کشمیری اپنے گریبان کیوں چاک کر رہے ہیں؟

میں جوں ہی سمنانی صاحب سے گپ شپ کے بعد باہر آیا، ایک مجاہد نوجوان سے ملاقات ہو گئی۔ یہ1990کی بات ہے۔ سمنانی صاحب روزنامہ زمیندار سرینگر کے ایڈیٹر ان چیف تھے۔ ان کا آفس مائسمہ میں تھا۔ یہ گنجان بستی معروف لال چوک اور بڈشاہ چوک کے عقب میں دریائے جہلم کے کنارے پر آبادہے۔ اس کے سامنے مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور قانون سازکونسل کا کمپلکس ہوٹل جہانگیر کے سائے میں موجود ہے۔ ریاستی ہائی کورٹ، سول سیکریٹریٹ بھی یہاں واقع ہیں۔ کہتے ہیں مرحوم شیخ محمد عبد اﷲ کی محاذ رائے شماری تحریک کو یہاں سے ہی سب سے پہلے کمک دستیاب رہتی تھی۔ آج پاکستان تقریباً70سال بعد کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ جس کا وعدہ بھارت نے دنیا کے سامنے کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر میں رائے شماری کرانے کے لئے کئی قراردادیں منظور کیں۔ مگر وقت گزرنے پر بھارت اپنے وعدوں کو وفا کرنے سے پیچھے ہٹ گیا۔

روزنامہ زمیندار کے دفتر کے باہر اس نوجوان کی ملاقات اس وجہ سے بھی یاد گار تھی کہ اس وقت کشمیر میں سب سے پہلے تحریک آزادی میں شامل جہادی پارٹیوں میں سے ایک اﷲ ٹائیگرس بھی تھی ۔جس کے چند مجاہدین کے ساتھ لال چوک میں رمضان المبارک کے دوران کسی ہوٹل مالک کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تھی۔ہمارے دوست پیر نورالدین عرف ائر مارشل نورخان، شہید غازی الیاس، شہید انجینئر طاہر محمود، نعیم بلوچ سے پتہ چلا کہ اس واقعہ نے لبریشن فرنٹ اور اﷲ ٹائیگرس کے درمیان کشیدگی پیدا کی مگرایک نوجوان کی معاملہ فہمی نے غلط فہمی دور کر دی۔ برسوں بعد اس نوجوان سے راولپنڈی میں ملاقات ہوئی۔ یہ سلیم ہارون ہیں۔ تحریک آزادی کے ایک سرگرم کارکن۔ مرحوم امان اﷲ خان اور یاسین ملک کے دست راست رہے ہیں۔

اسلام آباد میں کشمیر کانفرنس کے موقع پر ایک نوجوان نے اپنا گریبان پھاڑ کر کشمیریوں کی مظلومیت اور بے بسی دنیا کے سامنے لائی۔ کانفرنس میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ،مسلم لیگ ن کے چیئر مین سینیٹر راجہ ظفر الحق، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان ، مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ محمد اعجازالحق، سابق سفیر مسعود احمد خان، جماعت اسلامی کی سمیعہ راحیل قاضی، روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹران چیف مہتاب خان، حریت کانفرنس کے رہنما، صحافی، سکالرزسمیت کشمیریوں کی بری تعداد موجود تھی۔ اچانک ایک نوجوان اٹھا اور کانفرنس کے شرکاء کے سامنے آ گیا۔ اس نے سب کے سامنے اپنی قمیض پھاڑ دی۔ یہ نوجوان سلیم ہارون تھا۔ جو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے وائس چیئر مین ہیں۔ ان کا یہ احتجاج منفرد تھا۔ جب انھوں نے اپنا گریبان چاک کیا تو وہاں موجود کشمیریوں نے اس کا تالیوں سے خیر مقدم کیا۔ اس حرکت کو سراہا گیا۔ سلیم ہاروں کاکہنا تھا کہ اب فیصلے کا وقت ہے۔ حکومت ، یہاں کے سیاستدان روایتی باتیں، تقریریں کرتے ہیں۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ علامہ ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب فرمایا:
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
دیکھ آ کر کوچہء چاک گریبا ں میں کبھی
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

میں نے سلیم ہارون سے اس اقدام کی وجہ پوچھی۔ پتہ چلا کہ وہ اکثر کشمیریوں کی طرح روایتی سیاست اور سفارت، معذرت خواہانہ رویہ سے مایوس ہیں۔ تنگ آ کر ہی سب کے سامنے اس نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ بلا شبہ اس نے کشمیریوں کی نمائیندگی کی ہے۔ کشمیریوں کا بھارتی فورسز قتل عام کر رہے ہیں۔ ان کا قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ بھارت نے نہتے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ خواتین اور بچوں تک کو بھارتی فوجی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ نئی نسل کو آنکھوں، ٹانگوں، بازوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ کشمیری مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ان پر مہک اسلحہ اور زہریلی گیسیں استعمال ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ہم اگر اے سی ہالوں میں بیٹھ کر صرف تقریریں کرتے رہیں تو متاثرہ کشمیری تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کیا کر سکتے ہیں۔ یہ مسلہ کشمیریوں کی زندگی اور موت کا مسلہ ہے۔ اس کی وجہ سے پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ آج جس سے بھی بات کریں ، وہ جنگ کا خدشہ ظاہر کرتا ہے۔ بہت مذاکرات ہو گئے۔ پاک بھارت بات چیت ہوئی۔ دہلی نے حریت کانفرنس سے بات کی۔ حریت کانفرنس نے اسلام آباد سے مشاورت کی۔ مگر بھارت پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جب بھی موقع ملتا ہے بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں اضافہ کر دیتا ہے۔ کشمیریوں کا قتل عام تیز ہو جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری اپنی جانیں پیش کر کے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کشمیر سے باہر کشمیری کیا کریں۔ پر امن ریلیاں نکال رہے ہیں۔ سیمینار، کانفرنسیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ تا کہ دنیا متوجہ ہو۔ مگر یہ سب لاحاصل ثابت ہو رہے ہیں۔ اس لئیوہ اپنے گریبان چاک کر رہے ہیں۔مرزا غالب نے کہا:
ہے جنوں اہل جنوں کے لئے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریبان سے جدا میرے بعد
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

بھارت مری کو اپنی سرحد بنانا چاہتا ہے۔اس مقصد سے وہ کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے پر توجہ نہیں دیتا۔ پاکستان نے ایک بار پھر اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبے کے جواب میں بھارت نے اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید کر دیئے ہیں۔ اس نے اپنی جارحیت میں کوئی کمی نہیں کی۔قتل عام جاری ہے۔ تحریک آزادی کی ہر محاز پر فعال و مضبوطی، دنیا بھر میں جارحانہ سفارتکاری، کشمیریوں کی جدو جہد کی سرپرستی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ تحریک کے مقامی کردار کو ہر گز ذرا بھی نقصان نہ پہنچے۔ باتوں سے زیادہ عملی تعاون کی ضرورت ہے۔ یہی گریبان چاک کرنے والے کشمیریوں کا پیغام ہے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555491 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More