میں ’م‘ ہوں
(Ahmed Nisar Syed, India)
حال میں میں نے کئی ایسے بورڈس دیکھے جس پر
’میم بوائز‘، ’میم برادرس‘ لکھا ہوا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ مسلم
نوجوانوں کے ینگ سرکلز ہیں۔ خود کو اس گروہ جوڑ لینا باعثِ فخر بھی سمجھتے
دیکھا۔ پھر چند دنوں بعد ایک اور ایسی ہی بات سے دوچار ہوا، اب وہ بورڈ
نہیں تھا بلکہ نعرہ تھا’’جئے بھیم ۔ جئے میم‘‘۔ اس نعرے سے یقین ہوگیا کہ
لفظِ میم کن معنوں میں مستعمل ہے اور اشارہ کس طرف ہے۔ اس نعرہ کا خلاصہ تو
آپ خود کرلیجے، میں یہاں میم کی یعنی حرف ’م‘ کی کہانی سناتا ہوں۔
کچھ پرانی کتابوں کے پرانے اوراق بڑی احتیات سے پلٹے، حرف ’م‘ کے صفحہ پر
رکا اور غور سے ’م‘ کی طرف دیکھا۔ حسبِ عادت اس حرف سے گفتگو چھیڑدی۔ اب ان
سے کس رشتہ کو جوڑتے ہوئے بات کروں۔ سوچا چلو ’ مامو جان‘ پکار لیتا ہوں،
تاکہ حروف سے نئے رشتے جوڑ جوڑ کر ایک نیا لسانی گفت و شنید والا ماحول
تیار کرسکوں۔ اور ان حرفوں کو سلام کروں تو لوگ اردو کو مسلمانوں سے جوڑ
دیتے ہیں۔ نمشکار کروں تو پڑھنے اور سننے والے کم ہوجاتے ہیں۔ چلو ایک
روایت برقرار رکھوں جو دو چار صدیوں سے چلی آرہی ہے، وہ ہے آداب عرض کرنا۔
اب یہ آداب عرض کرنا بھی کبھی کبھی دشوار کن ہوجاتا ہے۔ کچھ گروہ ایسے بھی
ہیں جو سلام ہی کی سخت تاکید کرتے ہیں اور آداب کو سیکولر مانتے ہیں اور
سیکولرزم ان کے ہاں عیب سے کچھ کم نہیں۔ لیکن اسی سیکولرزم کی طرز کو آگے
بڑھاتے ہوئے اپنے میم ماموں جان سے میں نے اپنی بات چیت شروع کی۔
میں : آداب عرض ہے ’م‘ ماموں جان۔
’م‘ ماموں جان : آداب عرض ہے، کسی نے ماموں جان پکارا بڑا لطف آیا، اچھا
کیا ’انکل ٹنکل کرکے نہیں پکارا۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔
میں : شکریہ ماموں جان۔ بس آپ کے پاس آؤں آپ سے کچھ باتیں کروں، آپ کے بارے
میں جانوں، یہ جستجو لے کے آیا ہوں۔ اور فرمائیں۔۔۔
’م‘ ماموں جان : بہت خوب۔ پوچھو، کیا جانکاری چاہئے تھی تمہیں۔
میں : ماموں جان، ذرا آپ یہ بتاتے چلیں کہ آپ کون ہیں، حرف کے اعتبار سے آپ
کی کیا حیثیت ہے وغیرہ۔
’م‘ ماموں جان : ٹھیک ہے، تو سنو۔
٭ میں م ہوں
٭ میرا جنس مذکر ہے
٭ میرا تلفظ ’میم‘ ہے۔
٭ اردو کا اکتیسواں، فارسی کا اٹھائیسواں عربی کا پچیسواں حرف اور دیوناگری
رسم الخط کا بیسواں وینجن اور پانچواں حرف شفتی یا اوشتی اکشر ہوں۔
میں : ابجد میں آپ کے لیے کتنے عدد مقرر کیے گئے ہیں؟
’م‘ ماموں جان : ابجد میں میرے کے چالیس عدد مقرد کیے گئے ہیں۔
میں : جنتریوں میں آپ کی کیا علامت ہے؟
’م‘ ماموں جان : جنتریوں میں اتوار کے روز کی علامت ہے۔
٭ مغلوں کے زمانے میں شاہی جاگیر و معافی کے حکم کے آخیرمیں دیوان حرف میم
بطور دستخط کے لکھا کرتا تھا۔
٭ عربی میں ماہ محرم کا اختصار ہے۔
٭ عین کے بعد علیہ السلام کا مخفف ہے۔
٭ جب کسی حرف کے شرعو میں بالفتح آتا ہے ۔
٭ جب کسی حرف کے شروع میں بالفتح آتا ہے تو وہاں ظرف مکان یا مفعول کے معنی
دیتا ہے۔ جیسے مجلس ۔ مسجد۔ مظلوم۔ منصور۔
٭ اسم کے شروع میں بالضّم فاعلیت کا کام دیتا ہے۔جیسے محافظ۔ معاون۔
٭ فارسی میں دہن معشوق۔
٭ علامتی نہی جیسے مُکن۔ مبادا۔
میں : کچھ اور معلومات فراہم کیجئے۔
’م‘ ماموں جان : یہ بھی سنتے چلو۔
٭ جب اس کے ماقبل پیش ہو تو اعداد میں فاعلیت کے واستے آتا ہے۔جیسے یکم۔
دوم۔
٭ علامت تانیث ہے جیسے بیگم۔ خانم۔
٭ برائے نسبت جیسے نیلم۔
٭ حروف ذیل سے اپنے اپنے موقع پر بدل جاتا ہے۔ ب پ ٹ ج غ گ ل ن و ہ ے۔
میں : تصوف میں آپ کو کس طرح تصور کیا جاتا ہے؟
’م‘ ماموں جان : تصوف میں فقرہ ’’میم کا پردہ‘‘ بھی عام ہے۔ احد اور احمد
میں حرف م کا فرق ہے، اسی کو میم کا پردہ بھی تصور کرلیتے ہیں۔ اس کی وضاحت
نہ قران سے ہوتی نہ کسی حدیث و دلیل سے۔ کہیں اس کو محض ایک تصور بھی قراد
دیا گیا ہے۔ حقیقت واﷲ اعلم بی الثواب۔
میں : لوگ، خاص طور پر مسلمان حرفِ میم کو لفظِ مسلمان کا مخفف سمجھتے ہیں،
اس کی کیا حیثیت ہے؟
’م‘ ماموں جان : ایسا ہے کہ لفظ میم کو لفظ مسلمان کا مخفف بھی تصور کرتے
ہیں جس کی قواعد کے اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں۔ سماج میں ایک نئے تصور کی
لہر کو قواعد یا صرف سے جوڑ دینا شاید درست نہیں ہوگا۔ آخر میں میرا بھی تم
سے ایک سوال ہے، دفعتاً یہ ہم بے چارے حروف پر اتنی شفقت اور مہربانی کیسی؟
میں : (مسکراکر) زبان کے ورثہ کو سنبھالے رکھنے کے لیے کئی احباب کوشاں
ہیں، اُن میں میں بھی ایک ہوں۔ صرف یہ امید کہ میری اس کوشش سے زبان اور
زباندانی اردووالوں تک پہنچے۔
’م‘ ماموں جان : چلو اگر ایسا ہے تو اچھاہی ہورہا ہے۔ ہماری جانب سے اردو
والوں کو آداب کہنا اور خدا حافظ اور اﷲ حافظ دونوں کہنا، کہیں ایسا نہ ہوں
کہ مجھے بھی گروہوں میں بانٹنا شروع کردیں۔
میں : بہت خوب ماموں جان۔۔۔ بہت بہت شکریہ آپ کا۔ پھر ملیں گے اگر خدا
لائے۔ خدا حافظ۔
|
|