ایسا دیس ہے میرا
(Naveed Kazmi, Rawalpindi)
بچے آئے دن غائب ہو رہے ہیں وزیر قانون
صاحب سے جب دریافت کیا گیا تو انہوں نے ایسی منطق بیان فرمائی کہ پوری دنیا
عش عش کر اٹھی ۔ جب ایسی اہم وزارت پر ایسے لوگ برجمان ہوں گے جن کے گھروں
سے دشمن ملک کے ایجنٹ پکڑئے جائیں گے اور عدالت یہ کہہ کر انہیں کلین چٹ
دید گی کہ کوئی ثبوت ہی میسر نہیں خالی کسی کے اقبالی بیان پر تو کوئی
ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ انکے تکفیری گروپوں سے یارانے ہوں گے اور گلوبٹ
انکی پارٹی کے اہم سپوت تو بیان بھی ایسے ہی ہوں گے کہ آپ میڈیا والے ہر
خبر کی سنسنی بنا لیتے ہیں ورنہ جو بچے غائب ہونے کی اطلاعات ہیں ان میں سے
زیادہ تو اپنے گھروں کو خود ہی لوٹ چکے ہیں کیونکہ وہ گم یا اغوا نہیں ہوئے
تھے بلکہ گھر سے خفا ہو کر چلے گئے تھے اور 4 دن باہر کی ہوا لگوا کر خود
ہی لوٹ بھی آئے کچھ کو پولیس والوں نے تلاش کر لیا پر وہ بھی گھروں سے ہی
بھاگنے والے تھے نہ کہ اغوا شدہ۔مطلب جو میڈیا واویلا مچا رہا ہے کہ 400کے
قریب بچے لاپتہ ہو گئے اور ان کے لواحقین کہیں احتجاج کرتے کہیں آہ و بکا
کرتے نظر آرہے ہیں وہ سب بیوقوف جانتے ہی نہیں کہ انکے بچے تو انکے گھر
واپس لوٹ چکے ہیں وہ خوامخواہ ہی چوکوں چوراہوں میں ٹریفک جام کر کے عوام
کو کیوں پریشان کر رہے ہیں۔
آج ہی ایک اخبار نے لاہور میں کچھ بچوں کی لاشوں کے بارے رپورٹ کیا جن کے
اعضا غائب پائے گئے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ وہی بچے ہیں جن کے
اغوا کی خبریں گرم تھیں انکو اغوا کرقتل کرکے انکے مختلف اعضا نکال کر بیچ
دیئے گئے ہیں اور ایک منظم گروہ یہ کاروائیاں چند ٹکے کمانے کے لیا کر رہا
ہے پر ہمارے وزیر قانون صاحب نے تو ایک ہی وتیرا رکھا ہوا ہے میں نہ مانوں۔
یہاں دوسروں کے بچوں کو کاٹ کر اپنے بچوں کے لئے اعلٰی سہولیات مہیا کرنے
کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اور حکومت نے آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں کیونکہ
انکے بچوں کو کوئی خطرہ جو نہیں اسلئے دوسروں کے بچے اغوا ہوں یا قتل انہیں
کیا انہوں نے تو اپنے 5 سال پورے کرنے ہیں۔
12مئی پر جو قتل وغارت ہوئی آج کل دوبارہ وہی موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ اسکے
پیچھے ایم کیوایم کا ہاتھ اور تمام چینلز پر مہمانان ایک دوسرے کے گلے
پڑرہے ہیں ایم کیو ایم کے مہمان انکاری ہیں جبکہ میزبان سمیت باقی مہمانان
انکو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اور اس تمام بحث مباحثے میں تمام اخلاقی
اقدار کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے پیارے ملک کی جو پڑھی لکھی اور
سلجھی ہوئی مخلوق ہے وہ اپنی تمام علمی قابلیت گالیوں اور بدتہذیبی میں
عوام کو سکھانے میں مشغول نظر آرہی ہے۔ وسیم اختر صاحب کو ڈاکٹر عاصم کے
ہاسپٹل میں نامعلوم دہشتگرد کے علاج کے لئے معاونت کرنے کے جرم میں گرفتار
کیا گیا لیکن اب انکوائری 12مئی کی چل رہی ہے اور انکے کبھی اعترافی بیان
اور کبھی اپنے ہی بیان کی تردید میں نیوز چینلز کی اچھی دیہاڑیاں لگائی جا
رہی ہیں۔ ہو کیا رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا ملک ہے یا کوئی ٹھیکے پہ لیا
ہوا پلاٹ۔
حکمران عوام کا بھلا کیا کریں گے جو ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو رہے ہیں۔
چوہدری نثارصاحب، خواجہ آصف صاحب کے خلاف کابینہ کے اجلاسوں میں وزیراعظم
کو شکایات کرتے نظر آتے ہیں ، اسحاق ڈار صاحب، چوہدری نثار صاحب کے خلاف
وزیر اعظم صاحب کو اپنے دکھڑے سناتے نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے وزیراعظم
ایسی ٹھنڈی طبعیت کے مالک ہیں وہ سنتے سب کی ہیں پر کرتے کچھ بھی نہیں ۔ حد
تو یہ ہے کہ ایک شہری ناکردہ گناہ کی سزا میں موت پا رہا ہو میڈیا اور انکے
لواحقین چیخ رہے ہوں، پولیس گردی پورے پنجاب میں عروج پر ہو، ماورائے عدالت
قتل عام جاری ہو، سیاسی نمائندگان ٹارچر سیل بنا کرعام لوگوں پر وہاں ظلم
کی دستانیں لکھ رہے ہوں پر وہ پھر بھی اپنی صرف سن کر کچھ نہ کرنے والی ریت
بدلنے کے لئے تیار ہی نہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے حکمرانی پر سکوت سا
طاری ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے ۔
سندھ کے وزیراعلٰی کی تبدیلی سے بڑے دعوئے اور امیدیں باندھی جارہی ہیں جب
سے سائیں قائم علی شاہ صاحب اس عہدے پر برجمان ہیں تب سے پیر مرا د علی شاہ
صاحب خزانہ کی کنجی تھامے ہوئے ہیں پر سوچنے کی بات ہے کہ اس عرصے میں مراد
علی شاہ صاحب نے اپنے قلم دان میں ایسے کونسے کارنامے سرانجام دئیے ہیں جس
کی بنا پر انسے یہ امیدیں لگائی گئی ہیں اور ہمارے سندھ میں قلم دان پر
کوئی بھی حکومت تو دبئی میں بیٹھی ہوئی سرکا ر کی ہی چلتی ہے پھر ان
وزارتوں پر کوئی بھی آئے کیا فرق پڑنے والا ہے سوائے چہرے اور نام کی
تبدیلی کے۔
کراچی آپریشن مکمل ہوگا یا سپہ سالار کی مدت ملازمت اختتام پذیر ہو جائے گی
۔ ملک جن بحرانوں کا شکار ہے ، جو مسائل کا انبار اس ننھے ملک کی جان پر
لاد دیا گیا ہے کیا سپہ سالار اس میں کمی تک کے لئے ملا زمت میں توسیع لیں
گے یا عام عوام ہر گلی محلے، چوراہے، چوک میں یہ چہ مگوئیاں کرتے نظر آتے
ہیں۔ کچھ کی رائے ہے کہ اگر فوجی قیادت کو وقت سے پہلے ہٹانے کی کوشش کی جا
رہی ہوتی تو شائداقتدار پر براجمان ہو ہی جاتے پر چونکہ ان مسائل کے باوجود
حکومت سپہ سالار کو نہیں چھیڑ رہی اسلئے شائد دونوں ہی باتیں نہ ہوں اور
سپہ سالار اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں۔ یہ عوام کی امیدوں کا قتل ہوگا اور
امید بھی ہے کہ سپہ سالار ایسا نہیں کریں گے اپنے خاندان کی قربانیوں سے
سینچے ہوئے اس عرض پاک کی حفاظت و بہتری کے لئے کوئی بہتر لائحہ عمل اختیار
کرتے ہوئے کچھ تو ایسا کر کے ہی جائیں گے جس سے انکو پاکستانی تاریخ میں
یادرکھا جائے گا۔ |
|