تبصرہ نگار ۔ ملک محمد اعظم
اﷲ کے نیک بندوں اور بزرگ ہستیوں کا تذکرہ ہمیشہ سے ایک پسندیدہ موضوع رہا
ہے۔ مشائخ عظام اور علماء کرام کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے اور ان کی
دین اسلام کی اشاعت کے لئے کوششوں کو جاننے سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی
اور دینی جذبو ں کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔یہ دُنیا کبھی بھی اﷲ رب العالمین
اور اس کے احکامات اور تعلیمات کی طرف بلانے والوں سے خالی نہیں رہی ۔یہ
سلسلہ خود خالق کائنات نے انسانوں کی ہدایت اور فلاح دُنیوی اور اُخروی کے
لئے جاری فرمایا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان اور اولین پیغمبر بھی
تھے۔ انسانوں کی رہنمائی اور فلاح کایہ سلسلہ دُنیا کے مختلف خطوں ٗ قوموں
اورملکوں میں ابتدائے آفرینش سے شروع ہو کر اﷲ کے آخری رسول حضرت محمد
مصطفی ﷺ تک چلتا رہا۔حضور نبی کریم ﷺچونکہ خاتم الانبیا ہیں ۔ حضرت محمد
مصطفے ﷺ کے دُنیا سے تشر یف لے جانے کے بعداب یہ فریضہ امت مسلمہ پر آن پڑا
ہے ۔حدیث مبارکہ کے مطابق علماء کرام کو انبیا کرام کا وارث قرار دیا گیا
ہے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ٗتابعین اور تبع تابعین کے
بعد اب امت مسلمہ کے علماء کرام اور مشائخ عظام پر یہ بھاری ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی اشاعت اور فروغ کے لئے اپنا یہ دینی فریضہ ادا
کریں۔ الحمد ﷲ ! اﷲ کے دین کو دوسرے بندگان خدا تک پہنچانے اور انہیں محشر
کے میدان میں نار جہنم سے بچا کر اﷲ کی جنتوں کا وارث بنانے کے لئے دُنیا
بھر میں علماء کرام اور مشائخ عظا م نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ انداز
اور طریقہ کار میں فرق اور اختلاف ہو سکتا ہے ۔مگر مقصد اور مُدعا سب کا
ایک ہی ہے ۔ اﷲ بھلا کرے محترم سعید اختر چوہدری صاحب کا کہ انہوں نیـ:
تذکرہ گوجر مشائخ عظام و علماء کرام : مرتب کر کے ہمیں بہت ساری نیک ہستیوں
سے متعارف کروایا ہے۔سعید اختر چوہدری خود بھی ایک نیک اور متشرع انسان ہیں
۔اکثر اوقات ان سے ملاقا ت ایسے حال میں ہوتی ہے کہ وہ نماز کے لئے مسجد جا
رہے ہوتے ہیں یا پھر واپس آ رہے ہوتے ہیں ۔مشائخ عظام اور علماء کرام سے
خصو صی تعلق اور نسبت رکھتے ہیں ۔ کتاب میں بھی اس کی جھلک کئی مقامات پر
ملتی ہے ۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
کتاب کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے پیش نظر جمو ں و کشمیر کے مردم
خیزخطے کے گوجرمشائخ عظام اور علماء کرام کا تذکرہ مقصودتھا ۔ تاہم سعید
اخترچوہدری کی یہ کاوش لائق تحسین ہے کہ انہوں نے کشمیر کے ساتھ ساتھ
پاکستان کے چاروں صوبوں کے گوجر مشائخ عظام اور علماء کرام کے حالات زندگی
کو بھی کتاب میں شامل کر کے اسے آنے والی نسلوں ٗ طلبا اور محققین کے لئے
حوالے کی ایک معتبر کتاب بنا دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے
۔
سعید اخترچوہدری ولد چوہدری میر باز چیچی موضع کالا بن تحصیل مہنڈر ضلع
پونچھ (مقبوضہ کشمیر) میں 15 مئی 1949 ء کو پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم
گورنمنٹ پرائمری سکول کالا بن سے حاصل کی ۔ مڈل گورنمنٹ سکول چھترال سے پاس
کی جو کہ گھر سے پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔روزانہ پیدل جانا پڑتا تھا۔
میٹرک تک گورنمنٹ ہائی سکول دھرمسال پڑھا۔میٹرک کا امتحان 1965 ء میں جموں
بورڈ سے پاس کیا۔1965 ء کے آخری عشرے میں ہجرت کرکے کوٹلی آزاد کشمیر آئے۔
1966ء میں صدر انجمن گوجراں آزاد کشمیر چوہدر ی احمد دین اپنے ساتھ لاہور
لے گئے۔ وہاں گورنمنٹ انٹر کالج وحدت روڈ (موجودہ سائنس کالج) لاہور میں
داخلہ لیا۔ 1967 ء میں انٹر میڈ یٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن لاہور سے پاس
کیا۔ 1971ء میں دفتر ایڈمنسٹریٹر جموں و کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں سروس شروع
کی۔ یہ محکمہ وزارت امور کشمیر اسلام آباد کے زیر انتظام و انصرام ہے۔ سروس
کے دوران ہی بی اے پھر ایل ایل بی یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے کیا۔1991ء
میں ایڈمنسٹریٹر آفیسر پونچھ کمپلیکس راولپنڈی کے فرائض انجام دیئے ۔بعد
ازاں پرموشن ہونے پر 1998 ء میں ڈپٹی ایڈ منسٹر یٹر جموں و کشمیر سٹیٹ
پراپرٹی ان پاکستان لاہور تعینات ہوئے۔لاہور میں قیام کے دوران سماجی خدمات
میں پیش پیش رہے ۔ دیگر ساتھیوں سے مل کر جموں و کشمیر سوشل ویلفیئر ایسوسی
ایشن کا قیام عمل میں لایا۔ دو سال کے لئے جوائنٹ سیکرٹری پھر خازن کے عہدہ
پر کام کیا ۔علاوہ ازیں لاہور میں قیام کے دوران انجمن گوجراں آل جموں و
کشمیر ضلع لاہور کے نائب صدر رہے۔ چوہدری عبد الباقی نسیم صدر تھے۔
نومبر1995 ء سے 2003 ء تک انجمن گوجراں آل جموں و کشمیر کے مرکزی نائب صدر
اول بھی رہے۔ 19 فروری 2000 ء چوہدری احمد دین صدر انجمن گوجراں آل جموں و
کشمیر کے انتقال کے بعد کچھ عرصہ کے لئے ڈاکٹر ظہور احمد سینئر نائب صدر کو
صدر کے فرائض تفویض کئے گئے۔جب ڈاکٹر ظہور احمد کا انتقال ہو گیا تو برادری
نے کثرت رائے سے سعید اختر چوہدری کو انجمن گوجراں آل جموں و کشمیر کا
عبوری صدر نامزد کیا ۔ محکمہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت راولپنڈی میں
وکالت کر رہے ہیں۔ : تذکرہ گوجر مشائخ عظام و علماء کرام : ان کی پہلی
تصنیف ہے۔
سعید اختر چوہدری اپنی اس تصنیف کے بارے میں میری بات کے عنوان سے لکھتے
ہیں :گوجر قبیلے کے مشائخ عظام کا شمار بھی ان ہی اولیا ء عظام میں ہوتا ہے
۔ جنہوں نے تبلیغ اسلام میں ریاضت ٗ مجاہدہ اور طرز عمل سے عوام کے دلوں پر
اثر پیدا کرکے حق کا بول بالا کیا ۔ موجودہ مادہ پرست دور میں نام نہاد
ترقی کے نام پر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر عریانی اور
فحاشی کے سبب ایمان کا محفوظ رکھنا محا ل ہو گیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو
جدت پسندی اور ترقی کے نام پر گمراہ کن تصورپیش کر کے اپنے اسلاف سے بے خبر
اور دُور کیا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں اولیاء عظام اور علمائے کرام کا حق
بنتا ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں۔راقم نے ایک ادنیٰ
سی کوشش کی ہے۔جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ان مشائخ عظام کے
بارے میں آگاہی پیدا کرنا مطلوب ہے ۔ کوہسا روں میں مقیم گوجر قبیلے کے یہ
مشائخ اُمت کا سرمایہ اور دین کے سپاہی ہیں ۔ہمارے ان اسلاف نے تبلیغ اسلام
اور معاشرے کی اصلاح میں اور قبیح رسومات کو ختم کرنے میں گراں قدر خدمات
سر انجام دی ہیں۔ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر ملک و قوم کے لئے مددگار
ومعاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔نیکی اور بدی میں تمیز کر سکتے ہیں اور حق کی سر
بلندی کے لئے سر گرداں رہ سکتے ہیں ۔گوجر مشائخ عظام پر لکھنے کا دوسرا
مقصد اصلا حی پہلو تھا کہ بہت سارے لکھنے والوں نے گوجر مشائخ کا نسب کسی
دوسری ذات یا نسبت سے ظاہر کرتے رہے ہیں ۔ میں نے حقائق کو درست رکھنے کے
لئے یہ فریضہ سر انجام دیا ہے۔
آگے چل کر لکھتے ہیں :سلسلہ نسب کا محفوظ رکھنا ٗاس کا یاد کرنا ضروریات
زندگی میں سے ایک ضرورت ہے۔ عرب کا بچہ بچہ نہ صرف اپنے نسب نامے یاد رکھتا
تھا بلکہ دوسروں کے نسب نامے بھی بتا سکتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کل کائنات کا
مالک اور قادر مطلق ہے۔ انسان کو اﷲ نے اشرف المخلوق بنایا اور حضرت محمد
مصطفی ﷺ کو رحمت للعالمین اورامام الانبیا ﷺ بنا کر بھیجا۔اﷲ تعالیٰ کا یہ
احسان عظیم ہے کہ ہمیں انسانی شکل میں پیدا فرمایا۔ ہم سب آدم علیہ السلام
کی اولاد ہیں ۔ نسل انسانی کی ابتداء تو ان سے ہوئی ٗ لیکن نسل انسانی کا
ارتقا اور بقا آدم ثانی حضرت نوع علیہ السلام سے ہوئی۔ حقیقت میں انسان ایک
ہی خاندان ہے۔ بس تعارف کے لئے اﷲ نے قبائل میں تقسیم کیا۔ اﷲ تعالیٰ کا
فرمان ہے ۔:ہم نے تم کو شعوب و قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے سے
تعارف حاصل کر سکو اور تم میں سے اﷲ کے نزدیک زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ
پرہیزگار ہے:۔ تعارف باعث اتحاد و اجتماعیت ہوتا ہے۔ اجتماعیت و اتحاد سے
تنظیم وجود میں آتی ہے۔ پس کسی قوم کا باہمی تعارف ٗ ہمدردی اور پاکبازی اس
کی ترقی کے اولین اسباب ہیں ۔ اسلامی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو اقوام
اور قبائل کی تقسیم اظہار فخر اور تحقیرو تذلیل غیر کے لئے نہیں بلکہ یہ
تقسیم قوم سے مراد فخر خودیعنی عجب پسندی اور تحقیر غیر ہوتا ہے۔ یہ کم
ظرفی کے زمرے میں آتا ہے نیز اس قسم کا اظہارفخر شرعا و اخلاقا ناجائز ہے
:۔
معروف ادیب اور کالم نگارصغیر قمر کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں لکھتے
ہیں۔:سعید اختر چوہدری کا تعلق جموں و کشمیر کے اس حصے سے ہے جہاں کے
باشندے نسل در نسل ہجرت کے سفر پر گامزن ہیں ۔سال ہا سال سے اس خطے کے لوگ
دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ہجر اور ہجرت کے قرب کا شکار یہ لوگ اپنے مستقبل کے
لئے جہد مسلسل کر رہے ہیں ۔سعید اختر چوہدری کا خاندان بھی دو حصوں میں بٹا
ہوا ہے۔ وہ 1965 ء میں ہجرت کرکے آزاد کشمیر آگئے ۔یہاں انہوں نے اعلیٰ
تعلیم حاصل کی اور وزارت امور کشمیرحکومت پاکستان کے محکمہ جموں کشمیر سٹیٹ
پراپرٹی میں ملازمت اختیار کر لی۔ان کا باقی خاندان کالا بن مہینڈھر
(مقبوضہ کشمیر)میں رہ گیا۔ وہ مدتوں ایک دوسر ے کو ملنے کو بے قرار رہے۔
اپنے خاندان سے دُوری اور ہجرت کے باوجود انہوں نے محنت اور لگن کے ساتھ
اپنے مستقبل کے لئے جدوجہد کی۔ وہ لوگ جو اپنی دُنیا خود پیدا کرتے ہیں ۔وہ
سعید اختر چوہدری جیسے ہی ہوتے ہیں :۔آگے چل کر لکھتے ہیں : سعید اختر
چوہدری کوئی متعصب یا قبیلہ پرست انسان نہیں ہیں ۔ جو لوگ ان کو قریب سے
جانتے ہیں ٗ وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ ایک سلجھے ہوئے متحرک اور ہر
دم مضطرب رہنے والے انسان ہیں۔وہ اس معاشرے کی بنیادی اقدار کے نہ صرف
علمبردار ہیں بلکہ ان اقدار کی پاسداری کے لئے ہمہ وقت جدوجہد بھی کرتے ہیں
۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے گوجر قبائل کے مشائخ عظام پر کام شروع کیا
تھا۔ چنانچہ وہ بالآ خراس میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی پوری کتاب اگرچہ ایک
قبیلے کے اصحاب جنوں کا تذکرہ ہے ٗ لیکن وہ کسی طور پر اعتدال سے دُور نظر
نہیں آتے:۔خوبصورت سرورق اور 456 صفحات پر مشتمل اس تحقیقی اور منفرد نوعیت
کی مجلدکتاب کی قیمت 450 روپے ہے ۔ مصنف سے موبا ئل نمبر 03334241125 پر
رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔ |