مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
مسئلہ کشمیر کا حل کب اور کیسے ہو گا یہ واضح نہیں ہے اور نہ ہی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے ، کشمیری عوام رائے شماری چاہتے ہیں لیکن بھارت اس کیلئے تیار نہیں ہے۔مقبوضہ کشمیر میں 90 فیصد سے زیادہ لوگ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ |
|
کہنے کو تو بھارت دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت اور سیکولر ریاست ہے، لیکن یہ ہی جمہوری اور سیکولر ریاست انسانی
حقوق کی پامالی میں سب سے آگے ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی پامالی صرف مقبوضہ
کشمیر میں ہی نہیں کررہا بلکہ پورا بھارت مذہبی، لسانی اور معاشرتی تعصبات
اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ مسئلہ کشمیر کو بھارتی عوام اپنے لئے ایک
عذاب سے کم نہیں سمجھتے، جبکہ بھارتی سرکار کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘
کہتےہوئے نہیں تھکتی۔بھارتی عوام کھلے بندوں مسئلہ کشمیر کوبھارتی عوام کے
مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ عام طور سے یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت
سے آزادی کی تحریک صرف کشمیر میں چل رہی ہے لیکن یہ خیال درست نہیں، کشمیر
کے علاوہ تامل ناؤ، آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پور، مشرقی پنجاب (خالصتان)،
شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں،
لیکن بھارت عالمی طاقتوں کی پشت پناہی، کالے قوانین اور قوت کے بے جا
استعمال کی وجہ سے علیحدگی کی ان تحریکوں کو دبائے رکھنے میں اب تک کامیاب
رہا ہے، مگرسوال یہ ہے کہ وہ ایسا کب تک کرسکے گا؟ آزادی کی تحریکوں میں
وقت لگتا ہے لیکن ایک دن آزادی کی تحریک کامیاب ہوتی ہے، انگریزوں سے
آزادی حاصل کرنے میں نوئے سال لگے تھے، لیکن شاید بھارتی رہنماوں کو یہ
بات یاد نہیں رہی ہے، دوسرئے بھارتی قیادت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ
کشمیر کی آزادی کے بعد بھارت کا متحد رہنا مشکل ہوگا اور بھارت کی کم از
کم دس سے بارہ ریاستیں بھارت سے فوراً علیدہ ہوجاینگیں۔
پندرہ اگست 1942 کو برطانوی حکمرانوں نے آرمڈ فورسز (اسپیشل پاورس) ایکٹ (AFSPA)
کے نام سے ایک قانون متعارف کرایا گیا جس کا مقصد فوج کو خصوصی اختیارات دے
کر بھارت کی آزادی کو دبانا تھا۔آزادی کے بعد 11 ستمبر 1958 کو بھارت میں
اسی کالےقانون کو دوبارہ متعارف کرایا گیا جس کا مقصد فوج کو خصوصی
اختیارات دے کر ملک بھر میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنا تھا۔ اس
قانون کے تحت ایک عام سپاہی کو بھی یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ کسی بھی شخص
کو غداری کے زمرے میں لاکر جیل بھجواسکتا تھا اور سر عام قتل بھی کرسکتا
تھا۔ اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فوج نے علیحدگی پسندوں کے خون
سے خوب ہولی کھیلی، اس قانون کا اطلاق سب سے پہلے منی پورہ میں کیا گیا جو
بھارتی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہا۔ 5 جولائی 1990 کو اس کالے قانون آرمڈ
فورسز (اسپیشل پاورس) ایکٹ کو کشمیر میں نافذکیا گیا، بعد ازاں اسے پورے
بھارت میں نافذ کردیاگیا، چنانچہ بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی کوئی بھی
تحریک سر اٹھاتی ہے تو بھارتی فوج تمام جائز و ناجائز ذرائع اور ظلم و جبر
کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اسے کچل دیتی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو قتل کیا
جاتا ہے، ان کی جائیداد و املاک نذر آتش کردی جاتی ہے، نوجوانوں کو گرفتار
کرکے بغیر مقدمہ چلائے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیاجاتا ہے جہاں سے
اکثر کبھی واپس نہیں آتے۔ اس قسم کے واقعات سب سے زیادہ مقبوضہ کشمیر میں
دیکھنے کو ملتے ہیں۔
حالیہ سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس (3 اور 4 اگست) کے ایجنڈے میں
دہشت گردی، سمندری جرائم، منشیات، سائبر کرائمز، کرپشن اور عورتوں و بچوں
کی اسمگلنگ جیسے مسائل شامل تھے اور کانفرنس سے یہ امید کی جارہی تھی کہ
کانفرنس ان نہایت اہم موضوعات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرئے گئی، لیکن
بھارتی ایجنڈا اس کے بلکل برخلاف تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی
نئی لہر سے پوری بھارتی قیادت پریشان ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر
داخلہ خود آئے اور پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ
کر کے چلے گئے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے پاکستان پر بہتان تراشی کی اور کابل
اور ڈھاکہ کے بم دھماکوں کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا، پاکستانی
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جو کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے کچھ دیر
کیلئے ڈائس سے نیچے اتر کر اپنی نشست پر آگئے اور جواب کا حق استعمال کرتے
ہوئے بھارتی وزیرداخلہ کو یاد دلایا کہ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں
واضح فرق ہوتاہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کے ایما پر افغانستان اور بنگلہ دیش کے
نمائندوں نے بھی پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی، لیکن پاکستانی وزیر داخلہ
کا کرارا جواب سن کر راج ناتھ سنگھ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر واپس نئی دہلی
چلے گئے۔
بھارت جو اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین کہتا ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں
پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی فوج کی نہتے کشمیریوں کے خلاف ظلم و ستم کی کارروائیاں جاری ہیں،
بھارت مخالف مظاہرے روکنے کیلئے وادی میں آج بھی کرفیو نافذ ہے۔8 جولائی
سے 6 اگست تک 65 سے زائد کشمیری شہید کر دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ روز مظاہروں
میں شریک 500 افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ بھارتی فوج کی فائرنگ سے 100 سے
زائد کشمیری زخمی ہوگئے ۔ کاروبار اور تعلیمی ادارے بند ،سڑکیں سنسان ہیں۔
موبائل انٹر نیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔ سارک کانفرنس میں بھارتی وزیر
داخلہ کا غیر سنجیدہ رویہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ بھارت خطے میں امن
قائم کرنے اور پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے
کہ ہماری سفارتی کوششیں اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتیں۔ کشمیر کے
سلسلے میں سابق بھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہرو یا موجودہ وزیراعظم نریندر
مودی کی سوچ ایک ہی ہے، اس میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
مسئلہ کشمیر کا حل کب اور کیسے ہو گا یہ واضح نہیں ہے اور نہ ہی اس کا جواب
دیا جا سکتا ہے ، کشمیری عوام رائے شماری چاہتے ہیں لیکن بھارت اس کیلئے
تیار نہیں ہے۔مقبوضہ کشمیر میں 90 فیصد سے زیادہ لوگ بھارت سے آزادی چاہتے
ہیں۔ مسئلہ کشمیر پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے، عالمی برادری کا ہمارا
ساتھ نہ دینے کی وجہ سے بھارت بھی شیر ہو چکا ہے۔ ہمارا موقف بالکل ٹھیک ہے
لیکن بھارت کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ حمایت ملی ہوئی ہے اور وہ کھلم
کھلا ہمارے موقف کو چیلنج بھی کرنے لگا ہے، اب وہ مقبوضہ کشمیر کے بجائے آ
زاد کشمیر کی بات کرنے لگا ہے۔ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے
ذریعے ہی ممکن ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان کو اپنے موقف پر قائم رہنا ہوگا
۔ پاکستان کو ہم خیال ممالک کو ساتھ ملا کر اور اقوام متحدہ کے ذریعے بھارت
پر دباوُ ڈالنا ہو گا، تاکہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائے اور مسئلہ
کشمیر کے حل پر آ مادہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اپنی سفارتکاری
کوتیز کرنا ہوگا اور دنیا کو بتانا ہو گا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کس طرح
سے انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ |
|