پاکستان میں کچھ چیزیں ضرورت سے زیادہ
پائی جاتی ہیں، مثلاََ بے وقتی غیرت، حُب الوطنی، جذبہَ ایمانی وغیرہ۔
اورآج کل ہمارے ہاں، جرنلسٹ اتنے جنرل ہیں، کہ ممکن ہے ، آپ کا ہمسایہ بھی
جرنلسٹ ہو، اور آپ کو علم ہی نہیں۔ کچھ ماہ پہلے، آسٹریلیا گھومنے پاکستان
سے ایک کالم نگار آئے ، تو ہمارے گھر بھی تشریف لائے۔حالانکہ ہم نے دعوت
بھی نہ دی تھی۔ موصوف ایک مشہور کالم نگار ہیں، فیس بک پر۔
سکول میں میرا ایک دوست تھا، جس کے فیس بک پر ہزاروں،دوست، اور فولور تھے۔
اتنی شہرت کے باوجود سکول میں اُسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ بریک میں میرے
ساتھ ہی آکر بیٹھا رہتا، اور ہر آتی جاتی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہتا،
’’یہ بھی میری فرینڈہے، یہ بھی میری فرینڈ ہے،‘‘۔ آجکل کی دوستیاں بھی عجیب
ہیں، دوستیاں ہی نہیں ان دنوں تو شادیاں بھی اَن لائین ہی ہوتی ہیں۔ بیوی
اپنی تصویریں لگا رہی ہوتی ہے، اور میاں اپنی ۔ ایک وقت آئے گا، کہ بچے بھی
اَن لائن ہی پیدا ہوا کریں گے۔
ویسے شادی کی تصویریں اُن لائن لگانا کبھی کبھی وبال جان بھی بن سکتا ہے۔
جیسے کہ پچھلے دنوں ایک برٹش پولیس افسر نے اپنی شادی کی تصویریں فیس بک پر
لگائیں اور اگلے دن اُسے پولیس پکڑ کر لے گئی ۔ شادی کرنا کوئی جرم نہیں ،
اگر پہلی ہو تو۔ موصوف نے اپنی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے ، دوسری شادی کھڑکا
ڈالی ، اوراپنی پہلی تو بتانے کے لئے تصویریں بھی فیس بک پر لگادیں۔کوئی
صاحب کو بتائے، کہ ایسے کام خاموشی سے کئے جاتے ہیں۔اگر اتنی عقل موصوف میں
ہوتی، تو پولیس میں تھوڑی ہوتے، وہ بھی وزیر اعلی ہوتے۔ اُن کی پہلی بیوی
نے تصویریں دیکھیں، تو سیدھا تھانے پہنچ گئی، اور بنا طلاق دئیے دوسری شادی
کرنے پر ، اپنے خاوند پر پرچہ کر ڈالا۔ پولیس ، اہل کا ر کو سہاگ رات سے
پہلے ہی تھانے لے آئے۔ چنانچہ اگر آپ کا کوئی دوسری، یا تیسری شادی کا
ارادہ ہو، تو ہر طرح کی ویڈیو، اور تصویروں سے گریز کریں۔ ورنہ سہاگ رات
جیل میں ہی منائیں گے۔
خیر بات ہو رہی تھی، ایک نام ور کالم نگار کی، جن کا نام مجھے بلکل یاد
نہیں۔ حضر ت کا کہنا ہے، کہ’’ جب بھی میں کالم لکھنے دفتر میں بیٹھتا ہوں،
تو کھڑکی کے باہر ایک پرندہ آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اور جب میں کالم ختم کرتا
ہوں تو پرندہ اُڑ جاتا ہے۔‘‘ اگرتو آپ اس سے یہ مطلب نکالناچاہ رہے ہیں، کہ
پرندہ کا بیٹھنا ایک خدائی عمل ہے، جس سے آ پ کے تخلیقی کام میں تحریک پیدا
ہوتی ہے۔ تو یہ سوچ اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ آپ ایک پڑھے لکھے جاہل ہیں۔
پڑھے لکھے تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے ، البتہ جاہل ضرورہیں ۔
پرند ہ کا تار پر بیٹھنا کئی وجہ سے ہو سکتاہے۔ ایک تو یہ کہ شاید پرندہ
روز یہاں سے گزرتا ہو، اور راستے میں آرام کے لئے کچھ دیر آپ کی کھڑکی کے
باہر بیٹھ جاتا ہو۔ بجائے اس کے کہ آپ اُسے دانا ، پانی پوچھیں، آپ بیٹھے
دیکھتے رہتے ہیں۔ عجیب بے حس انسان ہیں ۔ دوسری وجہ، پرندے کی عین اس وقت
آنا، کہ جب آپ لکھنے بیٹھتے ہیں، یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ پرندہ آپ کو اِس
کام سے روکنا چاہتا ہو۔ وہ آپ سے التجا کرتا ہے، کہ جو کام آپ کر نہیں سکتے
، وہ کیوں بے دریغ کئے جارہے ہیں۔ لیکن آ پ پرندہ کی ایک نہیں سنتے ، اور
لکھتے رہتے ہیں۔جب آپ کالم ختم کر لیتے ہیں، تو پرندہ نامراد لوٹ جاتا ہے۔
اگلے روز وہ اس امید سے آتا ہے، کہ شاید آج آپ کو اس فضول کام سے روک سکے،
لیکن پھراُسے مایوس لوٹنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آج اگر آپ کالم لکھنا چھوڑ دیں،
تو پرندہ بھی آنا چھوڑ دے گا۔ اگرآپ کالم لکھنے سے باز نہیں آنا چاہتے، تو
کم از کم پرندے کے لئے کچھ دانا پانی کا تو انتظام کر دیں۔
آج کل اتنے پڑھنے والے نہیں ہیں، جتنے لکھنے والے ہیں۔ کچھ لوگ کالم کیا
لکھتے ہیں، سارے کا سارا ،وکی پیڈیا ہی اس میں ڈال دیتے ہیں۔ مثلاََ یہ
آسٹریلیا ہے۔ یہ ایک براعظم ہے۔ یہاں گورے رہتے ہیں۔ یہاں بہت سے ساحل ہیں۔
آپ کبھی آسٹریلیا آئیں تو اوپرا ہاوٗس ضرور دیکھیں۔ لیکن صرف باہر سے، اندر
سے دیکھنے کے پیسے لگتے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔
پہلی تو بات ہے، کہ یہ آسٹریلیا ہویا آسٹریا، اس سے ہماری صحت پر کیا اثر
پڑتا ہے۔ براعظم ہے تو ہم کیا کریں، ہم نے تھوڑی بنایا ہے۔ یہاں ساحل ہیں،
تو کیا پاکستان میں نہیں ہیں۔ کلیفٹن کو گویا آپ ساحل ہی نہیں سمجھتے ۔
مانا یہاں ریت سے زیادہ کوڑا کڑکٹ ہوتا ہے، لیکن پانی تو آتا ہے نہ۔ جب
اتنی قریب ایک سہولت دستیاب ہے، تو سات سمندر پار جانے کی کیا ضرور ت ہے۔
اور پھر آپ کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے، جا سکتے ہیں۔ ہمارے سر پر تو بال ہی
بال ہیں، وہ بھی اب خدا اُتار رہا ہے۔ آپ جہاں جانا چاہتے ہیں، جائیں، لیکن
ہمیں بتا کر ہمار ا دماغ تو خراب نہ کریں۔
غرض حاضرین کالم لکھنا کوئی ایسا مشکل عمل نہیں۔ایک ڈیڈھ صفحہ ہی روز
کابڑھنا ہے، جیسے سکول کے امتحان میں ہم گپیں مارتے تھے، اسی طرح کالم میں
بھی ماری جا سکتی ہیں، بلکہ ماری جاتی ہیں۔ جس طرح ابھی میں مار رہا ہوں۔
لیں ایک اور سطر لکھ دی۔ کچھ جگہ بچی ہے، وہ ایک شعر سے پُر کر دیتے ہیں۔
ایک غم ہے، ہمیں بے وجہ سا
دل ملا ہے ، مگر سوختہ سا
حُسن تیر ا اُتاروں سخن میں
چاہئے کوئی تجھے آئینہ سا |