مسئلہ کشمیر کا جلد حل نا گزیر!!!

کشمیر میں اسلام چودھویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور انکے ایک ہزار مریدوں کے ذریعے پہنچا ۔بدھ راجہ رنچن نے دینی افکار سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی یوں راجہ رنچن سلطان صدرالدین کے نام سے کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا ۔بعد ازاں ایک ایرانی صوفی میر سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں اور ہنر مندوں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو پہچان دی ۔اسی دور میں شمس الدین عراقی اور انکے پیروکار وں نے کشمیر میں قدم رکھا انہوں نے چک خاندان کی مدد سے ہزاروں ہندوؤں کو اسلام میں داخل کیا اس وقت آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے ۔لیکن کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ اس بات پر ہے کہ کشمیر کا ایک ٹکڑا جسے مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے پر آزادی پاکستان کے وقت ایک ہندو بنیے کی شخصی حکمرانی تھی جس کی وجہ سے بھارت اسے اپنے باپ کی جاگیر سمجھتا ہے حالانکہ آزادی پاکستان کے وقت یہ بات طے تھی کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے وہ علاقے پاکستان کو دے دئیے جائیں ان علاقہ جات میں باقی پاکستان کے ساتھ کشمیر شہہ رگ کہلایا کیونکہ یہاں پر بھی مسلمان اتنی ہی تعداد میں آباد تھے کہ جو شرح بنگلہ دیش اور پاکستان میں مسلمانوں کی آباد تھی ۔لیکن اس معاہدے کی خلاف ورزی ہمیشہ سے بھارت کرتا آرہا ہے اور کشمیر میں اسکی بربریت اور جارحیت جاری ہے کئی بار مسئلہ کشمیر پر آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا تو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور بھارت کی طرف سے ہر دفعہ عالمی قوانین کو تار تا ر کیا گیا ۔ پاکستان کو ہر طرف سے نشانہ بنایا گیا تاہم پاکستان نے ہمیشہ سے عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا اور اقوام متحدہ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ۔جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں کشمیر کے تنازعے پر بات ہوئی تو بھارت نے ہر دفعہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی حد کر دی کیونکہ ہر بار فیصلہ کشمیر کی عوام پر چھوڑا گیا کہ وہ جس طرف جانا چاہیں جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی کشمیریوں پر واضع کر دیا گیا کہ اگر وہ آزاد ریاست کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں تو بھی ہم ان کے ساتھ ہیں اس استصواب رائے کے فیصلے میں کشمیریوں نے ہر بار پاکستان کے حق میں جواب دیا لیکن ہر بار بھارت کی ہرزہ سرائی رنگ لائی اور کشمیری مسلمان آزادی سے محروم رہے ۔کیونکہ بھارت کو امریکہ، ایران اور اسرائیل جیسی ریاستوں کی آشیر باد بھی حاصل ہے اس لئے بھارت پر اس طرح زور نہیں دیا جا رہا جس طرح کارگل کی جنگ میں پاکستان پر دباؤڈال کر پاک افواج کو واپس بلایا گیا تھا لیکن بھارت نے اس وقت بھی بدتہذیب اور بزدل ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے لوٹتے جوا نوں کی کمر پر وار کر کے شہید کر دیا ۔بھارت کے جو سیاستدان آج بولتے ہیں کہ پینسٹھ کی جنگ میں ہم نے یہ کر دیا اور اکہتر کی جنگ میں یہ کر دیا ننانوے کی جنگ میں مار بھگایا ذرا وہ اپنے میڈیا کی تاریخ تو اٹھا کر دیکھیں کہ انہی کے اپنے ملک کے میڈیا نے اپنی افواج اور حکمرانوں کو نا اہل اور کمزور قرار دیا یہاں تک کہ پینسٹھ کی جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے یہ الفاظ تھے کہ مسلمانوں کو بندوق یا تلوار سے نہیں ہرایا جا سکتا جس کے بعد بھارت نے پروکسی اور ثقافتی جنگ کو تقویت دی ۔بھارت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جب بھی مسلمانوں نے ٹھان لی اور اﷲ کے نام پر میدان میں اتر ے تو اﷲ تعالیٰ نے خود انکی غیب سے مدد فرمائی جسکی گواہی خود بھارتی جنگجو ؤں نے دی ۔کہتے تھے کہ ایک سفید فام فوج نہ جانے کہاں سے گھوڑوں پر آئی اور ہمارے ٹینکر اور توپوں سمیت فوجیوں کو نیست و نابود کر دیا ۔عصر حاضر میں پھر سے آزادی کشمیر کی تحریکوں نے زور پکڑ لیا ہے کہ جب ان کا مجاہد اور آزادی کشمیر کی تحریکوں کا سر گرم کارکن بھارتی فوجیوں نے شہید کر دیا ۔ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا اموات ہوئیں لوگ زخمی ہو رہے ہیں انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے بچے ،بوڑ ھوں کو ظلم و بربریت کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے اورعورتوں کی عصمت تار تار کی جارہی ہے لیکن جو ں جوں بھارت کی ہرزہ سرائی بڑھ رہی ہے آزادی کی اس تحر یک نے بھی دم پکڑ لیا ہے جو کہ اب فیصلہ کن لگتی ہے ۔بھارت اور پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے اس تنازعے پر بلاتفریق بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور عراق ،شام اور فلسطین کے بعد اب کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر ممالک نے بھی آواز اٹھانی شروع کی دی ہے۔ویسے تو بھارت پہاڑ جیسے بند باندھتا ہے کہ ہمارے جیسی لبرل جمہوریت پوری دنیا میں کہیں نہیں اور ہم جمہوریت پسند ہیں لیکن حالات کے پیش نظر بھارتی حکمران سراسر جھوٹے نظر آتے ہیں کیونکہ اگر واقعی بھارت جمہوریت پسند ہے تو کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام پر چھوڑ کیوں نہیں دیتا ؟بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سشما سوراج اور وکاس سروپ کی جانب سے بڑے سخت بیانات سامنے آئے ہیں جس میں انہوں پاکستان کو واضع طور پر دھمکی دی ہے کہ وہ کشمیر کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیں گے اور اگر پاکستان نے اپنا مؤقف نہ بدلہ تو نہ بھولیں کہ ایٹمی پاور ہم بھی ہیں اور ہم پاکستان کو دنیا سے مٹا دیں گے اتنی بڑی دھمکیوں کے با وجود اقوام متحدہ کی خاموشی بڑی تعجب کی بات ہے! لیکن اس پر میں بھارت کو جواب ضرور دینا چاہوں گا کہ وہ یہ نہ بھولیں کہ پینسٹھ کی جنگ میں ہم ایٹمی پاور نہیں تھے پھر بھی بھارتی افواج کو ناکوں چنے چابنے پر مجبور کر دیا تھا اورتمہارے جوان دم دبا کر بھاگ گئے۔بھارت اپنے ایٹمی پاور ہونے پر فخر نہ کرے کیونکہ جب تک ایٹم بم چلانا نہیں آئے گا ایٹمی پاور بننا بے سود ہے !! شاید بھارت یہ بات بھی بھول چکا ہے کہ پاکستانی ایٹم بم بنانے والے بھی ابھی حیات ہیں اور انہیں چلانا بھی اچھی طرح آتا ہے یہ بات تو یہیں ہمارا ایٹم بم ان سے کہیں زیادہ کم وقت میں دھماکہ کر سکتا ہے اس لئے بھارتی سیاستدانوں کو مفت مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ اپنی سیاست چمکانے کیلئے اپنے ملک کی عوام کو مصیبت میں نہ ڈالیں ۔مسئلہ کشمیر استصواب رائے کے بغیر حل کرنا نا ممکن نظر آتا ہے جس کیلئے پاکستان تو ہمیشہ سے تیار رہا ہے اور بھارت کو بھی چاہئے کہ اگروہ اپنا بہتر مستقبل دیکھنا چاہتا ہے تو پاکستان کے ساتھ اس تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے کیونکہ کشمیر دھرتی مسلمانوں کی تھی ،ہے اور رہے گی ۔ جس طرح تحریکوں نے زور پکڑ رکھا ہے یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی طرح کشمیر بھی چودہ اگست کو آزاد ہو گا۔
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166859 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More