بیمہ (Insurance Policy) کی حرمت پر اصولی دلائل

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انشورنس جسے بیمہ کہا جاتا ہے۔ایک جدید کا روباری معاملہ ہے۔ دورس اور باریک بین حضرات نے اس کے برعکس اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ لہذا اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے اس معاملے کی اصل حقیقت جاننا انتہائی ضروری ہے اس میں شک نہیں ہے کہ بیمہ نظریہ کے اعتبار سے باہمی تعاون اور امداد محض پر قائم ہے۔نظریے کی حد تک یہ ایسا امر ہے۔ جس پر شریعت نے بھی ابھارا ہے۔ دین السلام نے ہمیں باہمی تعاون ایک دوسرے کی مدد ایشار وقربانی دینے کے ترغیب دی ہے۔ جس کی عملی صورت معاملات عطیات اور صدقات وخیرات ہیں۔شریعت اسلامیہ نے جہاں اغراض ومقاصد بیان کئے ہیں وہاں ان زرائع ووسائل کو بھی بیان کیا ہے جوان مقاصد کے حصول کے لئے اختیار کیے جاتے ہیں۔ بیمہ نظریے اور نظام کے اعتبار سے تو تعاون محض پرقائم تھا لیکن عملی طور پر جوزرائع استعمال کیے گئے ہیں وہ خود اس نظریہ کی نفی کرتے ہیں جیساکہ آئندہ معلوم ہوگا در اصل امداد باہمی پر مبنی یہ نظام جب یہود یانہ ذہنیت کی بھی بھینٹ چڑھا تو اسے پہلے تو کاروباری شکل دے دی گئی پھر سود دھوکہ اور جوئے جیسے بدترین عوامل وعناصر کو اس میں شامل کرکے اس پر سے تعاون محض کی چھاپ کو اتار دیا گیا۔یہ بیمہ اشخاص اور کمپنیوں کے درمیان ایک خاص عقد کانام ہے جس میں افراد اور کمپنیوں کے درمیان مندرجہ زیل امور طے پاتے ہیں۔
1۔طالب بیمہ ایک معین رقم معینہ مدت تک بالاقساط ادا کرتا ہے اس کے عوض بیمہ کمپنیاں اسے خطرات سے تحفظ اورگرام قدر سالانہ منافع پیش کرتی ہیں۔
2۔یہ کمپنیاں اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہیں اس رقم کو صرف کریں طالب بیمہ اس سے قطعی طور پر لاتعلق ہوتا ہے یہ رقم جائزو ناجائز کاموں پر صرف کی جاتی ہے۔جیسے عمارات کی تعمیر اور بھاری شرح سود پر آگے بڑی کمپنیوں کو قرض دینا وغیرہ۔
3۔طالب بیمہ اگر معینہ مدت تک زندہ رہے اور پوری رقم بالاقساط ادا کردے تو وہ کمپنی سے ادا کردہ رقم سے زائد وصول کرن کا حقدار ہوجاتا ہے اگر اس مدت سے پہلے مرجائے تو اس کی طرف سے نامزد شخص زر بیمہ کامستحق ہوتاہے۔
4۔اگرطالب بیمہ معینہ مدت سے پہلے اپنی اقساط بند کرکے معاہدہ بیمہ کو ختم کرنا چاہیے تو جمع شدہ رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے۔
بیمہ کی تعریف مختصر طور پر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے۔جس کی رو سے تحفظ دھندہ یعنی بیمہ کمپنی پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس شخص کو جس نے بیمہ پالیسی خریدی ہے حادثہ یا نقصان پہنچنے کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرے۔اس تعریف سے بیمہ کے تین عناصر کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں:
1۔بیمہ کی قسط ۔2۔خطرہ۔3۔بیمہ کی رقم
خطرہ سے مرد وہ امکانی حادثہ ہے جو مستقبل میں کسی وقت بھی پیش آسکتا ہے ۔یہ خطرہ اورحادثہ ہی اس کاروبار بیمہ میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اور باقی دوسرے عناصر کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے اس کاروبار کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ معاہدہ کی رو سے فریقین زمہ دار بن جاتے ہیں۔اس میں ایک فریق خطرات سے تحفظ فراہم کرنے والا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جسے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جسے طالب بیمہ کہتےہیں۔اس کی زمہ داری یہ ہوتی ہے۔ کہ وہ اقساط بیمہ کی ادائیگی کا بروقت بندوبست کرے یہ زمہ داری معاہدہ کی تکمیل کے وقت ہی شروع ہوجاتی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بیمہ کمپنی کی زمہ داری غیر یقینی اور احتمالی ہوتی ہے کہ اس کی زمہ داری یہ ہے کہ وہ حادثہ پیش آنے کی صورت میں بیمہ کی رقم ادا کرے اس ذمہ داری کے وجود کا تصور اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی حادثہ پیش آئے ا س وجہ سے دھوکہ اور احتمال اس کاروبار کا بنیادی رکن اور لازمی عنصر ہے کیوں کہ بیمہ کا کاروبار اس کے بغیر ناممکن ہے اور یہ دھوکہ اپنی نوعیت اور قسم کے لہاظ سے انتہائی سنگین ہے کیوں کہ یہ حصول معاوضہ کے سلسلہ میں اس کی مقدار اوراس کی مدت کے بارے میں پایاجاتا ہے۔ جبکہ شریعت نے کاروباری معاملات میں دھوکہ کی معمولی قسم کو بھی حرام ٹھرایا ہے دھوکہ عربی زبان میں غرر کو کہتے ہیں جس کی تعریف یہ ہے کہ''غیر طبعی'' غیر معمولی اور غیر یقینی صورت حال جس کے پیش نظر کسی معاملہ یالین دین کے ضروری پہلو متعین نہ کئے جاسکیں اور فریقین آخر وقت تک اس معاملہ میں غیر یقینی صورتحال کا شکار رہیں کہ ان کے معاملہ کی اصل صورت بالا آخر کیاہوگی۔''
غرر کی متعدد تعریفات سے اس کے جو اہم عناصر سامنے آئے ہیں وہ شک وشبہ غیر یقینی کیفیت اور معاملہ کے بنیادی اجزاء کا غیر معلوم اور غیر معین ہونا ہے۔جس معاملہ میں یہ عناصر پائیں جایئں وہ معاملہ مبنی پر دھوکا سمجھا جائے گا اور شریعت میں ایسا معاملہ ناجائز اور حرام ہے۔ہم اس مقام پر یہ وضاحت کردینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ بیمہ کے متعلق محل اختلاف اس کا نظریہ اور نظام ہرگز نہیں ہے بلکہ محل اختلاف وہ طریق کار اور زریعہ ہے جو اس کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے اس کے طریق کار کے پیش نظریہ کاروبار غیر یقینی اورسنگین دھوکے والا معاملہ ہے ا س کے غیر یقینی ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس میں فریقین میں سے ہر ایک کو معاہدہ کی تکمیل کے وقت معاوضہ کی اس مقدار کا علم نہیں ہوتا جو وہ ادا کرے گا یا وصول کرے گا۔اس لئے کہ وہ تو اس خظرہ کے وقوع یا عدم وقوع پر موقوف ہوتا ہے جس سے تحفظ دیا گیا ہے۔اور یہ بات اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا کہ حادثہ پیش آئے گا یا نہیں؟اگر آئے گا تو کب آئے گا؟بعض اوقات طالب بیمہ ایک ہی قسط ادا کرنے کے بعد حادثہ سے دو چار ہوجاتا ہے اور رقم بیمہ کا حقدار بن جاتا ہے۔جبکہ بعض اوقات پوری اقساط ادا کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا اس طرح تحفظ فراہم کرنے والی بیمہ کمپنی کو معاہد ہ کے وقت علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا وصول کرے گی اور کیا ادا کرے گی کیوں کہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے۔ اور اسے بیمہ کی رقم طالب بیمہ کو دا کرنی پڑتی ہے۔ اور بعض اوقات پوری اقساط وصول کرلیتی ہے لیکن حادثہ پیش ہی نہیں آتا۔اس طرح یہ معاملہ سراسر ایک ''اندھا سودا'' ہے۔جس میں دھوکے کا پہلو نمایاں طورپر موجود ہے جس کی مذید وضاحت حسب زیل ہے۔
مالی معاملات میں دھوکہ چار طرح سے ہوسکتا ہے
1۔خود کسی چیز کے وجود میں دھوکہ ہو۔جیسا کہ گم شدہ اونٹ کی خریدوفروخت۔
2۔کسی چیز کے حصول میں دھوکہ ہو جیسا کہ اڑتے ہوئے پرندوں کی خریدوفروخت۔
3۔ کسی چیز کی مقدار میں دھوکہ ہو۔جیسے پتھر پھینکنے کی جگہ تک زمین کی خریدوفروخت ۔
4۔مدت حصول میں دھوکہ جیسا کہ حمل کے جنم تک قیمت ادا کرنا وغیرہ کاروبار بیمہ میں دھوکہ کی یہ چاروں اقسام پائی جاتی ہیں۔
© کسی چیز کے وجود میں دھوکہ کا پایا جانا۔یہ دھوکہ کی شدید ترین قسم ہے یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے صرف معدوم چیز کے معاوضہ پر ہی بطلان کا حکم نہیں لگایا بلکہ وہ اس کے حکم کے تحت ہر اس چیز کو شامل کرتے ہیں۔جس کے وجود اور عدم دونوں کا احتمال ہو دھوکہ کی یہ قسم کاروبار بیمہ میں پوری طرح دیکھی جاسکتی ہے کیوں کہ بیمہ کی جو رقم کمپنی کے ذمے ہوتی ہے اس کا وجود غیر یقینی ہے کیوں کہ اس کا وجود حادثہ پر موقوف ہوتا ہے اور وہ خود غیر یقینی ہے۔
© کسی چیز کے حصول میں دھوکہ پایا جانا اس کے معاوضے کو باطل کردیتاہے۔جیسا کہ دریا میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی قیمت ادا کرنا کیوں کہ جو شخص ان کی قیمت ادا کرتا ہے وہ گویا ان کے حصول کو داؤ رپر لگا رہا ہے۔وہ معاملہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ ا س نے جس چیز کی قیمت ادا کی ہے۔وہ اسے حاصل بھی کرسکے گا یا نہیں جبکہ اس نے معاوضہ صرف اس چیز کو حاصل کرنے کےلئے ادا کیا ہے بیمہ کے کاروبار میں یہ دھوکہ پایا جاتا ہے۔کیوں کہ طالب بیمہ معاہدہ کرتےوقت یہ نہیں جانتا کہ آیا بیمہ کی جس ر قم کے بدلے اس نے اقساط ادا کی ہیں۔وہ اسے حاصل کرسکے یا نہیں کیوں کہ اس کا حصول تو اس حادثہ پر موقوف ہے جس کاواقع ہونا یقینی نہیں ہے۔
© معاوضہ کی مقدار کا دھوکہ بھی وجود اور حصول کی طرح معاوضہ کو باطل کردیتا ہے۔جیسا کہ مٹھی بندرروپوں کے عوض کوئی چیز خریدنا شرعاً باطل ہے۔اس طرح نقصانات کے بیمہ میں طالب بیمہ کو معاہدہ کرتے وقت اس معاوضہ کی مقدار کا علم نہیں ہوتا جو بیمہ کمپنی حادثہ پیش آنے کی صورت میں ادا کرے گی۔اس طرح بیمہ کمپنی بھی معاہدہ طے ہوتے وقت اس بات سےبے خبر ہوتی ہے کہ وہ طالب علم بیمہ سے جو کچھ حاصل کرے گی۔اس کی مقدار کیا ہوگی کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے جبکہ بعض اوقات تمام اقساط وصو کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا۔
©معاوضہ والے معاملات میں اگر مدت معلوم نہ ہو تو بھی معاملہ بالکل باطل ہوجاتاہے۔ جیسا کہ حمل کی خریدوفروخت اس لئے منع ہے کہ اس کی معیاد غیر متعین ہوتی ہے اس طرح تاحیات بیمہ پالیسی میں بیمہ کمپنی بیمہ کی رقم طالب بیمہ کے مرنے کی صورت میں ادا کرنے کا عہد کرتی ہے جبکہ یہ معیاد یعنی اس کے مرنے کا وقت نامعلوم اور غیر متعین ہے۔
بیمہ کا معاملہ جوا پر مشتمل ہے۔
بیمہ کاکاروبار اس لئے بھی حرام اور ناجائز ہے کہ اس میں جوا پایاجاتا ہے۔جوقرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے۔حصول زر کی ہر وہ شکل جوا ہے جس میں اسے حاصل کرنے کادرارومدار محض اتفاق پر ہو اور دوسرے یکساں حق رکھنے والوں کے مقابلہ میں ایک شخص کسی لاٹری قرعہ اندازی یا محض کسی اور اتفاق کے نتیجہ میں رقم کو حاصل کرلے۔یہ تمام جوا کی اقسام ہیں۔جوا کی تعریف کاروبار بیمہ پر اس طرح صادق آتی ہے کہ جو امیں فریقین اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کو ایک مقررہ رقم کوئی حادثہ پیش آنے پر ادا کرے گا۔کاروبار بیمہ میں بھی یہی ہوتاہے۔ کہ بعض اوقات طالب بیمہ ایک قسط اد کرنے کے بعد مرجاتا ہے تو اس کے نامزد کردہ وارث کر ادا کردہ رقم سے کئی گنازیادہ رقم ملتی ہے۔اس کا اس طرح مرنا ایک اتفاقی حادثہ ہے جو نامزد وارث کے لئے کثیر ر قم ملنے کا باعث بنا ہے تھوڑی سی محنت کرکے اتفاقی طور پر بہت زیادہ رقم ہتھیا لینا میسر کہلاتاہے جس سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے اس طرح طالب بیمہ اگر معینہ مدت سے پہلے اپنے عقد کو فسخ کرنا چاہے۔اور بقیہ اقساط کی ادائیگی روک لے تو ا س صورت میں کمپنی جمع شدہ رقم کی مالک بن جاتی ہے ۔یہی بھی قمار کی ایک قسم ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
اس کاروبار میں سود کی دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں
طالب بیمہ جو رقم اقساط کی صورت میں کمپنی کو ادا کرتا ہے اگر حادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے تو ایک طرف سے نقد ادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بنا پر یہ ادھار کا سود ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں ربا النسیئہ کہتے ہیں اور اگر ادا کردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کا سود ہے جسے ربا الفضل کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے سود یہی ہوتاہے کہ ایک آدمی کچھ رقم کسی دوسرے کو دیتا ہے پھر ایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض کچھ زائد رقم وصول کرتا ہے جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر تم توبہ کرلو تو صرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔''(2/البقرہ :279)
نیز معینہ مدت تک زندہ رہنے اور تمام اقساط اد ا کرنے کی صورت میں طالب بیمہ مجموعی رقم سے زائد زر بیمہ لینے کامستحق ہوتا ہے یا اضافہ کے ساتھ خطیر رقم یکمشت یابالا اقساط لے سکتا ہے یہ سود کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔کاروبار بیمہ ضابطہء وراثت سے متصادم ہے۔
یہ کاروبار اس لئے بھی ناجائز ہے۔کہ اس پر عمل کرنے سے ضابطہء وراثت مجروح ہوتا ہے کیوں کہ مرنے کی صورت میں زر بیمہ کا مالک وہ نامزد شخص بن جاتا ہے جو طالب بیمہ نے اپنی زندگی میں مقرر کیا ہوتا ہے باقی ورثاء اس سے محروم ہوتے ہیں حالانکہ اس کے ترکہ میں تمام شرعی ورثاء شریک ہوتے ہیں۔
دور جدید میں فلمی ادا کارہ کے حسن وجمال اور ایک مغنیہ اور گلوکارہ کی آواز کابیمہ بھی ہوتا ہے اس نے ایسے نام نہاد مفادات کو جنم دیا ہے جنھیں شریعت سرے سے کوئی مفاد ہی تسلیم نہیں کرتی۔اس طرح اس کاروبار میں تعاون علی الاثم والعدوان بھی پایا جاتا ہے لہذا اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
سوال میں اس پہلو کو بھی اٹھایا گیا ہے کہ کاروبار بیمہ میں جو ر قم جمع ہوتی ہے اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے پھر اس کے منافع یا نقصانات کو سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔یعنی یہ مضابت کی ایک قسم ہے اس کاروبار کی مضاربت قرار دینادرج زیل وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے۔
© مضاربت کی صحت کے لئے ضروری ہے۔ کہ اس میں منافع کی شرح نسبت کی بنیاد پر ہو مثلا ایک آدمی محنت کرتا ہے۔ اور دوسرا رقم دیتا ہے۔تو اخراجات کے بعد جو منافع ہوگا وہ ایک خاص شرح کے بعد تقسیم ہوگا مثلاً 50٪ محنت کرنے والا اور 50٪ رقم خرچ کرنے والا یا اور کوئی شرح مقرر کرلی جاتی ہے۔لیکن صرف رقم پر معین منافع عقد مضاربت کے لئے مفسد قرار دیا گیا ہے جیسا کہ بیمہ زندگی میں ہوتا ہے۔مثلاً جمع شدہ رقم پر 10٪ نفع دیا جائے گا۔اس لئے دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔اگرچہ بادی النظر دونوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔
© اگر مضاربت میں نقصان ہو تو اس نقصان کو صرف سرمایہ لگانے والا برداشت کرتا ہے مضارب کی محنت تو ضائع ہوتی ہے اس کے علاوہ مالی نقصان میں وہ شریک نہیں ہوتا جبکہ بیمہ کے کاروبار میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی اس کاروبار میں سرمایہ کار کوہر صورت منافع ہی ملتا ہے نقصان کی صورت میں کمپنی زمہ دار ہوتی ہے۔
©مضاربت میں سرمایہ کار کو علم ہوتا ہے۔ کہ میری رقم کس قسم کے کاروبار میں صرف ہورہی ہے جبکہ بیمہ میں سرمایہ کار کو اس قسم کے معاملات سے بالکل لاتعلق رکھا جاتا ہے۔
© مضاربت میں اگر سرمایہ کار مر جائے تو اس کی ر قم ورثاء کو ملتی ہے جبکہ بیمہ کے کاروبار میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ موت کی صورت میں اس کا حقدار اس کا نامز د کرتا ہوتا ہے۔شرعی ورثاء اس کے حق دار نہیں ہوتے۔ اس میں قانون وراثت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ہماری بیان کردہ وجوہات کی بناپر بیمہ کا کاروبار مضاربت سے مشابہت نہیں رکھتا ۔
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.