تاریخ کے جھروکوں سے
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
مغرب کی نماز ہوچکی ہے، کچھ نمازی رخصت
ہوگئے ہیں اور کچھ بیٹھے ذکر و اذکار میں محو ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم بھی ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں کہ ایک شخص بارگاہ اقدس میں حاضر
ہوتا ہے۔ خستہ حال،چہرے پر زندگی کی سختیوں کے نقوش.... عرض کرتا ہے
”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ میں مفلس اور مصیبت زدہ ہوں۔ وہ کچھ اور
بھی کہنا چاہتا ہے مگر شاید زبان ساتھ نہیں دیتی، مسجد میں پھیلی ہوئی
خاموشی اور گھمبیر ہوجاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چند لمحے اس کے
سراپا کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ایک شخص سے فرماتے ہیں ”ہمارے ہاں جاؤ
اور اس مہمان کے لیے کھانا لے آؤ“ وہ خالی ہاتھ واپس آجاتا ہے اور زوجہ
محترمہ کا پیغام دیتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس اس وقت پانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مسافر پیغام
سن کر دم بخود رہ جاتا ہے، وہ جس بابرکت ہستی کے پاس اپنے افلاس کا رونا لے
کر آیا ہے خود ان کے گھر کا یہ حال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغام سن
کر دوسری زوجہ مطہرہ کے پاس بھیجتے ہیں مگر وہاں بھی یہی جواب ملتا ہے، ایک
ایک کرکے سب ازواج مطہرات سے پچھواتے ہیں لیکن سب کا جواب یہی ہے۔ ”اس ذات
کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے ہمارے پاس سوائے
پانی کے اور کچھ نہیں“۔
نووارد کی حالت دیدنی ہے، افلاس اور فاقہ کشی سے بھاگ کر اس پاک ہستی کے
دامن میں پناہ لینے آیا تھا جو تنگ دستوں اور محتاجوں کا ملجا و ماویٰ ہے،
اس تاجدارِ دو عالم اور مقدس ہستی کے ہاں بھی بس اللہ کا نام ہے، اسے اپنے
گھر کا خیال آجاتا ہے، وہاں اتنی احتیاج تو نہ تھی، جب اس نے گھر چھوڑا تھا
اس وقت بھی اس کے ہاں دو تین دن کی خوراک موجود تھی، پھر ایک بکری بھی اس
کے پاس تھی، جس کا دودھ زیادہ نہ سہی بچّے کے لیے کافی ہو تا تھا، وہ تو اس
خیال سے حاضر ہوا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دامن احتیاج
پھیلائے، جن کا جودوکرم ہوا سے بھی زیادہ بے پایاں ہے، اور ان کے فیض کرم
سے کٹھن زندگی آسان ہوجائے گی، لیکن یہاں تو عالم ہی اور ہے، اسے اپنے وجود
پر شرم آنے لگتی ہے اور ندامت کے قطروں سے پیشانی بھیگ جاتی ہے، اچانک اسے
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم فرما رہے ہیں ”آج کی رات اس شخص کی کون میزبانی کرے گا؟“ ابو
طلحہ رضی اللہ عنہ انصاری اٹھ کر عرض کرتے ہیں ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم! میرا گھر حاضر ہے“۔ پھر اس شخص کو ساتھ لے کر گھر آتے ہیں، بیوی
ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں ”کھانے کو کچھ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ایک مہمان ساتھ آئے ہیں“۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں
”میرے پاس تو بچّوں کے کھانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں“۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”بچوں کو سلادو اور کھانا دسترخوان پر چن
کر چراغ گل کردو۔ ہم مہمان کے ساتھ بیٹھے یونہی دکھاوے کا منہ چلاتے رہیں
گے اور وہ پیٹ بھر کر کھالے گا“۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا ایسا ہی کرتی ہیں۔ اندھیرے میں مہمان یہی سمجھتا ہے
کہ میزبان بھی اس کے ساتھ کھانا کھارہے ہیں، مہمان کو کھانا کھلا کر سارا
گھر فاقے سے پڑا رہتا ہے، صبح ہوتی ہے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
انہیں دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں تم دونوں میاں بیوی رات مہمان
کے ساتھ جس حسن سلوک سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوا ہے۔ پھر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ آیت تلاوت فرماتے ہیں جو اسی موقع پر نازل ہوئی
تھی۔
ترجمہ: ”اور وہ (دوسروں کی ضروریات کو) اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں خواہ
انہیں خود احتیاج نہ ہو“ اس طرح ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گھر والوں
کے ایثار کی داستان رہتی دنیا تک کلام الٰہی میں ثبت ہوجاتی ہے۔ |
|