جنگ بندی لائن کی دوسری طرف جوصحافی بھارتی
فوج کے مظالم پر سوال اٹھاتے ہیں ، انہیں بھارت دشمن، غدار اور پاکستان کا
ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔متعصب بھارتی میڈیا نے کشمیر میں خود ساختہ سنسر
شپ لگا دی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 24روز سے کرفیو جاری ہے۔ بھارتی حکومت
نے ایک دن کرفیوہٹانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر عمل نہیں کیا گیا۔ مگر
بھارتی میڈیا نے دنیا کو یہ تاثر دیا کہ حکومت نے کرفیو ختم کر دیا ہے۔مگر
ایسا نہیں ہوا۔ عوام سڑکوں پر نکل کر کرفیو توڑ رہے ہیں۔ وہ بھارت کے خلاف
زبردست مظاہرے کر رہے ہیں۔ جواب میں بھارتی فوج مظاہرین کو منتشر کرنے کے
لئے ہوائی فائرنگ یا آنسو گیس نہیں چلاتی۔ناگزیر حالات کی وجہ سے گولی
چلانا اگر مجبوری ہو تو بھی ٹانگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارتی فوج
کشمیریوں کی چھاتی، گردن، چہرے اور سر کو نشانہ بناکران پر برسٹ فائر کرتی
ہے۔ ہسپتالوں میں ایسے لا تعداد نوجوان لائے گئے ہیں جن کی کھوپڑیاں درجنوں
کی تعداد میں گولیاں لگنے سے ٹوٹ چکی ہیں۔ گولیاں ان کے دماغ میں پیوست
ہوئی ہیں۔ پیلٹ کارتوس کی سیکڑوں گولیوں سے بچوں اور خواتین کے چہرے،
آنکھیں، کھوپڑیاں چھلنی کی گئی ہیں۔ کشمیریوں پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے
ہیں۔ وادی کشمیر کی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ پیر پنچال اور چناب
وادی میں بھی مسلم آبادی پابندیوں کی شکار ہے۔ لیکن متعصب بھارتی میڈیا
حقائق چھپا رہا ہے۔
شاہ فیصل نے بھارتی سول سروسز امتحانات میں پورے بھارت میں ٹاپ کیا۔ انڈین
ایدمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس)میں ٹاپ کرنے کے بعد انہیں کشمیر میں
ڈائریکٹر ایجوکشن تعینات کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے شاہ فیصل کا موازنہ
شہید مجاہد برہان وانی سے کیا اور اسے بھارت میں دہشت گرد کے طور پر پیش
کیا۔یہ عدم اعتماد کی ایک مثال ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں
مزاحمت کی لہر میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ نوجوان بھارتی غلامی سے آزاد
ہونے کے لئے حتمی جنگ شروع کر چکے ہیں۔ وہ اس بار پیچھے ہٹنے پر ہر گز تیار
نہیں۔ ان کی نظریں پاکستان اور آزاد کشمیر پر ہی نہیں بلکہ وہ دنیا میں
موجود انسانیت کے ہمدردوں کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح کشمیرمیں
جنگ آزادی کا ساتھ دیتے ہیں۔ یا وہ بھارت کی معاشی اور فوجی طاقت سے مرعوب
ہو کر دب جائیں گے۔ نوجوان کسی کمپرومائز کو قبول نہیں کرتے۔ وہ ہر روز کی
مار دھاڑ اور قتل عام کے بجائے ایک ہی بار آر یا پار کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
ان کے دباؤ میں تحریکی قیادت بھی متحد ہو چکی ہے۔ آزادی پسندوں کے اتحاد پر
سبھی مطمئن ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر سے بھی اس اتحاد کی حوصلہ افزائی
کی جا رہی ہے۔ جو کہ خوش آئیند ہے۔
جہادی تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل نے حریت کانفرنس کے تمام فیصلوں
پر اپنی رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ بہترین فیصلہ ہے کہ جن علاقوں میں عوامی
مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یا جہاں عوامی مزاحمت تیز ہو رہی ہے۔ وہاں جہادی
کارروائیاں بند ہیں۔ اگر شہری علاقوں میں عسکری کارروائی کی گئی تو بھارت
اسے جواز بنا کر آبادی کو تباہ کر سکتا ہے۔ بھارت موجودہ عوامی لہر کو
عسکری رنگت دے کر قتل عام کی منصوبہ بندی کر رہا ہو گا۔ کیوں کہ اس نے پہلے
بھی یہی حربے آزمائے ۔ اس نے خود مظلوم بن کر دنیا کی ہمدردی حاصل کرنے کی
کوشش کی۔ مجاہدین کے حملوں کے جواز میں نہتے عوام کا قتل عام کیا گیا۔ یا
عوامی مزاحمت کو پاکستان کی سازش قرار دیا گیا۔ اس طرح بھارت ہمیشہ بچتا
رہا۔ مگر آج کشمیری بھارت کو کوئی بہانہ، کوئی موقع ، کوئی جوا ز نہیں دینا
چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ مجایدین نے پہاڑوں اور جنگ بندی لائن کے نزدیک آبادی
سے دور بھارتی فوج پر حملے تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جدو جہد آزادی کی طرف دنیا متوجہ ہو رہی ہے۔ پاکستان دنیا
سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ بھارت پر شہری آبادی کا قتل عام بند کرنے کے
لئے دباؤ ڈالے۔ بھارتی فوج نہتے نوجوانوں کو حراست میں لے کر انہیں فرضی
جھڑپوں میں شہید کر رہی ہے۔ یا انہیں جنگ بندی لکیر پر زیر حراست قتل کیا
جاتا ہے۔ انہیں درانداز قرار دے کر پاکستان پر الزام ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمیں
بھارتی سازشوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کبھی مجاہدین
کے حملوں کی ذمہ داری لاہور اور اسلام آباد سے قبول کرنے سے بھارت کو
پاکستان کے خلاف پروپگنڈہ کرنے کا موقع ملا۔ دہلی نے عوامی جدو جہد کو
پاکستانی سپانسرشپ قرار دیا۔ پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر محاذ کھڑا کیا۔
جس کی وجہ سے اسلام آباد کو دفاعی پوزیشن اختیار کری پڑی۔ پاکستان مسلہ
کشمیر کا اہم فریق ہے۔ وہ پارٹی ہے۔ اس لئے وہ کشمیر سے دست کش نہیں ہو
سکتا ۔ بھارت جواز بنا کر پاکستان کو کشمیر سے دور رکھنے کی آج نہیں ، پہلے
سے کوشش کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستانی حکمرانوں نے کبھی معذرت خواہانہ
رویہ بھی اختیار کیا۔ پاکستان دنیا کو یہ سچ صاف طور پر نہ پہنچا سکا کہ
پاکستان میں 1947سے لاکھوں کشمیری بطور مہاجر موجود ہیں۔ وہ مقبوضہ ریاست
میں اپنے عزیز و اقارب اور کشمیری آبادی کے قتل عام پر انتہائی تشویش میں
مبتلا ہیں۔ وہ اپنے سرزمین پر قتل عام کو کسی طور بھی برداشت نہیں کر سکتے۔
پاکستان ان پر کنٹرول نہیں کر سکتا۔
کشمیری مہاجرین کو آج تک اقوام متحدہ کے کنٹرول میں بھی دینے کی شاید کوئی
سنجیدہ کوشش نہیں ہو ئی۔ یہ بھی نہیں بتا یا گیا کہ پاکستان میں موجود
کشمیری اگر جنگ بندی لائن پار جا کر بھارت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں تو اس
کا وہ حق رکھتے ہیں۔ بھارت کی لاکھوں کی تعداد میں فوج کیا کر رہی ہے۔ وہ
انہیں جنگ بندی لائن پار کرنے سے روکنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اس میں
پاکستان کا کیا قصور ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی فوج ملک میں دہشت گردی کے خلاف
لڑ رہی ہے اور افغانستان سے در اندازی کے خلاف محاذ سنبھالے ہوئے ہے۔بھارت
نے جنگ بندی لائن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس عارضی اور متنازعی لکیر
کو بند کرنے لئے دیوار بندی کی ہے۔ اس پر بارودی سرنگیں نصب کی ہیں۔ جن کی
زد میں آ کر معصو م شہری شہید ہو رہے ہیں۔ مال مویشی ہلاک ہو رہے ہیں۔
بھارتی فوج کشمیری مجاہدین کو خود راہداری فراہم کرتی ہے۔ وہ مجاہدین کو
اسلحہ اور گولہ بارود بھی دیتی ہے۔ بھارتی فوج کے افسر اور اہلکار کرپٹ ہیں۔
جب اعلیٰ افسر اور بھارتی جرنیل بو فورس توپوں اور کرگل جنگ میں ہلاک ہونے
والے فوجیوں کے لئے تابوتوں کی خریداری کے لئے کرپشن اور غبن کر سکتے ہیں،
تو باقی کیا بچ جاتا ہے۔ ایسی فوج کوئی بھی سنگین دھاندلی کر سکتی ہے۔
بھارتی میڈیا اس کرپشن پر پردہ ڈال رہا ہے۔ تا ہم اس میڈیا کا ایک حصہ
تھوڑا سچ دکھاتا ہے۔ مگر اسے بھی پاکستان نواز اور ملک دشمن قرار دے کر اس
کے خلاف عوامی بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل بھارتی ریاستی دہشت گردی ، کرفیو، قتل عام کے 24ویں
روز بھی حالات کشیدہ ہیں۔ شہری پابندیاں عائد ہیں۔ مگر عوام بھارتی کرفیو
کو توڑ کر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رائے شماری یا ریفرنڈم کے لئے ایڈمنسٹریٹر
کی تقرری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس دوران جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی
طرف سے جنگ بندی لائن چلو کال کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے اندر
عوامی مزاحمت تیز ہو رہی ہے ۔ اگر آزاد کشمیر کے عوام بھی جنگ بندی لائن کی
طرف مسلسل پر امن مارچ کریں گے تو اس سے دنیاکی توجہ کشمیر کی طرف مبذول ہو
گی۔ |