یہ قائداعظم کاپاکستان تونہیں
(Abdul Waheed Rabbani, Lahore)
بابائے قوم جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے
لندن گئے توانھوں نے وہاں دیکھاں کہ برصغیرسے مال لوٹ کرلانے والے یہ
انگریزہماری ہی پیسوں سے عیش وعشرت کررہے ہیں اور نازنخرے سے پل رہے ہیں۔
جب کہ انھوں نے ہمیں اپنی ہی دیس میں غلام بناکررکھاہوا ہے۔اس بات نے
محمدعلی جناح کودُکھ دیا اورآپکو سوچنے پرمجبورکردیا۔آپ نے اسی وقت
برصغیرکے لوگوں کی حالتِ زارکوبدلنے کی تھان لی اور مصمم ارادہ کرلیا کہ
برطانوی راج سے چھٹکارہ حاصل کرکہ رہے گے۔ اوربرصغیرکے مسلمانوں کوعلیحدہ
ریاست بناکہ رہوں گا۔ جوں جوں آپکی پڑھائی پروان چڑھتی گئی یوں یوں آپ جذبہ
حب الوطنی سے سرشارہوتے گئے۔تعلیم مکمل کرکے جب آپ واپس برصغیرلوٹے
توبربرصغیرکے مسلمانوں کے جدا وطن کی جدوجہدشروع کردی۔اور اس کواولین فریضہ
سمجھ کرآپ نے محنت ومشقت کی۔ جلدہی آپکی کاوششیں کارآمد ثابت ہوئی اور آپ
علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
آپ تویہ چاہتے تھے کہ برصغیرکے مسلمانوں کاالگ وطن ہوگا، ان کے اپنے اسلامی
امنگوں کے مطابق فیصلے ہوگئے، وہ اپنی مرضی کے مطابق مذہبی فرائض ادا کرے
گے، اپنی مرضی ومنشاءکے مطابق رہ سکے گے، ان کی اپنی ثقافت ہوگی اور وہ
اپنے تمام تہوار مرضی کے تحت ادا کرگے۔ہماری حکومت ہوگی، ہم اپنی مرضی کی
کابینہ بنائے گے، اپنے مفاد کے لحاظ سے خارجہ پالیسی بنائے گے۔ اب سوال یہ
پیداہوتاہے کہ ستربرس گزرجانے کے بعدبھی وہی کچھ ہورہاہے جس نے ایم علی
جناح کومجبورکیاتھا کہ الگ وطن ہوناچاہئے تب انگریزخزانہ لوٹ کرلے جاتے تھے
جبکہ ہمارے موجودہ حکمران خودپیسہ وہاں چھوڑکرآتے ہیں۔تب ہم وڈیروں کے غلام
تھے اور اب بھی ہیں۔ تب بھی جاگیرانہ نظام تھا اور اب بھی ہے۔ تب بھی کوئی
ملک سے باہرفیصلے ہوتے تھے اور اب بھی وہی کچھ ہوتاہے۔ امریکہ اپنی مرضی سے
آتا ہے اور نوشکی میں ڈرون گرِا کے چلاجاتا ہے اور ہم ہفتہ بعد اس کا رونا
رونا شروع کرتے ہیں۔وہ بھی بھلا ہوپاک فوج کا جس نے امریکہ کی ٓنکھوں میں ٓنکھیں
ڈال کراس کوجواب دیا۔یہ کیسے حکمران ہے جن کوملک کی ہوش ہی نہیں ہے
بلوچستان میں باغی گروپ پل رہے ہیں۔ پچھلے دلوں محموداچکزئی کے بیان کوہی
لے لوکیا اس بندے میں تھوڑی سی شرم ہے اس نے اپنے ملک کی غداری میں یہ بیان
دے کیسے دیا۔ تم رہتے یہاں ہوں، کھاتے پیتے پاکستان کا ہواور دوسرے ملک
جاکربکواس بھی اسی کے بارے میں کرتا ہے جوبھی شخص قومی اسمبلی کاحلف اٹھاتا
ہے وہ وطن سے محبت کا عہد ہے اور اگر کوئی اس سے انحراف برتے گا اس پروطن
سے غداری کاکیس چلے گا۔مگراس معاملے میں کیاکسی نے کوئی پریس کانفرنس کی،
کیا کسی نے اس کو بیان واپس لینے کاکہا، نہیں بلکل بھی نہیں۔کیونکہ ہمارے
حکمران صاحبان کوتوغرض اپنی سیاست سے ہے اور عوام کے خزانے سے جیبیں بھرنے
سے ہیں امریکہ کوانھوں نے کیابولنا ہے یہ تو ملک کے اندرموجود غداروں کے
سامنے نہیں بول سکتے۔ایک اور بات بھی ہے ان سب حکمرانوں کا پیسہ بیرون
ممالک ہے۔ یہ اپنے ذاتی تعلقات کوملکی مفادپرپیچھے چھوڑدیتے ہیں یہ رہتے
پاکستان میں ہیں جب کہ کاروباربیرون ممالک میں کرتے ہیں یہاں سے مال لوٹ
کردوسرے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرکے رکھتے ہیں۔انکی منصوبہ بندی میں کبھی
میں ملکی سلامتی، تعلیم، ہنر، چلڈلیبرکاخاتمہ اور غریب عوام کے مسائل کاحل
تودورکی بات آج تک ان کے بارے میں خیال تک نہیں آیا۔بابائے قوم نے توکہاتھا
کہ میں آپ کومصروف عمل ہونے کی تاکیدکرتاہوں کام کام اور بس کام۔ سکون کی
خاطر،صبروبرداشت اورانکساری کےساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں۔قائدِ
اعظم محمدعلی جناح صاحب نے تواپنی صحت کی پرواہ کی اورناہی اپنے مستقبل
اورازواجی زندگی کی۔ آپ نے تو برصغیرکے مسلمانوں کوالگ ریاست دلوانے کیلئے
تن من دھن قربان کردیا۔بدقسمتی سے آج کا پاکستان قائد اعظم کے تصورات اور
نظریات سے متصادم نظر آتا ہے۔ قائد اعظم پاکستان کو عظیم اسلامی فلاحی
ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں ہر خاص وعام اور ہر مسلک ومذہب سے تعلق رکھنے
والے کیلئے امن وامان، انصاف، سکون اور بنیادی حقوق کی فراہمی ہو، مگر ان
کا خواب فضا میں تحلیل ہوگیا۔ کرپٹ سیاسی نظام نے عوام سے جینے کا حق بھی
چھین لیا۔وقت ہے کہ ہمیں پھر سے اسی جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی
وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا تاکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کی
تکمیل ہوسکے اور پاکستان اقوام عالم میں اپنا لوہا منواسکے۔ہم معذرت خوا
ہیں۔ قائداعظم نے ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا یہ ان کا عظیم احسان ہے جبکہ ہم
احسان فراموش بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنے قائد سے اب ہم سب کوتجدید عہد وفا کرنا
ہوگا کہ ہم پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے۔ ہمیں کرپٹ سیاسی نظام اور
قائداعظم کے پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔تب ہی ہم قائداعظم
کے اس پاکستان میں ہوگے جن کے بارے میں انہوں نے کہاتھا۔ " ہم نے پاکستان
کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے
پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں" |
|