بابری مسجدتنازعہ ، ہندومسلم فساد ، مختلف
الزامات میں مسلم نوجوانوں کی دھرپکڑ، خاص کر پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم
یافتہ مسلم طلباء کو دہشت گرد اور آتنک وادی قرار دینے کی مہم ، یہ سب تو
روز کا تماشہ ہوگیا ہے، آخر کہا ں تک دیکھیں اور سنیں،کیوں نہ اپنے کام سے
کام رکھیں ۔ہمارے گھر میںچولہا نہیںجلے گا،بچےبھوکے رہیںگے، اسکول
جانےکیلئے کتابیں کاپیاں نہ ہوں گی، تو ہماری مدد کو کون آتا ہے ۔یہ اوراس
جیسےبہتیرے سوالات ہیں جو آج ہمارےمعاشرے میں گردش کرتے رہتے ہیں ۔گذشتہ
دنوں ایک سفر کے دوران ٹرین میں کچھ مسلم نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو
بھیونڈی سے شمالی ہندکی طرف لوٹ رہے تھےیہ غالبا ً سبھی پاورلوم مزدور تھے
اور تقریبا ً چیخنے کے انداز میں ہنسی مذاق میں مصروف تھے،جس سے آس پاس کے
مسافروں کو شدید کوفت ہورہی تھی۔اچانک ذرا دیر کیلئے گفتگو کا رخ بدلا ،
کسی نے بابری مسجد کا قضیہ چھیڑ دیا ، تبھی کئی نوجوان بیک زبان بول اٹھے،
ارے چھوڑ و یہ کون سا قصہ لے اٹھے ، تم نے تو موڈ ہی خراب کردیا ۔یہ اپنے
گھر کا مسئلہ تھوڑی ہے ، جب کوئی ہمارے گھر پر قبضہ کرے گا، تب دیکھیں گے ،
ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس طرح کے سیاسی معاملے میں دخل دیں ، بہتر یہی کہ
اپنے کام سے کام رکھیں ، بابری مسجد اور سیاسی لیڈران کیا ہمیں کھانے کو
دیتے ہیں ، ہمیں تو روز کنواں کھودنا ہے اور پانی پینا ہے ۔آج کا یہ بھی
ایک منظرنامہ ہے ۔
یہ باتیں اس وقت یاد آگئیں جب گذشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ اے
ٹی ایس نے پربھنی سے ایک اور۲۴ ؍سالہ مسلم نوجوان شاہد خان کو گرفتارکرلیا
ہے ،جس پر الزام ہے کہ اس نے رمضان المبارک میں بڑے پیمانے پر تخریبی
کارروائی کرنے کی منصوبہ سازی کی تھی ۔ اے ٹی ایس نے مہاراشٹر بھر میں داعش
کے خلاف جو آپریشن شروع کیا ہے اس میں اب تک تین مشتبہ مسلم نوجوان گرفتار
کئے جاچکے ہیں ۔شاہد خان چوتھانوجوان ہے ،جسے پربھنی سے گرفتار کیا گیا ہے
۔اے ٹی ایس اس ضمن میںمزید تحقیقات کررہی ہے اور یہ معلوم کررہی ہے کہ
محروس ملزمین کے رابطےمیں اور کتنے نوجوان ہیں ۔اے ٹی ایس نے اس سلسلے کو
آگےبڑھاتےہوئے شاہد کواورنگ آباد کی عدالت میں پیش کیا جہاں سے اسے ۲۹؍
جولائی تک پولس ریمانڈ میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اے ٹی ایس نے یہ بھی
دعویٰ کیا ہے کہ پربھنی کے ہی رہنے والے ایک اور ملزم ناصربافعی شمس نامی
نوجوان سے بھی شاہد کے گہرے تعلقات ہیں ۔جس کے قبضے سےایک کلو دھماکہ خیز
مادہ ( آرڈی ایکس ) بھی برآمد کیا گیا ہے ۔شاہد اور ناصر پر غیر قانونی
سرگرمیوں میں ملوث رہنے اور داعش کیلئے کام کرنے کا معاملہ بھی درج کیا گیا
ہے ۔ان دونوں پر اے ٹی ایس نے یہ بھی الزامات لگائے ہیں کہ یہ دونوں داعش
کیلئے کام کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں وہ کسی مسجد یا درگاہ میں تخریبی
کارروائی کرنے والے تھے ۔اس سے پہلے کہ وہ کسی تخریبی کارروائی کو انجام
دیتے ہم نے اپنا مضبوط شکنجہ کسا اور انہیں گرفتار کرلیا ۔اے ٹی ایس نےیہ
بھی کہا کہ ناصر بافعی آئی ای ڈی تیار کرنے میں ماہرہے اور اس نے بم سازی
بھی کر لی تھی اور اس کی ایک تصویر شام ( سیریا ) کے کسی فاروق نامی شخص کو
بھیجی ہے ،جس کے تعلق سے اسے معلوم ہوا ہے کہ وہ داعش کا رکن ہے ۔
اس سارے واقعے میں کئی باتیںایسی ہیںجن پر یقین کرلینا آسان نہیں ہے ، سب
سے پہلی بات تو یہ کہ اے ٹی ایس کا ناصر کے قبضے سے آر ڈی ایکس برآمد
کرنےکا دعویٰ ابھی تک محض دعویٰ ہی تک کیوں محدود ہے ،اور یہ لوگ ناصر کے
قبضے سے ابھی تک وہ بم بھی برآمد نہیں کرسکے ہیں جس کی تصویر داعش کے رکن
کو شام بھیجی گئی ہے۔وہیں اے ٹی ایس کا یہ بیان بھی بڑا عجیب اور حیران کن
لگتا ہے کہ یہ لوگ تخریبی کارروائی کی مکمل تیاری کرچکے تھے، لیکن اچانک
انہیں جب یہ احساس ہوا کہ وہ پکڑے جائیں گے،تو اس خوف کے سبب انہوں نے اپنا
ارادہ ملتوی کردیا ۔یہ باتیں حقیقت سےزیادہ افسانہ اس لئے معلوم ہوتی ہیںکہ
ماضی میں اے ٹی ایس یا کسی اورسرکاری تنظیم نے اب تک مختلف معاملات میں جو
گرفتاریاں کی ہیں ان میں سے بیشتر ملزمین عدالت سے بے داغ بری کئے جاچکے
ہیں ۔اس طرح کے واقعات اب عام ہوچکے ہیں ، اخبارات روزہی ایسی خبروں سے
بھرے رہتے ہیں ، مسلم نوجوان ، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء زیادہ
نشانہ بن رہے ہیں ، گرفتاریوں کایہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے، لیکن ادھر
چند سالوں سے اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک
اور توجہ طلب ہے ، لیکن توجہ تو دور کی بات، اب تو مسلمانوں کی ایک بڑی
تعداد اس احساس سے بھی عاری ہوتی جارہی ہے کہ اسے اب متحد ہوجانا چاہئے۔ جو
لوگ اتحاد کی باتیں کرتے ہیں وہ بھی زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پاتے ۔فرقہ
پرستوں کے پنجے نوکیلے ہوتے جارہے ہیں اور ہماری بے حسی ہے کہ بڑھتی جارہی
ہے ۔آخر کب تک ہم یہ تماشا دیکھیں گے ۔ |