کسٹم ایکٹ سیاست کے نذر
(Abid Ali Yousufzai, Swat)
ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ایک بار پھر بے و
قوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔تبدیلی کے نام پر آنے والے صوبائی حکومت نے
ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس لگانے کی سفارش کی جس کو مرکزی حکومت نے قبول کر کے
صدر سے اس کی توثیق کرائی۔ شروع کے دنوں میں بعض مقامی سیاست دانوں نے اپنی
سیاست چمکانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اسی د وران مرکزی اور صوبائی
حکمرانوں نے سوات کے دورے بھی کئے لیکن مجال کے کوئی ٹیکس کا نام زبان پر
لائے۔ محض اپنی سیاسی گفتگو کرکے ایک دوسرے پر کیچڑ اچالا اور چلے گئے۔
ملاکنڈ ڈویژن میں جب ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تو یہ عوام ہی تھے
جنہوں نے شروع سے ہی اس کا راستہ روک کر مخالفت کی۔ جلسے کئے۔ پر امن
احتجاج کیا۔ ریلیاں نکالی۔ پریس کانفرنس کیے۔ لیکن کسی صورت ٹیکس کو مسلط
ہونے نہ دیا۔ عوام نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ جب تک حکومت اپنا ظالمانہ
فیصلہ واپس نہیں لیتی ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جولائی آخر میں کامیاب شٹر
ڈاون کے بعد اعلان کیا گیا کہ پانچ اگست کو شٹر ڈاون اور پہیہ جام کیا جائے
گا جبکہ دس اگست کو اسلام آباد میں احتجاج کریں گے۔
اپنے حق کے لیے لڑنے والے عوام کے سامنے بلآخر حکومت نے گھٹنے ٹیک دئے اور
اپنے ظالمانہ فیصلے پر عمل درآمد فی الفور روک دیا۔ ٹیکس پر عمل درآمد بند
ہونے کی خبر آتے ہی سیاسی حلقے حرکت میں ٓگئے۔مبارک باد دئے جانے لگے۔ ٹیکس
کے خاتمے کے لیے بھاگ دوڑ کو سراہا جانے لگا۔ عوام کی کوششوں اور قربانیوں
کو یکسر نظرانداز کرکے سیاست کو کریڈٹ دیاجانے لگا۔ گو کہ ٹیکس کے فیصلے کے
واپسی میں عوام کا کوئی کردار نہیں بلکہ یہ سیاسی شخصیات کا ہی کارنامہ ہے۔
کیا سیاسی حضرات یہ بتا سکتے ہیں کہ جب ٹیکس کا حکم نامہ صادر ہوا اس وقت
یہ اصحاب کہا تھے؟ جب ان کے پارٹیوں کے چیئر مین سوات کی سرزمین پر موجود
تھے اس وقت انہوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ جب صوبائی اور مرکزی حکمران
سوات کے دورے پر تھے اس وقت انہوں نے ملاکنڈڈویژن کے عوام کے حق کے لیے
آواز کیوں بلند نہیں کیا؟
یقینا سیاسی لوگ نچھلے سطح پر ہو یا اونچے سطح پر ان کی نظر ہمیشہ اپنی
سیاسی مفادات پر ہوتی ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے سیاسی مفادات کو مقدم رکھتے
ہیں اور اسی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ اگر چہ مرکزی اورصوبائی حکومتیں اقتدار
کے جنگ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہیں تاہم غریب عوام کو رولنے میں
وہ ایک ہے۔ دونوں جماعتوں کے گٹھ جوڑ سے ہی ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے
نفاذ کا فیصلہ ہوا اور اب کریڈٹ بھی یہی لوگ لے رہے ہیں۔ کہی یہ 2018 ء کے
الیکشن کے لیے ہمدردی سمیٹنے کا ذریعہ تو نہیں بن رہا؟ کیا ٹیکس کا راستہ
روکھنے کے لیے عوام نے کوئی کردار ادا نہیں کیا؟ اس بات کی کیا گارنٹی ہے
کہ کسٹم ایکٹ کو مستقل طور پر ختم کر دیا گیا؟
عوام کو چاہئے کہ کریڈٹ لینے والے سیاستدانوں سے اس بات کی گارنٹی لے کہ نہ
تو ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کا نفاذ ہوگا اور نہ ہی ٹیکس فری زون ہونے کے
ناطے علاقہ ترقی کے دوڑ میں پیچھے رہے گا۔ سیاحتی علاقہ ہونے کی وجہ سے
علاقے میں ترقیاتی کاموں سے نہ صرف علاقے کو فائدہ ہے بلکہ یہ ملک کے بہتر
مفاد میں ہے۔ |
|