈالر ہوگیا ، اردوان حکومت کو 2002میں آئی ایم ایف کا 23.5 ارب ڈالرکا قرضہ وراثت میں ملا لیکن انہوں نے 10 سال میں ترکی کو آئی ایم ایف کے چنگل سے ازاد کردیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ مزید ڈیل کرنے سے انکاربھی کردیا ، بلوم برگ کے مطابق ترکی نے 2013میں آئی ایم ایف کے ساتھ52 سالہ تعلقات ختم کردیے اور یہ اعلان کردیا کہ اب آئی ایم ایف ترکی سے قرضہ لے سکتا ہے، دوسری جانب 2002میں پاکستان پر آئی ایم ایف کے قرضے36000 ارب امریکی ڈالر تھے جو کہ ابھی 70000 ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور ہر پاکستانی 120,000ہزار روپے آئی ایم ایف کا مقروض ہوگیاہے ،،، اردوان جب حکومت میں آئے تو اس کی حکومت نے اپنا قرضہ جی ڈی پی کے 78 فیصد سے کم کرکے 40 فیصد تک لانے میں کامیاب ہوئے اور 2010میں پانچ سال کا کریڈٹ کا ریکارڈ 1.17 کے نہ صرف ریکارڈ کم سطح پر لایا بلکہ یہ شرح یورپی یونین کے 9ممبر ممالک اور روس سے بھی کم تھا ، جبکہ پاکستان کے قرضوں کا جی ڈی پی 514 فیصد بڑھ گیا اور ترکی کے برعکس پاکستان نے تاریخ کے بلند ترین بیرونی قرضوں کا ریکارڈ بنایا،،،، 2002 میں ترک سنٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 26.5 ارب ڈالر تھا جو کہ 2011 میں بڑھ کر 92.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ پاکستان پچھلے دس سالوں میں ذرمبادلہ کے ذخائر 6بلین امریکی ڈالرسے 23.1بلین امریکی ڈالر تک صرف 17فیصداضافے کے ساتھ بڑھا دیا ، 2004میں تین سال کے مختصر عرصے میں اردوان حکومت نے افراط زر 42فیصد سے کم کرکے 9فیصد پر لائے جبکہ پاکستان کی افراط زر پچھلے پانچ سال میں 11.9سے صرف 4.17تک صرف 7فیصد کم ہوا،،، اردوان کی قیادت میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26 سے بڑھ کر 50 ہوگئی جبکہ پاکستان میں قومی ائیرلائن دنیا کی بہترین ائیرلائن سے دنیاکی ناکام ترین ائیرلائن کے طور پر سامنے آیا اور 2002 میں ملتان ائیرپورٹ کے بعد کوئی ایک بھی نیا ائیرپورٹ نہیں بنا سکا،،، ترکی میں 2002سے 2011 تک 13500کلومیٹر ایکسپریس ویز تعمیر ہوئیں جب کہ پاکستان کے مواصلاتی نظام میں صرف پشاور اسلام آباد موٹر وے کا اضافہ ہوا ،،،، ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اردوان حکومت نے ہائی سپیڈ ریلوے لائن تعمیر کیا اور 2002 میں ہائی سپیڈ ٹرین سروس بھی شروع کردی گئی جبکہ پاکستان میں ریلوے خسارے میں چلا گیا اور مجبوراً کئی ٹرین سروسز بند ہوکرنے پڑے ، ،، ترکی میں آٹھ سال میں 1076 کلومیٹر نئی ریلوے لائن تعمیر کی گئی جب کہ پاکستان میں پچھلے دس سالوں میں ایک کلومیٹر بھی نئی ریلوے لائن بھی نہیں بچھائی گئی، اردوان حکومت نے 5449کلومیٹر پرانے ریلوے لائن کی تعمیر کی جبکہ پاکستان کے ریلوے نے کئی شہروں کیلئے اپنی اپریشنز بند کرادی اور ریلوے ٹریک بوسیدہ ہوکر آہستہ آہستہ کباڑخانو ں میں چلا گیا،،، اردوان نے صحت کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کیے اور سرمایہ لگاکر گرین ہیلتھ کارڈ پروگرام شروع کیا جس سے غریبوں کو مفت علاج کے سہولیات ملی، جبکہ پاکستان میں پچھلے دس سالوں میں میڈیسن کی قیمتوں میں 800 فیصد اضافہ ہوا اور پورے ملک مینکوئی ایک بھی ایسا سرکاری ہسپتال نہیں جہاں پر صحت کے سو فیصد فری سہولیات دیاجارہا ہوں، پورے ملک کے ہسپتالوں کے معیار کا یہی صورتحال ہیں کہ حکمران خود ہی علاج کرنے کیلئے کروڑوں روپے لگاکر باہر جاتے ہیں اور پورے پاکستان میں کوئی ایسا قابل اعتماد ہسپتال موجود نہیں جہاں پر صحت کے معیاری سہولیات مل رہے ہوں، 2002سے 20012کے درمیان ترکی میں صحت کیلئے فی کس اخراجات 189 ڈالر سے بڑھاکر 555ڈالر کر دیے گئے جبکہ پاکستان میں اس کے ڈبل تناسب سے علاج مہنگا کردیا گیا ،،، اردوان حکومت نے 2002اور 2012 کے درمیان تعلیم پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی اور وزارت تعلیم کی بجٹ 7 ارب لیرا سے بڑھا کر 43 ارب لیرا کر دیے ، سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کیلئے رکھا گیا جب کہ پاکستان میں 11فیصد اضافے کے ساتھ ٹوٹل بجٹ کی 5فیصد تعلیم کیلئے مختص کردیے گئے،، ، 2002 میں ترکی میں یونیورسٹیوں کی مجموعی تعداد 98 تھی جو کہ دس سال میں 186ہوگئی جبکہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں ایک بھی سرکاری یونیورسٹی تعمیر نہیں ہوئی،،،2002 میں ترکی کا 222 لیرا ایک امریکی ڈالر کے برابر تھے جبکہ اس وقت 3 لیرا ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے اور دس سال میں ترکی کے لیرا نے ڈالرکو تاریخ کے بد ترین کم سطح پر گرا دیا ہے، دوسری طرف پاکستان میں 2002 میں 55 پاکستانی روپے ایک امریکی ڈالر کے برابر تھے جو کہ اب 104روپیہ ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے اور پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 236 فیصد گرچکا ہے، ان تمام باتو ں کے پیچھے دونوں ملکوں کی ترقی کی اس تناسب کے باوجود کچھ لوگ عبداللہ دیوانہ بن کر پرائے شادی میں ناچ رہے ہیں اور پاکستانی عوام کو بھی ترکش عوام کی طرح ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کی ترغیب دیکر جیتے جاگتے جمہوری انقلاب کے خواب دیکھتے ہیں ، لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ پاکستان میں انقلاب لانے کیلئے قابل اور صحیح لیڈر شپ چاہیے جوکہ الحمداللہ پاکستان میں ٓج تک پیدا نہیں ہوا ہے ، اگر تاریخ کے اوراق دیکھے جائیں تو آج سے 23 سو سال پرانے یونان میں جب ریاست کی جدید طور پر بنیاد رکھی جارہی تھی تو کچھ اصول بنائی گئی تھی کہ ریاست کی بھاگ ڈور ان چار طبقوں کے ہاتھ میں کبھی نہیں دی جائیگی، جاگیردار، زردار، تاجر، اور سوداگر! اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جاگیردا ر اپنی ریاست کے غریب لوگوں کو کمی کمین اور ہاری سمجھ کبھی بھی ان کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھیں گے، ،، زردار ریاستی وسائل کو اپنا جاگیر سمجھ کر ان میں تصرف کرے گا،،، تاجر ملکی وسائل اپنی ذاتی نفع و نقصان کے کسوٹی پر پرکھتے ہوئی استعمال کرے گا جبکہ سوداگر کبھی مستقبل کا نہیں سوچے گا بلکہ وقتی فیصلوں کے ہاتھوں ملک کو نقصان پہنچائے گا، آج بھی ایک کامیاب ریاست کا تصور ان چار اصولوں کو نظرانداز کرکے ممکن نہیں ، ہماری 70 سالہ ناکامی کے راز بھی یہی ہے کہ ہمارے ملک پر صرف یہ چار طبقے قابض ہیں لیکن جو لوگ پاکستانی عوام کو ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کی ترغیب دے رہے وہ اپنے ذہن کے مطابق صحیح ہے اور اپنے اقاؤ ں کی نمک حلالی کرنے کیلئے بھرپور خدمت کررہے ہے کیونکہ حکمرانوں کے پاس غربت کو مٹھانے کیلئے کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں ، وہ سوچ رہے ہیں کہ غربت تو ختم نہیں ہورہی لیکن اگر اسی طرح عوام کو ٹینکوں کے سامنے لیٹنے پر اکسایا جائے تو جمہوریت کیلئے قربانی دینے کے بہانے غریب بھی ختم ہوجائیں گے اور فوجی ٹینکوں کا راستہ بھی رک جائیگا، حس کم جہاں پاک،،،، لیکن پاکستانی عوام اتنی بیوقوف نہیں بلکہ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کی بجائے فوجی ٹرکوں پر چڑھ جائینگے ، کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی قیادت نے ہی ملک کی حالت اس نہج پر پہنچا دیے ہیں۔
Nek Amal Utmani
About the Author: Nek Amal Utmani Read More Articles by Nek Amal Utmani: 2 Articles with 1678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.