کشمیریوں کا خون ظالموں کو بہا لے جانے والا ہے

یہ سرینگر کا صدر ہسپتال ہے۔ اس کے وارڈ نمبر 6 میں داخل ہوتے ہی ایک 5 سالہ بچی زہرا ظہور کے رونے اور کراہنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ زہرا ظہور یہاں زیر علاج ہے۔ اس کی ایک آنکھ پر پٹی بندھی ہے تو جسم جگہ جگہ سے سوراخ زدہ ہے۔ زہرا کے والدین اپنی نور نظر کو تکلیف کا احساس کم کرنے کے لئے کھلونوں سے بہلاتے ہیں تو وہ ان میں مگن ہو کر ہنسنے بھی لگتی ہے۔ کسی نے پوچھا کہ ’’زہر! آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟‘‘ تو وہ بتانے لگتی ہے ’’میں گھر سے نکل رہی تھی، سامنے دیکھا تو پولیس والے انکل بس سے نیچے اترے اور پھر انہوں نے ایک پٹاخہ چلا دیا۔ میں ڈر کر اپنی نانو کے پیچھے چھپ گئی مگر مجھے سارے جسم میں کسی چیز کے چبھنے کا درد ہو رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میرا خون جگہ جگہ سے نکل رہا تھا اور میں خون دیکھ کر رو رہی تھی۔ پھر مجھے میرے امی ابو یہاں لے آئے کہ میں ٹھیک ہو جاؤں۔ ‘‘
اس ہسپتال کے وارڈ نمبر 16 میں 12 سالہ بچہ عمر نذیر پیٹ کے زخموں کی تکلیف سے چیخ رہا ہے۔ اس کی والدہ ہاتھوں میں پنکھا لئے اس کے زخموں پر بیٹھنے کی کوشش کرنے والی مکھیوں کو بھگانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ عمر نذیر بھی آزادی کے لئے مظاہروں کے دوران باہر نکلا تو فوج نے اسے سیدھا فائر مارا اور وہ خون میں لت پت ہو کر گر گیا تھا۔ یہاں ایک ایک بیڈ پر ایسے دو دو زخمی لیٹے ہوئے ہیں، تو کچھ ہسپتالوں کے فرش پر پڑے ہیں کہ جگہ نہیں۔ پھر یہاں اچانک شور و غوغا بلند ہوتا ہے۔ چیخ پکار اور آہ و زاری کے دوران لوگ جانیں بچانے بھاگتے بتاتے ہیں کہ ہسپتال پر بھی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ فوج ہسپتال کی توڑ پھوڑ کرتی ہے، زخمیوں کے لواحقین کو بھی مار مار کر گرفتار کیا جاتا ہے تو کتنے زخمیوں کے جسموں سے لگی ڈرپس اتار پھینکی جاتی اور انہیں ہسپتال کے بسترسے اٹھا کر اور دھکے مار کر فوجی گاڑیوں میں ڈالا اور تھانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ہسپتال کے ڈاکٹروں اور دیگر عملے سے ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے کام میں مصروف ہیں۔ لیکن…… یہ سب کچھ کرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے کونے کونے سے آزادی کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ بھارت کو کیا معلوم تھا کہ 8 جولائی کے روز مجاہد کمانڈر برہان مظفر احمد وانی کو شہید کرنے کا اس کا ’’نعرۂ فاتحانہ‘‘ اس کے لئے کتنی بڑی شکست اور رسوائی میں بدل جائے گا۔ مظلوم، مجبور، مقہور، زخموں سے چور اور محصور کشمیری قوم اس کے لئے ایک بار پھر ایسا لوہے کا چنا ثابت ہوئی کہ اسے نہ نگلا جا سکے ، نہ چبایا جا سکے اور نہ تھوکا جا سکے ۔ بھارت کو شاید یاد نہیں کہ یہ وہ یہی کشمیری قوم ہے جس نے اسی ماہ جولائی کی 13 تاریخ 1928ء کو بھی ایک ایسی داستاں رقم تھی جو آج تک لازوال ہے۔

کشمیری ڈوگرہ راج سے نجات کے لئے سرینگر میں برسر احتجاج تھے کہ نماز ظہر کا وقت ہوا۔ کشمیر کے باہر سے آیا ایک نوجوان عبدالقدیر اذان کے لئے کھڑا ہوا۔ اس نے زبان سے ’’اﷲ اکبر‘‘ کا لفظ ادا کیا ہی تھا کہ وہ ڈوگرہ فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر نیچے گر گیا، اس کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹے اور جام شہادت نوش کر گیا۔ اس کا گرنا تھا کہ اس کے پیچھے ایک کشمیری نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے وہیں سے اذان شروع کی جہاں سے عبدالقدیر سے چھوٹی تھی۔ اس کے ’’اﷲ اکبر‘‘ کے الفاظ ادا ہوتے ہی اسے بھی گولی مار دی گئی، وہ گرا۔ کچھ نے اس کی تڑپتی لاش اٹھائی تو ایک اور کشمیری نوجوان نے اس کے چھوڑے الفاظ سے اذان دینی شروع کی۔ یوں کرتے کرتے 22 کشمیری نوجوانوں نے جانیں دے دیں لیکن اذان مکمل کر کے چھوڑی۔ اس قربانی سے ڈوگرہ راج کے اقتدار کی بنیادیں تو ہل گئیں لیکن انگریز کی بدمعاشی کے باعث آزادی نہ مل سکی۔ یہ دن تاریخ مسلم کا ایک منفرد و یکتا دن ہے۔ یہ دن یوم ’’شہدائے کشمیر‘‘ کہلاتا ہے۔ اسی ماہ جولائی میں کشمیری قوم نے عیدالفطر پاکستان کے ساتھ منانے کا اعلان کیا۔ 2 دن بعد اسلام آباد میں ہر دلعزیز کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کر گیا تو اس کی اس قربانی نے بھارت کے ایوان ہلا دیئے۔ بھارت کی 10 لاکھ مسلح افواج کا کرفیو بھوک پیاس سے تڑپتے کشمیری ماؤں اور بچوں نے خون کے دریا بہا کر مذاق بنا دیا۔ گولیوں کی برساتیں بھوکے پیاسے کشمیریوں کو گھروں میں قید نہ کر سکیں…… مقبوضہ کشمیر کے در و دیوار پر ہر جگہ ایک جیسے ہی نعرہ درج ہے…… گو انڈیا گو بیک، وی وانٹ فریڈم ہم کیا چاہتے……؟ آزادی، لے کے رہیں گے آزادی، زندہ ہے، برہان زندہ ہے…… یہ کون ہے……؟ یہ کشمیر کا ایک پانچ سالہ بچہ ناصر خان ہے جسے پلوامہ سے سرینگر علاج کے لئے لایا گیا ہے۔ اس کی آنکھ اور سر پر پٹی بندھی ہے، اسے بھارتی فوج نے ایک ایسا فائر مارا ہے جس میں سے سوئیاں نکلی ہیں اور وہ سوئیاں اس کے سر اور آنکھوں میں گھس گئی ہیں لیکن اس کی دوسری آنکھ میں آنسو نہیں، آزادی کا عزم ہے۔ اس ہسپتال میں 5سال سے لے کر 15 سال تک کے بچوں کا ایک ہجوم ہے جو ہسپتالوں میں پڑا ہے اور اب ان کی آنکھوں میں روشنی نہیں، خون ہے۔ ہسپتال کے باہر یعنی گھروں بازاروں میں موجود کشمیری اور ان کے بچے کیا نہیں جانتے کہ اگر وہ گھر سے نکلے بلکہ گھر کی کھڑکی سے بھی باہر جھانکا تو موت کا شکار نہ ہوئے تو پیلٹ گن کا شکار ہو کر زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے لیکن آخر انہیں کون ہے کہ جو انہیں یوں باہر نکلنے اور لہولہان ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ دیکھئے، یہ کشمیری نوجوان نہیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کا ایک ہجوم ہے جنہوں نے ’’پاکستان سے رشتہ کیا؟ لاالہ الا اﷲ، کشمیر اور پاکستان ایک دل ایک جان، ہم سب برہان ہیں‘‘ کے پوسٹر اٹھا رکھے ہیں۔ ان کے چہروں پر تو کپڑا بھی نہیں ’’کر لے انڈیا جو کرنا ہے‘‘ اور یہ فوج کے خلاف نعرے لگاتے برسر میدان آتے ہی جا آ رہے ہیں۔ ان پر زہریلی گیسیں چلتی ہیں، طرح طرح کی بندوقوں سے آگ برستی ہے، خون بکھرتا ہے، یہ گرتے ہی سنبھلتے ہیں، ایک دوسرے کو اٹھاتے، ہسپتال پہنچاتے ہیں اور باقی ماندہ اپنے زخمی جسموں، بھوکے پیٹوں اور سوکھے ہونٹوں ، بھرے آزادی کے نعرے لگاتے میدان میں آ جاتے ہیں۔ اگر آزادی کی اس تحریک کو یوں دبانا ممکن ہوتا تو 90 سال میں 6 لاکھ اپنے جگر کٹوانے کے بعد بھی یہ ویسے کے ویسے کھڑے لڑ نہ رہے ہوتے ۔ خونیں برسات میں آخر کب تک سارا عالم اندھا بنا رہے گا؟ کب تک سارے بھارت کے ساتھ کھڑے رہیں گے؟ یقینا وہ دن آنے والا ہے جب مظلوموں کے خون کا یہ سیلاب سارے ظالموں ہی کو بہا لے جانے والا ہے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 137146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.