پس پردہ حقائق

روس اور امریکہ کی لڑائی کے دور کو دنیا میں سرد جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. اس وقت ممالک کی اکثریت دو بلاکوں میں تقسیم تھی ایک بلاک سرمایہ درانہ بلاک تھا جس کا سرخیل امریکہ تھا اور دوسرا بلاک کمیونزم کا بلاک تھا جو روس کی قیادت میں اپنے سفر کی منزلوں پر منزلیں طے کر رہا تھا. یہ سرد جنگ حقیقت میں ان دو نظاموں کی جنگ تھی، دنیا کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرکے ان پر اپنا نظام مسلط کرنے کی جنگ تھی. نوے کی دہائی میں جب افغان جہاد میں روس کو شکست ہوئی اور اس کی عظیم الشان سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے تو اس کے ساتھ ہی کمیونزم کا نظام بھی اپنی موت آپ مرگیا. روس کی شکست، فیڈریشن کی ٹوٹ پھوٹ اور کمیونزم کی تباہی یہ افغان جہاد کا نتیجہ تھا مگر امریکہ اس کا کریڈٹ خود لینا چاہتا تھا اور اس کامیابی کو اپنے کارناموں کی فہرست میں شامل کر رہا تھا. کمیونزم کی ناکامی اور شکست پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بہت خوشیاں منائیں اور یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ اب دنیا میں ایک نظام چلے گا جو سرمایہ درانہ نظام ہوگا. ساری دنیا اس نظام کو ماننے اور اس کے مطابق چلنے کی پابند ہوگی کیونکہ یہ سب سے برتر نظام ھے اور دوسرا کوئی نظام اس کے مقابلے میں نہیں ھے. اس دور میں لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو ھمیں یہ چیز ان میں ملتی ھے. اس دور میں ایک کتاب لکھی گئی جو بہت مشہور ہوئی. امریکہ کے پالیسی ساز ادارے کے ممبر "فوکو یاما" نے "اینڈ آف ہسڑی" کے نام سے یہ کتاب لکھی اور اس کی تشہیر پوری دنیا میں کی گئی. اس کتاب کے اندر مختلف جہتوں میں یہ دعوی کیا گیا کہ کمیونزم کو کیپٹلزم کے مقابلے میں نظام کھڑا کیا گیا تھا مگر اب کمیونزم کی شکست کے بعد دنیا میں ایک نظام ھے جو قابل عمل ھے اور ساری دنیا اسی کو ماننے کی پابند ھے اور وہ سرمایہ درانہ نظام ھے. اس کے مقابلے یا اس کے بعد اب کوئی نظام نہیں آئے گا یہ آخری نظام ھے جو پوری دنیا پر نافذ العمل ہوگا.

دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ افغان جہاد میں سرخ ریچھ روس کو واضح شکست اور اس کے بعد دسیوں مسلمان ممالک کا آزاد ہونا، دنیا کے دیگر خطوں میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے مسلمانوں کے لیے امید اور روشنی کی ایک کرن ثابت ہوا. ان کو یہ احساس ہوا کہ آزادیاں اس طرح بھی ملتی ہیں، ظلم و ستم کی آندھیاں اس طرح بھی تھمتی ہیں. اس کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر خطوں میں جہاں جہاں مسلمانوں اور دیگر اقوام پر ظلم ہورہا تھا اور ان کے حقوق غصب کیے جارہے تھے انہوں نے غاصب اقوام کے چنگل سے آزادی کی خاطر مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا. یہ بات امریکہ کے منصوبہ سازوں کے لیے بڑی تشویش کا باعث تھی. وہ تو پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے. وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی ہو اور وہ بھی مسلمانوں کی صورت میں جن کو وہ اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہوں اور ان کو دبانے کی انہوں نے ھمیشہ سے کوشش کی ہو. اس پر امریکہ اور صہیونی منصوبہ دوبارہ سے سر جوڑ کر بیٹھے کہ ھم نے دنیا پر حکومت کے منصوبے بناتے ہوئے اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کو کیسے نظر انداز کرگئے. اس خطرے اور رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے نئے سرے سے منصوبہ بندیاں اور پلاننگ کی گئی. امریکہ تحقیقی ادارے کے ایک ممبر نے ۱۹۹۳ میں ایک شہرہ آفاق کتاب "تہزیبوں کا تصادم" کے نام سے لکھی جس میں اس بات کو عیاں کیا گیا کہ دنیا تیزی سے تہزیبوں کے بڑے تصادم کی طرف بڑھ رہی ھے. یہ تہزیبی تصادم پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا. سب سے خطرناک بات اس میں یہ تھی کہ یہ تہزیبیں کون کون سی ہوں گی. اس کتاب اور اس کے بعد کی لکھی جانے والی کتابوں اور سامنے آجانے والی دستاویزات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ھے کہ ان کے نزدیک دو تہزیبیں تھی جن کا تصادم ناگزیر ہوتا جارہا ھے اور وہ تہزیبیں اسلام کی تہزیب اور مقابلے میں پورا عالم کفر ایک تہزیب ھے. الکفر ملہ الوحدہ کی شکل میں سارا عالم کفر اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں ایک ہوگیا. امریکہ نے دنیا پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے امریکن نیو ورلڈ آرڈر کا دنیا میں پرچار کرنے لگا. قوموں اور ملکوں کو مجبور کیا جانے لگا کہ اس ورلڈ آرڈر کے سامنے گھٹنے ٹیک دو. اس کے سامنے سرتسلیم خم کرکے اس کو من و عن تسلیم کر لو اور اسی نظام کو اپنے اپنے ملکوں میں رائج کردو. دنیا میں بہت سے ملکوں نے اس ورلڈ آرڈر کو تسلیم کرلیا مگر اللہ کے بندے جو اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنا جانتے ہی نہیں تھے انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا. اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اسی اثنا میں ستمبر دو ہزار ایک میں امریکہ میں مختلف مقامات پر حملے ہوگئے جن کو دنیا نائن الیون کے نام سے یاد کرتی ہے. امریکہ کے ہاتھ ایک بہانہ آگیا اس نے ساری دنیا کو اپنے ساتھ ملایا اور نام نہاد "امن کے لیے جنگ" کی بھٹی میں مسلمان ملکوں کو جھونکنا شروع کردیا. اس کے پیچھے اصل مقصد مسلمانوں کو اس حد تک کمزور کردینا تھا کہ وہ امریکی و صہیونی ورلڈ آرڈر کے راستے کی دیوار نہ بن سکیں. افغانستان و عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی. لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا. کابل و قندھار اور بصرہ و بغداد کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے. یہ دن مسلمانوں پر بہت ہی کڑے تھے. امریکہ کی اس ننگی اور بے رحمانہ جارحیت پر اقوام متحدہ اور دیگر ادارے خاموش شیطان کا کردار ادا کر رہے تھے. مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ھماری مدد کو کوئی نہیں آئے گا تو مٹھی بھر مجاہدین سروں پر کفن باندھے اور نتیجے کی پرواہ کیے بغیر امریکی سیل رواں کے سامنے ڈٹ گئے. عرش پر بیٹھے رحمان کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ ان کی مدد آسمانوں سے کی جانے لگی نتیجتا" امریکہ جو چند دنوں کے لیے سب کچھ تہہ و بالا کرنے آیا تھا سالوں کے بعد اس کی کیفیت یہ تھی کی شکست خوردہ خود اپنا ہی جسم نوچ رہا تھا. اللہ کے شیر ابھی تک میدانوں میں ڈٹے اس کا مقابلہ کررہے تھے. اس دوران عالمی منظر نامہ بھی تیزی سے تبدیل ہوتا رہا. چین، پاکستان اور سعودیہ کا اقوام عالم میں کردار بڑھتا رہا. امریکہ اور اس کے حواریوں نے جب یہ دیکھا کہ ھم تو ان کو بالکل ختم کرنے آئے تھے مگر یہ تو اتنا ہی ابھرتے رہے تو انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی. بچھے کچھے مسلمان ملکوں اور معاشروں کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے ان کے اندر سے بیمار ذہنیت کے لوگوں کو ڈھونڈ کر انبکے ہاتھ میں خارجیت اور تکفیریت کا علم پکڑا کر مسلمان ملکوں اور معاشروں میں پھیلا دیا. عالم کفر کا یہ وار سب سے خطرناک تھا. اس کے ساتھ عراق و شام اور پاکستان اور دیگر ملکوں میں وہ خون کی ہولی کھیلی گئی کہ الامان الحفیظ اور پھر اس کی آڑ میں شام پر مختلف ملکوں کی افواج کی چڑھائی کروائی گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں شامی مسلمان قتل کردیے گئے اور لاکھوں ہجرتوں پر مجبور ہوگئے. عالمی صہیونیت کا اگلا ٹارگٹ براہ راست پاکستان اور سعودیہ تھے ان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھی مختلف چالیں اور ہتھکنڈے استعمال کیے گئے. تکفیری، خارجی گروہوں اور ان کے ساتھ حوثیوں وغیرہ کو استعمال کیا گیا. مگر ان کے سبھی مہرے ایک ایک کر پٹتے چلے گئے. اس وقت کیفیت یہ کہ پاکستان اور سعودیہ کی قیادت میں چونتیس مسلمان ممالک کا عسکری اتحاد وجود میں آچکا ھے. پاکستان چین کے اشتراک کے ساتھ بہت تیزی دے ترقی کر رہا ھے جو کہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو بالکل بھی گوارہ نہیں ھے اور وہ دن رات سازشیں کر رہے ہیں کسی بھی طریقہ سے مسلمانوں کے اس نمائندہ پاکستان کو تحت و تاراج کر کے رکھ دیں. ان حالات میں پاکستان اور اہل پاکستان کی ذمہ داری پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ھے کہ وہ حالات کو سمجھیں اور بہت سوچ اور سمجھ کر اپنے قدم اٹھائیں. پوری اسلامی دنیا کی بھی اور سارے عالم کفر کی نظعیں بھی پاکستان پر لگی ہوتیں کہ اب اس کا اگلا قدم کیا ہوگا. تو ایسے میں اندرونی خلفشار اور انتشار و افتراق پر قابو پا کر اتحاد اور اعتماد کی فضا قائم کرکے ناصرف اپنے پاکستان کو بہت آگے لے کر جانا ھے بلکہ پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی موثر آواز بن کر ان کی آزادیوں کے لیے عمل کردار ادا کرنا ھے. اللہ ھمارا حامی ناصر ہو. آمین
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 38284 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More