آزاد جموں و کشمیرکے حالیہ الیکشن میں مسلم
لیگ ن نے کلین سویپ کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ دوران الیکشن آپ اور عمران نے
جتنی بھی زہرآلود باتیں کی تھیں اور نواز شریف کو مودی کا یار کہہ کربار
بار مخاطب کیاتھا ۔ کشمیری عوام نے نہ صرف آ پ کی ان کی باتوں کو یکسر
مسترد کردیا ہے بلکہ اپنے ووٹ کی طاقت سے نواز شریف کی ترقی پسندانہ
پالیسیوں کی کھلے انداز میں حمایت بھی کی ہے ۔ میری ذاتی رائے میں پاکستان
کی سیاسی جماعتوں کو اپنے گندے کپڑے کشمیر میں جاکر نہیں دھونے چاہیئیں تھے
لیکن آپ نے یہ کارنامہ بھی کردکھایااور چیخ چیخ کر ایسی گفتگو کی جیسے آپ
کوئی کارنامہ انجام دے رہے ہوں۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان میں جتنی
بھی سیاسی جماعتیں اس وقت موجود ہیں ۔ کارکردگی کے اعتبار سے کسی کو بھی
مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ دوران الیکشن جو بھی وعدے کیے جاتے
ہیں ٗ عموما عملی کارکردگی اس کے برعکس ہی ہوتی ہے ۔ آپ نہ صرف سیاست میں
نابالغ ہیں بلکہ بات کرتے وقت عقل اور ہوش کادامن بھی چھوڑجاتے ہیں آپ کو
اس بات کا بھی علم نہیں ہوتا کہ جو بات آپ کہہ رہے ہیں وہ کشمیر میں کہنی
بھی چاہیئے یا نہیں ۔ لیکن جس خاندان سے آپ کا تعلق ہے شاید آپ نے کبھی
اپنے نانا(ذوالفقار علی بھٹو ) ٗ والدہ( بے نظیر بھٹو ) اور والد( آصف علی
زرداری) کے ادوار میں ہونے والی کرپشن اور زیادتیوں پر غور نہیں کیا ۔جن کی
مہا کرپشن کی کہانی آج بھی نہ صرف پاکستانی تاریخ بلکہ عالمی سطح پر سنی
اور سنائی جاتی ہیں جس سے پاکستان کا حقیقی چہرہ بہت حد تک مسخ ہوچکا ہے ۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو یا تو دہشت گردی کاحامی سمجھا جاتا ہے یا پھر کرپٹ
۔بہرکیف سب سے پہلے بات آپ کے نانا سے شروع کرتے ہیں جن پر پاکستان کو دو
ٹکڑے کرنے کا الزام بھی لگا جس کی وجہ سے 90 ہزار پاکستانی فوجی اور سویلین
بھارتی جیلوں میں قید بھی ہوئے ٗ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر تمام
اصول اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
کا عہدہ سنبھالا حالانکہ دنیاکی تاریخ میں کہیں بھی سویلین مارشل لاء
ایڈمنسٹریٹر نہیں بن سکتا لیکن آپ کے پیارے نانا جان نے یہ اعزاز بھی حاصل
کیا۔مزید انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کے ساتھ جو
بدترین اور انسانیت سوز سلوک کیا وہ تو الگ داستان الم ہے لیکن پیپلز پارٹی
کے بانی اراکین بھی ذوالفقار علی بھٹو کے ظلم و تشدد سے محفوظ نہ رہ سکے
۔آزادکشمیر کا دلائی کیمپ بھٹو کے ظلم و تشدد کی تاریک داستانوں کو اپنے
دامن میں آج بھی سمیٹے ہوئے ہے ۔ آپ کے نانا نے اقتدار پر مزید پانچ سال
قابض رہنے کے لیے1976ء میں الیکشن کروائے جنہیں تاریخ کے بدترین الیکشن
قرار دیاگیا۔ یہ اسی الیکشن کا اعزاز ہے کہ مخالف امیدواروں کو گھروں سے
اغوا کرکے پیپلز پارٹی کے آدھے سے زیادہ امیدوار بلا مقابلہ منتخب کروالیے
گئے ۔پھر الیکشن کے دن پیپلز پارٹی کے غنڈے خالی بکس اٹھا کر گھر لے گئے
اور وہاں سے ووٹوں کے بھرے بکس لاکر پولنگ بوتھوں میں رکھ دیئے اور شام کو
اعلان کردیا گیا کہ پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں کلین سویپ کیاہے۔جب قومی
جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے پاکستانی قوم نے بھٹو کی اس بدترین دھاندلی کے
لیے سڑکوں پر احتجاج کیا تو پیپلز پارٹی کی قائم کردہ غنڈہ تنظیم ایف ایس
ایف کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے مسلح غنڈوں نے بھی بلند
عمارتوں پر مورچے بنا کر عوام پر سیدھی گولیاں چلائیں جس سے ہزاروں نہتے
شہری شہید ہوگئے ۔یہ سیاہ کارنامہ بھی آپ کے نانا (بھٹو) دور کا ہی ہے جس
نے ہیرا منڈی کی غلیظ عورتوں کوپولیس کی وردی پہنا کر نتھ فورس کے نام سے
احتجاج کرنے والی عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے لیے کھلی چھٹی دی ۔ یہ بھٹو
کا ہی کارنامہ تھاکہ اس نے پاک فوج کی موجودگی میں ایک وفاقی نیم عسکری
تنظیم ایف ایس ایف بنائی جس نے ڈیفنس آف رولز پاکستان کے نام پر پاکستان
بھر میں پیپلز پارٹی کے مخالفین کو نہ صرف مشق ستم بنائے رکھا بلکہ قتل و
غارت گری کا بازار گرم کیا ۔ بھٹو احمد رضا قصوری کے والد کے جس قتل کیس
میں تختہ دار پر چڑھے ٗیہ قتل بھی بھٹو کے ایما پر ایف ایس ایف کے اہلکاروں
نے ہی کیا تھا جنہوں نے عدالت میں وہ تمام دستاویز دکھادیں جس کی بنیاد پر
بھٹو کو سزائے موت کا مستحق قرار دیاگیا ۔ یہ بھٹو ہی تھا جو آرمی چیف کی
حیثیت سے جنرل محمد ضیاء الحق کی ایک بار نہیں ہر کابینہ اجلاس میں بینڈ
ماسٹر کہہ کر توہین کیا کرتا تھا ۔حد سے بڑھتے ہوئے احتجاج کو روکنے کے لیے
بھٹو کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں جنرل ضیاء الحق کو کہا گیا کہ اگر
جمہوریت بچانے کے لیے دو تین لاکھ شہری مار دیئے جائیں تو یہ قیمت زیادہ
نہیں ہے لیکن جنرل ضیاء الحق نے اس کھلی وحشت اور قتل و غارت گری سے صاف
انکار کردیا ۔ پھر بھٹو نے ملک میں جزوی مارشل لاء لگا کر فوج کو شہریوں کے
پیچھے لگا دیا۔ یہ بھٹو کا ہی دور تھا جب فوجی احتجاجی جلوس کے شرکا کا
تعاقب کرتے ہوئے لوہاری لاہور کی جامع مسجد میں جوتوں سمیت گھس گئے ۔جس پر
عوام اور فوج میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا ۔ بھٹو نے نہ صرف اپنے وزیروں
اور مشیروں کی عریاں تصویروں کے البم بنوا رکھے تھے بلکہ آرمی چیف اور آرمی
ہاؤس کی جاسوسی کے لیے بھی ایک وسیع نٹ ورک بنا رکھا تھا کہ جنرل ضیاء الحق
سے کون کون ملتا ہے اور وہ کس کس سے ملتے ہیں۔ مذاکرات کی آڑ میں وسیع
پیمانے پر احتجاجی جلسوں میں موجود پاکستانی عوام کے قتل عام کی لیے بھٹو
نے مکمل تیاری کرلی تھی ۔اس صورت حال میں تمام کور کمانڈروں نے صاف الفا ظ
میں جنر ل ضیاء الحق کو کہہ دیا تھا کہ پاک فوج ملک اور عوام کے تحفظ کے
لیے بنائی گئی اور ہمارا حلف اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے ہی عوام
اور شہریوں پر اندھادھند گولیاں چلایں ۔ کور کمانڈرز کے انکار کے بعد جنرل
ضیاء الحق کے پاس دو ہی راستے تھے ایک پاکستان کو بچانے کے لیے ذوالفقار
علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا جائے اور دوسرا راستہ تھا کہ بھٹو کے ایما پر
لاکھوں شہریوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے بھٹو کے جذبہ انتقام کو تسکین دی
جائے ۔ لاہور میں رتن سنیما آج بھی بھٹو کے ظلم و استبداد کی گواہی دیتاہے
جس کے اوپر چڑھ کر پیپلز پارٹی کے مسلح جیالوں نے پاکستان کی نہتی عوام پر
اندھا دھند گولیاں چلائی اور نعشوں کے ڈھیر لگا دیئے تھے ۔ لاہور کی سڑکیں
انسانی خون سے سرخ ہوگئیں ۔پھر جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کے عہد ستم سے
پاکستانی قوم کو بچانے کے لیے مارشل لاء لگایا تو اس وقت نہ صرف پاکستانی
قوم نے مٹھائیاں بانٹی تھیں اور شکرانے کے نوافل ادا کیے بلکہ خود پیپلز
پارٹی کے وزراء اور مشیروں( جن میں سب سے نمایاں ڈاکٹر کوثر نیازی تھے)نے
اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا "بہت دیر کی مہربان آتے آتے"۔اگر آپ کو
میری اس بات کا یقین نہ آئے تو آپ پاکستان کے ممتاز کالم نگار ٗ رائٹر اور
بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود سے اس بارے میں پوچھ سکتے ہیں جنہوں نے روزنامہ
جنگ میں شائع ہونے والے ایک کالم میں ڈاکٹر کوثر نیازی کے حوالے سے یہ فقرہ
لکھا تھا ۔
شاید یہ بھی بات بھی آپ کو ان دنوں کے اخبارات پڑھ کر معلوم ہوجائے گی کہ
ایوان صدر ٗ وزیر اعظم ہاؤس ٗ گورنر ہاؤس سمیت تمام حکومتی ایوان بے حیائی
اور بیہودگی مرکز کا روپ دھار چکے تھے جہاں پاکستانی لڑکیوں کی عصمتوں سے
بے دریغ اور بلاخوف کھیلا جاتا تھا ۔اگر میری ان باتوں کا یقین نہ آئے تو
آپ خود سندھ کی کسی بھی یونیورسٹی کی لائبریری میں جاکر بھٹو دور کے
اخبارات اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں ۔ بھٹو بظاہر تو سویلین تھا لیکن اس کے مزاج
میں آپ کی طرح ایک سخت گیر آمر چھپا ہوا تھا ٗ وہ اپنی مخالفت برداشت نہیں
کرتا تھا اس میں ظرف اور برداشت کی طاقت بہت کم تھی ۔ ان کے مزاج کو مدنظر
رکھتے ہوئے یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں
مشرقی پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی بندی کے حوالے سے پولینڈ کی قرار
داد نہ پھاڑتے تو بنگلہ دیش کبھی وجود میں نہ آتا۔لیکن ہیرو بننے کے چکر
میں پولینڈ کی قرار داد پھاڑ کر سلامتی کونسل کے اجلاس سے ایسے چلے آئے
جیسے انہوں نے جنگ جیت لی ہے جبکہ بھٹو کی اس حرکت کے نتائج انتہائی بھیانک
اور برعکس نکلے اورپاک فوج کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ۔یہ
حزیمت اور توہین کبھی پاکستان کے ماتھے سے صاف نہیں ہوسکتی ۔ان کا طرز
حکمرانی جہاں آمرانہ اور ظالمانہ تھا وہاں انہوں نے دو ایسے کام بھی کیے جن
کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ایک قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا اور
دوسرا متفقہ پاکستان آئین ۔ اس کے علاوہ ان کا ساڑھے چھ سالہ دور بدترین
ظلم و تشدد اور عوام دشمن پالیسیوں سے ہی لبریز نظر آتا ہے ۔جنرل یحیی خاں
اور بھٹو کے مابین شراب نوشی ٗ بدکاری اور زناکاری مشترکہ صفت تھی دونوں
ایک ہی فطرت کے حامل انسان تھے ۔کسی نے کیا خوب کہاتھا کہ جنرل یحیی کی
پارسائی کی قسم دینے کے لیے کوئی موجود نہیں ہے لیکن بھٹو کو فرشتہ ثابت
کرنے کے لیے ہزاروں جیالے سامنے آجاتے ہیں ۔جو بھٹو کی پارسائی کی قسم دینے
کے لیے اپنے جسموں کو بھی آگ لگانے سے دریغ نہیں کرتے ۔
پاکستان کے ممتاز اور سنئیر صحافی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ایک انٹرویو( جو
سنڈے میگزین ایکسپریس میں شائع ہوا تھا ) میں یہ واقعہ بتاتے ہیں کہ بھٹو
نے جب روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا جو بہت مقبول بھی ہوا ۔ اس کے بعد وہ
جب لاڑکانہ پہنچے تو لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر بھٹو صاحب کے ذاتی دوستوں میں
شامل تھے اس نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ آپ نے روٹی کپڑا مکان کا جو نعرہ
لگایا ہے وہ آپ کہاں سے دیں اور اس کے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے ۔ یہ
سننے کے بعد بھٹو صاحب مسکرائے اور کہا تم کیوں پریشان ہورہے ہو ۔ پاکستانی
ایک بیوقوف قوم ہے اس کو بیوقوف بنانا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔ یہ روٹی
کپڑا مکان کے نعرے پر ہی پیپلز پارٹی کو ہمیشہ ووٹ دیتی رہے گی ۔ بہرکیف یہ
تو آپ کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کی چند جھلکیاں تھیں جو
تاریخ کااہم حوالہ ہیں اور یہ تاریخی حوالے کبھی ختم نہیں ہوتے ٗ انسان
دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے لیکن تاریخ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
اب آتے ہیں آپ کی والدہ مرحومہ( بے نظیر بھٹو ) کے دور کی جانب ۔ ان کا
مزاج بھی پاکستانی غریب قوم سے یکسر مختلف تھا۔ وہ آپ کی طرح یورپ کے آزاد
خیال معاشرے میں پلی بڑھیں اور پاکستانی معاشرے کی بجائے یورپی معاشرے کی
عکاس رہیں ۔انہوں نے غریب کی بات ضرور کی لیکن غربت کبھی دیکھی نہیں
تھی۔بھٹو کی پھانسی کے بعد ہمدردی کے ووٹ لے کر وزارت عظمی کے منصب تک جا
پہنچی ۔ لیکن ان کے دونوں ادوار اس بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے سوائے
کرپشن اور امریکہ کی غلامی کے ملک کو کچھ نہیں دیا ۔ وہ جتنا عرصہ بھی
وزارت عظمی پر فائز رہیں ٗ انہیں سیکورٹی رسک کادرجہ ہی حاصل رہا ۔ یہ بات
بھی تاریخ کے اوراق میں موجود ہے کہ وطن عزیز سے مشکوک وفاداری کی بنا پر
انہیں ایٹمی پروگرام اور کہوٹہ لیبارٹریز میں داخل نہیں ہونے دیاگیا ۔ پھر
وہ وقت بھی آیا جب انہوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور تنصیبات کے بلیو
پرنٹ متعلقہ حکام سے طلب کیے ۔ جو بلیو پرنٹ انہیں فراہم کیے گئے وہ کچھ ہی
دنوں بعد امریکہ پہنچ چکے تھے ۔ جب امریکیوں نے ان بلیو پرنٹ کو نقلی قرار
دیا تب یہ راز کھلا کہ یہ پاکستان کے ایٹمی تنصیبات اور اثاثوں کے راز آپ
کی والدہ محترمہ نے امریکہ کے سپرد کرکے وطن سے غداری کا عملی ثبوت دیا تھا
۔پھر جتناعرصہ بھی وہ عہدے پر فائز رہیں فوج اور ان کے مابین اعتماد کی فضا
کبھی قائم نہ ہوسکی ۔ بلکہ صوبہ پنجاب ان کے جذبہ انتقام کا نشانہ بنتا
رہا۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے ۔جب بھارت نے
جی ایم سید اور دیگر قوم پرستوں کو اپنے جال میں پھانس کر سندھ کو پاکستان
سے علیحدہ کرنے کا منصوبہ بنا یا تو اس کے جواب میں جنرل ضیاء الحق نے
مشرقی پنجاب کے سکھوں کو اپنی اخلاقی تائید و حمایت کایقین دلا کر نہ صرف
آزادی کی راہ پر گامزن کردیاجس سے مشرقی پنجاب کے تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات
بھارتی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے دکھائی دیئے ۔ بینظیر بھٹو کے ہی ایک
وزیر نے خالصتان تحریک کی جدوجہدمیں شریک سکھوں کی فہرستیں بھارت کو فراہم
کرکے ایک بار پھر پاکستان سے اپنی وفاداری کو مشکوک کر لیا تھا ۔ یہ بات
بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ اگر سکھوں کی فہرستیں بھارت کے سپرد نہ کی
جاتیں تو آج مشرقی پنجاب خالصتان کے روپ میں دنیا کے نقشے پر موجود ہوتا
بلکہ بھارت کا غرور بھی خاک میں مل چکا ہوتا۔ اس وقت وادی کشمیر میں بھارتی
فوج جس قدر درندگی کامظاہرہ کررہی ہے ۔ خالصتان کے قیام کے بعد کشمیر خود
بخود بھارتی چنگل سے نکل کر پاکستان کے ساتھ الحاق کرچکاہوتا ۔ بے نظیر
بھٹو کے دور میں ہی وزیر اعظم ہاؤس کمیشن مافیا اور کرپشن کامرکز بنا۔ جہاں
آپ کے والدمحترم مسٹر ٹین پرسنٹ کا روپ دھا کر پاکستان کے تمام کاروباری
افراد سے کھلے عام بھتہ وصول کیا کرتے تھے ۔جو شخص بھتہ دینے سے انکار کرتا
اسے اگلے جہا ن پہنچا دیا جاتا ۔یہ واقعہ اسی دور کی یاد گار ہے کہ امریکہ
سے ایک پاکستانی اربوں روپے لے کر پاکستان میں سرمایہ کاری کی غرض سے آیا۔
اس نے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں آپ کی والدہ محترمہ سے ملاقات کی اور بتایا
کہ وہ اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ۔جب یہ خبر آپ کے والد
محترم تک پہنچی تو انہوں نے اس پاکستانی کی ٹانگ پر بم باندھ کر ساری رقم
بنک سے نکلوا کر اس سے چھین لی اور وہ بے چارہ وطن پرستی کا جذبہ دل میں
لیے روتا ہوا واپس امریکہ چلا گیا ۔ یہ کیس بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ڈائریکٹ
اور ان ڈائریکٹ کرپشن کے تمام ریکارڈ بے نظیر دور میں توڑے گئے ۔ پھر
اقتدار کے تیسری بار حصول کے لیے بے نظیر بھٹو جب مشرف دور میں پاکستان
لوٹیں تو وہ دہشت گردی کاشکار ہوکر قبر میں اتر گئیں جسے بھٹو خاندان اور
جیالے شہید جمہوریت کے خطاب سے نوازتے ہیں حالانکہ انہیں شہید جمہوریت کہنا
جمہوریت کی توہین ہے کیونکہ وہ جمہوریت کی بقا کے لیے نہیں صرف اور صرف
اقتدار حاصل کرنے کے لیے پاکستان آئی تھیں تاکہ کرپشن ٗ رشوت خوری اور
اقربا پروری کے ایک بار پھر ریکارڈتوڑے جاسکیں ۔ زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ
ہے لیکن الیکشن سے پہلے ہی انہیں موت کاسامنا کرنا پڑگیا ۔
اب آتے ہیں آپ کے عظیم والد محترم آصف علی زرداری کے دور اقتدار کی جانب ۔
بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے ضمن میں حاصل ہونے والی ہمدردی نے پاکستانی
قوم کو ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ زرداری
صاحب جنہیں ماضی میں مسٹر ٹین پرسنٹ کہاجاتاتھا وہ صدر پاکستان کے عظیم
ترین منصب پر فائر ہوگئے ۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک مسلمان رہنما نے بہت خوب
بات کی کہ مجھے پاکستان کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے صحافی نے اس کی وجہ
پوچھی تو اس نے کہا جس شخص کو پہلے پاکستانی قوم مسٹر ٹین پرسنٹ کہہ کر
پکارتی ہے اسے اب مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بنا کر منصب صدارت پر بٹھا دیاگیا ۔ یہ
اسی دور کا ایک مقبول نعرہ تھا کہ "اک زرداری سب پر بھاری"۔ منافقانہ سیاست
کے داؤ پیچ اور لوٹ مار کے طریقے جتنے آپ کے والد محترم کو آتے ہیں اتنے
شاید ہی کسی اور آتے ہوں ۔ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے شمارہ جولائی 2016ء میں
آپ کے والد محترم کی منفرد کرپشن کی ایک داستان بھی شائع ہوئی جو واقعی
پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جسے پڑھ کر انداز ا ہوتا ہے کہ ڈائریکٹ کرپشن تو
سنی تھی لیکن ان ڈائریکٹ کرپشن کا آئیڈیا بھی آپ کے والد محترم کے زرخیز
ذہن کا عکاس تھا ۔یہاں صرف ایک پہرے کا اقتباس دینا ضروری تصور کرتا ہوا
لیکن پورا مضمون ہی قابل توجہ ہے ۔
"اکتوبر 1993ء میں بے نظیر بھٹو جب مسند اقتدار پر دوبارہ جلوہ افروز ہوئیں
تو چند ماہ بعداسلام آباد کے مضافات میں ایک نثار احمد خاں نامی آدمی مقامی
زمین داروں سے یہ کہتے ہوئے پایاگیا کہ وہ وزیر اعظم کے شوہر آصف علی
زرداری کا خاص آدمی ہے۔ یہ آدمی امریکہ سے آیا تھا وہ مقامی زمین داروں پر
زور دینے لگا کہ وہ اپنی زمینیں اونے پونے داموں اسے فروخت کردیں جو انکار
کرتا اس کو دھمکی دی جاتی کہ سی ڈی اے (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ) اسے
مارکیٹ ریٹ سے سستے داموں خرید لے گی۔ یوں دھونس اور لارے لپوں کے ذریعے
نثار خاں نے 307 ایکڑ زمین( 2460کنال)نہایت سستے داموں خرید لی ۔"بعد میں
یہی زمین کئی ہاتھوں سے ہوکر آصف علی زرداری کے قبضے میں جاپہنچی جسے بعد
میں اربوں روپے مالیت میں پارک کا حصہ بنانے کے لیے فروخت کرنے کی پیش بندی
کی گئی ۔اسے کہتے ہیں کہ دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ .... تم
قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔
جناب زرداری کو پیسے اکٹھے کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے جس کی تسکین کے
لیے اپنے منصب کا خیال رکھے بغیر وہ مسٹر ٹین پرسنٹ سے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بن
گئے ۔ان کے دور کے ابتدائی دنوں میں کراچی سٹاک ایکسچینج میں جوکھربوں روپے
ڈوبے اور ڈوبنے والی کمپنیوں کے نہ جانے کتنے مالکان مالی دیوالیہ پن
کاشکار ہوکر قبروں میں اتر گئے یہ بھی تاریخ کاایک اہم باب ہے ۔ میرا ایک
جاننے والا بھی کراچی اسٹاک مارکیٹ میں روزانہ کروڑوں کا بزنس کرتا تھا
یکدم وہ بیچارہ کوڑی کوڑی کامحتاج ہوکر ایک کلرک کی نوکری کرنے پر آج تک
مجبور چلا آرہاہے ۔ اس کی زبانی یہ بات سنی تھی کہ مسٹرہنڈرڈ پرسنٹ کا یہ
حکم ہے کہ جس نے بھی پاکستان میں کاروبار کرنا ہے وہ اپنے کاروبار کی مالیت
کے اعتبار سے ایک معقول اور طے شدہ رقم ایوان صدر جمع کروائے ۔یہ آپ کے
والد گرامی کے دورحکومت کاہی کارنامہ تھاکہ پاکستان کرپشن کے میدان میں
عالمی سطح پر مقبولیت کی تمام حدیں عبور کرچکاتھا ۔ چین اور سعودی عرب جیسے
دوست ممالک نے بھی مشکل ترین وقت میں پاکستان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا
تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی سطح پر ہر شخص یہ جانتا تھا کہ پاکستان کو
دی جانے والی امداد سیدھی زرداری کے بنک اکاؤنٹ میں جائے گی ۔اس دور میں
جتنی مرتبہ بھی سیلاب آئے لوگ امداد کو ترستے ہوئے قبروں میں اتر گئے ۔
کرپشن ٗ رشوت خوری ٗ بھتہ خوری اور اغوا کاری کے عالمی ریکارڈ زرداری دور
میں ہی قائم ہوئے ۔پھر سوئزرلینڈ کے بنکوں میں پڑی رقم کی واپسی کے حوالے
سے صدر پاکستان کی حیثیت سے اسثتنا ء کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ میں جو
طویل جنگ لڑی گئی اس پر بھی سرکاری خزانے سے من پسند جیالے وکیلوں کو
کروڑوں روپے کی فیسیں آنکھیں بند کرکے ادا کردی گئیں ۔عدلیہ اور حکومت کے
مابین یہ جنگ پانچ سال تک جاری رہی ۔اس دوران نہ صرف صدر پاکستان کی حیثیت
سے زرداری صاحب نے بلکہ وزیر اعظم سمیت ہر وزیر اور مشیر نے بہتی گنگا میں
خوب ہاتھ دھوئے اور کروڑوں بلکہ اربوں روپے اپنی اپنی تجوریوں میں بند کیے
۔ بھارت جیسے غیر مسلم ملک میں بھی حاجیوں کو رعایتیں دی جاتی ہیں لیکن
پیپلز پارٹی کے آخری دور میں غریب پاکستانی حاجیوں کو بھی نہیں بخشا گیا
اور اربوں روپے ہڑپ کرلیے گئے جس کامقدمہ اب بھی پاکستانی عدالتوں میں
موجود ہے اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سمیت کتنے ہی جیالے افسرجیل میں
بند ہیں ۔یہ سیکنڈل اس قدر بدترین اور قابل نفرت تھاکہ سعودی عرب کے ایک
وزیر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام اپنے خط میں اس مہا کرپشن کیس کی
نشاندھی کی تھی ۔اس کے علاوہ درجنوں ایسے میگا سیکنڈلز کے مقدمات اور بھی
اسی دور کی یادگار ہیں جن کی تفصیل اخبارات میں آپکو مل سکتی ہے ۔
یہ سب کچھ بتانے کامقصد یہ ہے کہ آپ چیخ چیخ کر اور گلہ پھاڑ پھاڑ
آزادکشمیر کے الیکشن میں کبھی تخت لاہور کاطعنہ دیتے رہے تو کبھی نواز شریف
کو بھارتی وزیر اعظم مودی کا یار کہہ کر مخاطب کرتے رہے ٗکبھی نواز شریف
حکومت تاریخ کی بدترین اور ناکام ترین کرپٹ حکومت قرار دیتے رہے ۔ چھوٹا
منہ اور بڑی بات والا مقولہ آپ پر صادق آتاہے ۔اگر وہ انسان یہ بات کہے جس
کا اپنا دامن صاف ہو تو بات مانی جاسکتی ہے لیکن جس کا اپنا ہی گریبان
کرپشن ٗ رشوت خوری ٗ کمیشن اور بھتہ مافیا کی وجہ چاک ہو وہ کسی اور پر کیا
الزام لگا سکتا ہے ۔ پنجابی زبان میں کہتے ہیں چھج تو بولے کیا چھاننی بھی
بولتی ہے۔ جس کے اپنے اندر درجنوں سوراخ ہیں ۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی
کی حکومت ہونے کے باوجود صرف تین نشستیں جیت سکی ہے اس پر آ پ کا یہ بیان
اخبار میں شائع ہوا ہے کہ یہ تاریخ کی بدترین دھاندلی ہے -
مودی مقبوضہ کشمیر اور نواز شریف آزاد کشمیر فتح کررہا ہے ۔یہ بیان دینے سے
پہلے اگر آپ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے 1976والے الیکشن کے نتائج دیکھ
لیتے تو شاید اپنا سر شرم سے جھکا لیتے ۔اس الیکشن میں آدھے سے زیادہ مخالف
امیدواروں کو اغوا کرکے پیپلز پارٹی کے امیدواربلا مقابلہ منتخب کروا لیے
گئے تھے جبکہ باقی کسر پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹوں کے خالی بکس اٹھا کر ان کی
جگہ بھرے بکس رکھ کر پوری کرلی گئی ۔جناب بلاول صاحب یہ ہوتی ہے دھاندلی۔
جس کے روح رواں آپ کے نانا ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ پھر آپ کے نانا
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کو ساڑھے چھ سال تک روٹی کپڑا مکان
کانعرہ لگا کر بیوقوف بنائے رکھا ٗ آپ کی والدہ محترمہ نے اپنے دونوں ادوار
میں ایٹمی راز افشاکرنے کے ساتھ ساتھ مسٹر ٹین پرسنٹ کو کرپشن کے لیے کھلی
چھٹی دیے رکھی ۔ پھر آپ کے والد زرداری نے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بن کر پاکستانی
قوم کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے سے اجتناب نہیں کیا ۔ یہ وہ
حقائق ہیں جن کو دیکھ کر اور جان کر آپ تو اپنی آنکھیں بند کرسکتے ہیں ٗ
پاکستانی قوم اور کشمیری نہیں بھولا سکتے ۔کبھی پیپلز پارٹی چاروں صوبوں
میں یکساں مقبول ہواکرتی تھی لیکن اب سمٹ کر صرف اندرون سندھ تک محدود ہوکر
رہ گئی ہے ۔اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی گزشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے
برسراقتدار ہے جہاں انسان بھی جانوروں سے بدتر حالات میں زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں ۔ تھر کا ریگستانی علاقہ بھی سندھ کا ہی حصہ ہے جہاں انسانیت تڑپ
رہی ہے روزانہ موت کا رقص وہاں ہوتا ہے جہاں انسانوں کو پینے کا پانی تک
میسر نہیں ٗ ہسپتال اور تعلیمی ادارے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے اور جہاں
ہسپتال ہیں وہاں علاج نہیں ۔لیکن خوراک کی کمی کی وجہ سے انسان موت کی وادی
میں اتررہے ہیں اور آپ کی حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی وہ عوام
کے ہر مطالبے پر یہ کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج
بھی بھٹو زندہ ہے ۔عوام بے شک ساری مر جائے ۔انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
سندھی عوام معاشی طور پر بدحال اور زندگی کی بنیادی سہولتیں نہ ملنے سے بے
حال ہوتی جارہی ہے لیکن بھٹو خاندان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہوا
دوبئی ٗانگلینڈ ٗ فرانس اورامریکہ میں اپنے نئے سے نئے محلات تعمیر کررہا
ہے ۔کیا یہ بات سچ نہیں کہ سندھ پر ذہنی طور پر مفلوج ایک مخبوط الحواس
شخص( جس کو نہ دن کو ہوش ہوتا ہے اور نہ رات کو) مسلط کررکھاہے ۔ جس کو
اپنی زبان سے نکلنے والی بات کی اہمیت کا بھی احساس نہیں ہوتا جو اسمبلی
میں ایک گھنٹہ بے تکی باتیں کرتا ہوا سندھی قوم کو بیوقوف بنا رہا ہوتا ہے
ٗاسے دوبئی میں بیٹھے آپ کے والد محترم کنٹرول کرتے ہیں وہ چھوٹے سے چھوٹا
فیصلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے ۔رینجر کی تعیناتی کانوٹیفیکشن ہو یا کراچی
میں صفائی کا مسئلہ وہ منہ اٹھا کر دوبئی کی طرف دیکھنے لگتاہے۔ جہاں آپ کے
کھرب پتی والد محترم سندھی عوام اور پاکستان کا خون چوس چوس کر بادشاہوں
جیسی زندگی بسر کررہے ہیں ۔رہتے تو آپ بھی باہر ہی ہیں لیکن اپنے آباؤ
واجداد کی طرح آپ بھی کبھی کبھار پاکستان کے دورے پر آکر اپنی منافقانہ
اورلغو گفتگو سے پاکستانی قوم کو بیوقوف بنارہے ہوتے ہیں ۔آپ کی چرب زبانی
سے جیالے تو شاید خوش ہوجائیں لیکن عوام خوش نہیں ہوتے ۔وہ وقت گزر گیا جب
پنجاب کے عوام پیپلز پارٹی کو ووٹ دینا اپنا فرض اولین تصور کیا کرتے تھے
ان ووٹوں کے عوض پیپلز پارٹی نے پنجاب کے ٹکڑے کرنے اور معاشی اعتبار سے
تباہ کرنے کے فیصلے کیے ۔ شاید انہی فیصلوں کی بدولت پنجاب سے پیپلز پارٹی
کا صفایا ہوچکا ہے اور جو چند جیالے اب بھی زندہ ہیں وہ بھی آپ کی جھوٹی
تقریریں سن سن کر پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ جائیں گے ۔کیونکہ پیپلز پارٹی
عوام کی خدمت کرنے کے لیے سیاست نہیں کرتی بلکہ لوٹ مار اور کرپشن کے لیے
ہی سیاست میں آئی ہے ۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس پر پیپلز پارٹی کو حکومت کرتے ہوئے
بیس پچیس سال ہوچکے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر میں بیس سے پچیس جرائم
پیشہ ٗ ٹارگٹ کلر اور بھتہ مافیہ کے گروہ پوری شدت کے ساتھ کام کررہے ہیں
۔پیپلز پارٹی کی حکومت ان جرائم پیشہ گروہوں کو ختم کرنے کی بجائے اپنے
جرائم پیشہ گروہ بھی متعارف کروا کر اپنا حصہ وصول کر تی رہی ہے ۔ رینجر کی
بے لاگ رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والے جرائم ٗ ڈاکہ زنی ٗاغوا کاری ٗ
بھتہ خوری اور سرکاری زمینوں پر قبضے کی صورت میں حاصل ہونے والے پیسے کا
80 فیصد بلاول ہاؤ س میں پہنچتا ہے جہاں آپ بذات خود غریبوں کے پیسے سے
بادشاہوں والی زندگی گزارتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی اور اس کے رہنماؤں نے پاکستانی قوم کو جتنا بیوقوف بنانا تھا
ٗوہ بنا چکی۔ اب لوگ کام دیکھتے ہیں آپ کی طرح چیخ چیخ کر تقریریں کرنے
والوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتے ۔ ایک بات کہوں اگر برا نہ لگے تو عمران
خان آپ سے زیادہ اچھا رو بھی لیتا ہے اور چیخ چیخ کر ہر جگہ احتجاج کرتا
بھی دکھائی دیتاہے وہ کئی مہینے تک اسلام آباد کی سڑکوں پر دھرنا بھی دے
چکاہے۔ اس کے رویے کو قوم نے پسند نہیں کیا ۔یہی وجہ ہے کہ عمران کو پہلے
جو مقبولیت حاصل تھی اس میں دن بدن کمی ہوتی جارہی ہے ۔ وہ پنجاب میں تو
ہارتا ہی ہے۔ اسے کراچی میں بھی پہلے سے کم ووٹ ملے ٗ کنٹونمنٹ بورڈ کے
الیکشن میں بھی تحریک انصاف کے امیدوارں کو اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود
شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کو
بدترین شکست ہوئی اور اب آزادکشمیر میں بھی جو کچھ ہواہے وہ آپ کے سامنے ہے
۔
پیپلزپارٹی کے چار ادوار میں کوئی ایک ڈھنگ کی سڑک یا منصوبہ تعمیر نہیں
ہوسکا جس کو مثال بنا کر آپ عوام سے ووٹ مانگتے لیکن اس کے برعکس مسلم لیگ
ن نے لاہور تا پشاور تک موٹروے تعمیر کیا ٗ لاہور تا کراچی موٹروے پر کام
شروع ہوچکا ہے ۔لاہور تا سیالکوٹ موٹروے کے لیے بھی فنڈ مختص کردیئے گئے
ہیں ۔ حویلیاں تا تھاکوٹ تک موٹروے کا پچیس فیصد تعمیرہوچکا ہے جو بعد میں
اقتصادی راہداری کا حصہ بنے گا ۔ مری تا مظفر آباد تک ریلوے سسٹم کی تعمیر
تیزی سے ہورہی ہے جو دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوگا ۔ میرپور تا مظفرآباد
موٹروے پر کام تیزی سے جاری ہے ۔اقتصادی راہداری کے مشرقی اور مغربی حصوں
پر تعمیراتی کام کی تعمیر بھی فوج کی نگرانی میں ہورہی ہے ۔ ملک سے بجلی کی
لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے بیس ہزار میگا واٹ پیداوار کے منصوبے اپنے تکمیلی
مراحل طے کر رہے ہیں ٗ ایران سے سوئی گیس کی درآمدی پائپ لائن پر بھی کام
شروع ہوچکا ہے ۔ پٹرول کی قیمت جو آپ کے والد گرامی کے دور میں 55 روپے سے
110 روپے تک پہنچا دی گئی تھی وہی پٹرول اب پاکستانی قوم کو 67 روپے فی
لیٹر مل رہا ہے ۔ڈالر کو کنٹرول کرکے 105 تک محدود کردیاگیا ہے ۔جبکہ
زرداری دور میں یہی ڈالر 60 روپے سے بڑھا کر 110 تک پہنچ دیاگیا تھا۔لاہور
ٗ ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس سسٹم کامیابی سے کام کررہا ہے ۔ میٹرو
اورنج ٹرین کے منصوبے پر 25 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور 2017کے آخر تک جدید
ترین ریلوے ٹرین سسٹم شروع ہوجائے گا ۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کے عوامی دلچسپی
اور مفاد کے یہ کام تو دوسری جانب آپ کی گلا پھاڑ چیخ و پکار ۔ آپ خود ہی
فیصلہ کریں کہ عوام کس کو ووٹ دیں گے ۔
میں نواز شریف اور دیگر مسلم لیگی ارکا ن اسمبلی کو فرشتہ نہیں کہتا ۔
انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہوں گے لیکن وہ اگر کھاتے ہیں تو
کچھ لگاتے بھی ہیں۔قوم کو کچھ نہ کچھ بنتا ہوا نظر بھی آتا ہے ۔ لاہور میں
جس میٹرو بس سسٹم کی مخالفت ہر دور میں کی جاتی رہی یہی میٹرو بس سسٹم نے
مسلم لیگ کو لاہور ملتان اور راولپنڈی میں کلین سویپ کا اعزاز دیا ہے۔ لوگ
اسے ایک عجوبے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سیاحتی انداز میں اس میں سفر کرکے
فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر میٹرو اورنج ٹرین منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ
گیا تو پھر مسلم لیگ ن کو آنے والے الیکشن میں بھی کوئی شکست نہیں دے سکتا
۔ اس لیے کہ لوگ کام کو دیکھتے ہیں رونے دھونے اور چیخ و پکار نہیں دیکھتے
۔ خدا کا شکر اداکریں کہ ابھی نواز شریف کی توجہ سندھ اور کراچی کی جانب
مبذول نہیں ہوئی اور انہوں نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو ہی وہاں کے
سیاہ و سفید کامالک بنا رکھاہے ۔ اگر نواز شریف سند ھ اور کراچی میں خود
جاکر وفاقی حکومت کے منصوبے شروع کرتے ہیں تو سندھ بھی آپ کے ہاتھ سے
آزادکشمیر کی طرح نکل جائے گا ۔نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔پھر
آپ اور پیپلز پارٹی مکمل طور پر دوبئی کی پارٹی بن کر رہ جائے گی ۔ ان شااﷲ
وہ دن بھی بہت جلد آئے گا۔اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ چیف جسٹس آف
پاکستان کے مطابق سندھ میں سرکاری فنڈکا 80 فیصد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے
اور صرف بیس فیصد سے منصوبے مکمل ہوتے ہیں جو ناقص تعمیر کے بعد جلد زمین
بوس ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک کرپشن کا مسئلہ ہے وہ کسی ایک پارٹی تک محدود نہیں رہی بلکہ جتنی
بھی سیاسی جماعتیں اس وقت موجود ہیں اور جنہیں اقتدار کے ایوانوں میں
پہنچنے کا موقعہ میسر آیا ہے ان تمام نے کرپشن کرنے کا کوئی موقع نہیں
چھوڑا ۔ نواز شریف ہو عمران ہو ٗزرداری ہو یا چوہدری برادران ہوں ۔ وہ فضل
الرحمن ہو یا محمود اچکزئی ہو ۔ کرپشن کے حمام میں سب ننگے اور برابرکے
شریک ہیں ۔ جس ملک میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ میٹر ریڈر سے ارب پتی
بن چکا ہو اس ملک میں کرپشن کا گراف بہت اونچا ہوتا ہے ۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ نے سیاست میں زندہ رہنا ہے تو پھر آپ کو
تاریخ کاایک طالب علم بن کر 1970ء سے آ ج تک کے حالات و واقعات کا ٹھنڈے دل
سے جائزہ لیناہوگا اور اپنا دامن کرپشن سے پاک رکھتے ہوئے پاکستانی قوم کو
عملی طور پر کچھ دیناہوگا ۔امیدہے کشمیر کے الیکشن کے نتائج کے اثرات اور
بدترین شکست کاغم کسی حد تک کم ہوچکاہوگا۔ میری باتیں تلخ ضرور ہیں لیکن ان
میں سچائی چھپی ہوئی اور وہ قابل عمل بھی ہیں ۔جن پر عمل کرکے ہی کامیابی
کے زینے پر قدم رکھا جاسکتا ہے ۔اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت
قبول فرمائیں ۔ |