حج اسلام کا پانحواں رکن ہے ۹ھ میں حج
فرض ہوا اس سے قبل مستحب تھا اسکی فرضیت قطعی ہے جو اسکی فرضیت کا منکر ہو
کافر ہے پوری عمر میں صرف ایک بار حج فرض ہے اسکے علاوہ نفل ہے ۔حج کی
فرضیت پر ارشاد باری تعالی ٰ ہے اِنَّ اَوّلَ بَیْت ٍ وّ․․․․․․․․․․․․ فَاِنَّ
اﷲ غنّی عنِ العٰلمین(القرآن: آلِ عمران ۹۷) ترجمعہ بیشک سب سے پہلا گھر جو
لوگوں کیلئے (عبادت گاہ) بنایا گیا وہ گھر جو مکہ میں ہے وہ برکت والا اور
دنیا بھر کیلئے رہنما ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ابراھیم علیہ السلام کے
کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اسمیں چلا جاتا ہے وہ امن پاتا ہے اور اﷲ کیلئے
لوگوں پر اس کا حج فرض ہے ان پر جو وہاں پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں جو منکر
ہو تو اﷲ کو بھی کسی کی کچھ پرواہ نہیں (کنزالایمان) ۔تفسیر ابنِ عباس میں
آیت بالا کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے سب سے اوّل مسجد جو خدائے تعالیٰ
کی عبادت کیلئے زمین پر بنائی گئی ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے یعنی کعبہ شریف
وہ مبارک گھر ہے یعنی اسمیں مغفرت و رحمت ہے اور سارے جہاں کیلئے سیدھی راہ
ہدایت کی بنیاد ہے سب رسولوں ،ولیوں ،مسلمانوں کی قبلہ گاہ ہے ․․․․․․․․․
حج کو دنیاوی سفر یاسیر سپاٹے کی طرح نہ لیا جائے انسانی مدارج کو وقار
بخشنے کا نظامِ الہی ہے حج صرف حرمین طیبین کا سفر ہی نہیں ہے دنیا و ما
فیہھا کی ساری نعمتیں جمع کرنے کا مقدس موقع ہے۔حضور ﷺنے ارشاد فرمایا جو
کوئی حج کیلئے گھر سے نکلا اور راہ میں موت آجائے اس کیلئے قیامت تک ایک حج
ایک عمرہ ہر سال لکھا جاتا ہے اور جو کوئی مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں
انتقال کر جائے وہ قیامت کے دین حساب و کتاب سے پاک ہے (کیمائے سعادت)
محسن کا ئنات ﷺ کا فرمان عالیشان ہے جس شخص نے (حج فرض تھا اور باوجود
استطاعت کے) حج نہ کیا اور مر گیا اس سے کہہ دو کہ یہودی مرے یا نصرانی مرے
(ترمذی ) ایسا حا جی جو دورانِ حج اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے اپنے کو بچائے
رکھا وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے کہ جیسا شکم مادر سے پیدا ہونے کے
دن پاک و طاہر تھا (بخاری و مسلم) ،حج ایک اہم عبادت ہے تفریحی سفر نہیں کہ
جب دل کہے گا اور ہم اپنی سہولت و ضرورت دیکھیں گے تب ہی حج کو جائیں گے ،من
مانی کی اجازت شریعت نہیں دیتی جیسے ہی آدمی صاحب استطاعت ہوا اسی وقت اس
پر حج فرض ہو جاتا ہے، اگر وہ حج کو نہیں جاتا ہے تو گنہگار ہوتا ہے جب حج
کرنے کے لائق ہو جائے تو حج فرض ہوجاتا ہے یعنی اسی سال میں اور اب دیر
کرنے میں گناہ ہے اور کئی برس نہ گیا تو گنہگار ہے اور اسکی گواہی مقبول
نہیں لیکن جب بھی کریگا قضا نہیں ہوگا (قانون شریعت) حج کے تعلق سے یہ بات
دماغ سے نکال دینا چاہئے کہ سارے بچوں کی شادی ہو جائے، خود بوڑھا ہو جائے
پھر چلیں حج کرنے ،نہ جانے آگے کیا حالات آئیں کمال و زوال زندگی کے ساتھ
لگا رہتا لہٰذا حج فرض ہو تے ہی پہلے حج کرلے(۳) حج کے سفر میں مدینہ منورہ
و روضۂ اقدس کی حاضری ضروری ہے ۔
حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو ٭ کعبہ تو دیکھ چکے، کعبے کا کعبہ دیکھو
حضور ﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت کر نا دین و دنیا میں سر خروئی کا موجب ہے
اسکی نسبت خود رسول ﷺ کا ارشاد ہے ،حدیث مَنْ وَّ جَدَ سَعَتہََ وَّ لَم’
یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانِیْجس کو مدینہ تک پہنچنے کی وسعت ہو اور وہ میری
زیارت کو نہ آئے (یعنی صرف حج کر کے چلا جائے ) اس نے میرے ساتھ بہت بے
مروَّتی کی نیز آپ نے فرمایا مَنْ زَرا قَبْرِیْ وَ جَبَتْ لَہُ
شَفَاعَتیجس نے میری قبر کی زیارت کی اس کیلئے میری شفاعت لازمی ہو گئی آپ
نے فرمایا حدیث جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی ایسا ہی ہے جیسا کے
اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی علما لکھتے ہیں وہ مقام جو آنحضرت ﷺ کے
جَسد اَطہر سے مُتّصل ہے عرش و کرسی سے بھی افضل ہے ہر حاجی کیلئے ضروری ہے
کہ حج سے فارغ ہو کر روضۂ اقدس کی زیارت کو ضرورجائے اگر ممکن ہو تو سواری
سے اتر کر جائے ،ننگے پاؤں پیدل روتا ہوا عاجزی سے چلے، درود شریف کثرت سے
پڑھے الصلوٰۃُ و السلام عَلَیْکَ یاَ رَسُولّ اﷲ عرض کرے مدینہ پاک داخل
ہونے سے پہلے غُسل کرے ورنہ وضو کرکے صاف ستھرے کپڑے پہنے، خوشبو لگا ئے
اور ادب سے شہر میں داخل ہو اور کثرت سے درود پاک پڑھیں۔(۴) تمام نمازیں
مسجد نبوی میں ادا کریں ، رات کے اکثر حصہ میں بیدار رہ کرعبادت کریں ،
مسجد نبوی میں بیٹھ کر قرآن مجید آہستہ آواز سے پڑھے، مسجد نبوی میں اکثر
اعتکاف کریں ،ممکن ہو تو ہر ستون کے پیچھے نماز پڑھیں ،دو رکعت ، روضۂ اطہر
پر اکثر نگاہ ڈالتا رہے، سرکار کی بارگاہ میں کثرت سے درودو سلام پیش کریں،
دعائیں مانگیں، اپنے لیے تمام مومنین کے لیے اور اس ناچیز کے لیے بھی دعا
مانگیں، اﷲ آپ کے حج کو قبول اور مقبول فرمائے اور آپ کی حاضری کو قبول
فرمائے آمین ثم آمین |