موج خوں سر سے گزر جانے سے پہلے

کیا یوم آزادی عافیہ کی رہائی کا پیغام لائے گا
وہ امریکہ کے باطل نظام کے لئے خطرہ ہے۔ وہ مظلومیت کی تصویر،وہ جبر، ظلم،اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کی ایک علامت ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر عافیہ ہے۔ جسے اس ملک کے بردہ فروش حکمرانوں نے ڈالرز کے عوض بیچ دیا۔ ایک ڈاکٹر عافیہ پر کیا موقوف ہے، دہشت گردی کے نام پر کتنے نوجوان، کتنے بچے، عورتیں، بہن بیٹیاں اور مائیں غائب کردی گئی ہیں،انسانی حقوق کی حفاظت کا نعرہ بلند کرنے والی امریکی حکومت نے اس دور میں جس طرح انسانی حقوق کو پائمال کیا، انھیں پیروں تلے روندا، اور عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کی جس طرح دھجیاں بکھیری ہیں، وہ ساری دنیا مہر بلب دیکھ رہی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ امریکی نظام کے خلاف تھی، ہر چند کہ اس نے کبھی اس نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ نہیں اختیار کیا۔ لیکن وہ اسلام کی حقانیت کی پرزور مبلغ رہی، وہ حافظہ قرآن ہے، قرآن اس کے سینے میں دفن ہے۔ ڈاکٹر عافیہ جسے قیدی نمبر 650کے نام سے پکار ا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ بگرام جیل میں ان کے چیخنے کی آوازیں دور دور تک آتی تھیں جہاں ان پر جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ یہ برطانوی صحافی ایوان ریڈلی تھی۔ جس نے ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے دنیا کو بتایا کہ عافیہ صدیقی کو کس طرح مردوں کے بیت الخلاء استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا جہاں پردے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ آج بھی ہیومن رائٹس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی شہادتیں موجود ہیں کہ عافیہ پر انتہا درجہ کا تشدد کیا جاتا رہا ہے۔ آج عافیہ کی ناک ٹوٹی ہوئی ہے، دانت ٹوٹ چکے ہیں، دل سے ایک انچ نیچے اسے گولی ماری گئی ۔لیکن وہ آج بھی زندہ ہے۔ یو آن ریڈ لی کہتی ہے کہ، ڈاکٹر عافیہ پر لگائے گئے امریکی الزامات دنیا کی کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں ہوسکتے ۔اور یہ سب جھوٹ سے گھڑے ہوئے ہیں، ۔گوانتاناموبے سے رہا ہونے والے معظم بیگ نے اپنی کتاب میں جو سنسنی خیز انکشاف کیے ہیں۔ وہ رونگھٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے مطابق عافیہ صدیقی شاید جسمانی و جنسی تشدد برداشت کرتے کرتے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہیں۔ لیکن امریکہ اب بھی عافیہ کو قید کئے ہوئے ہے۔ وہ دراصل مسلمان نوجوانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ عافیہ کی طرح امریکہ کسی بھی مسلمان نوجوان کو عبرت کی تصویر بنا سکتا ہے۔ عافیہ صدیقی فروری 2003ء کو پاکستان آئیں تھیں۔ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ انھوں نے کبھی امریکی شہریت کے لئے درخواست نہیں دی۔ انھوں نے امریکہ میں میا چوسٹس یونی ورسٹی ہوسٹن سے نیورلوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ 30مارچ 2003ء کو وہ اپنے تین بچوں جن کی عمریں اس وقت 6ماہ4سال اور 9سال کے درمیان ہوگی کراچی سے اسلام آباد جانے کے لیے یلو کیب میں روانہ ہوئیں مگر اس کے بعد ان کا کہیں پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئیں اور ان کے معصوم معصوم بچے کس کی تحویل میں ہیں۔ ان کی والدہ اور گھر والوں کو دھمکی دی گئی کہ وہ اس کا تذکرہ نہ کریں۔ یہاں تک کہ ۷۰۰۲ میں برطانوی صحافی نے یہ خبر بریک کی۔ یہ ایک آمر کے زوال کے دن تھے۔ اور پھر بردہ فروش ٹولے کے رخصت ہونے کے بعد امریکی عدالت نے ایک ڈھونگ رچا ۔امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ پر مقدمے کا کوئی قانونی جواز نہ امریکہ کے قانون میں ہے نہ بین الاقوامی قانون میں ہے۔ وہ ظلم نا انصافی اور حکمرانوں کی بے حسی کا شکار ہیں، ہیومین نیٹ ورک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے ہر سطح پر کوشش کی عدالتوں، مظاہروں، پریس کانفرنس، ریلی، مزاکرے،یاداشتیں، اور اس سب کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں ڈاکٹر عافیہ کو ایک مظلوم عورت کے طور پر جانا جاتا ہے، اب اس مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے، ہیومین رائٹ نیٹ ورک نے عافیہ رہائی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس کی جانب سے یکم اگست اتوار کو سفاری پارک سے نیپا تک ایک فیملی واک کا اہتمام کیا گیا ہے۔ گلشن اقبال میں اس ریلی کا مقصد بھی اس خاندان سے اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ جو گلشن میں رہائش پذیر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کوشش کرنا ہماری ملی اور قومی ذمہ داری ہے، مفتی رفیع عثمانی مفتی اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ عافیہ ہماری معصوم بیٹی ہے۔ جو بے ضمیر پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے امریکہ کے ظلم کا شکار ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عافیہ کو فوری واپس لائے۔ عوامی جمہوری حکومت کے دور میں عافیہ کے دو بچے واپس آچکے ہیں۔ اگر اس وقت عافیہ کی رہائی کے لئے حکومت سنجیدہ کوشش کرے تو یہ اس کی نیک نامی میں اضافہ کرسکتی ہے۔ نعیم الدین نعیم نے عافیہ کے بارے میں اپنی نظموں کا مجموعہ شائع کیا ہے اور ہیومین رائٹ نیٹ ورک نے اے غیرت مسلم جاگ کے نام سے مظلوم عافیہ کے لئے ترانے کی سی ڈی شائع کی ہے۔ جسے خالد جمال نے بڑی محنت سے پروڈیوس کیا ہے۔نعیم احمد نعیم کے اشعار ہیں
مسندوں پر غلام بیٹھے ہیں۔ راستوں پر عوام بیٹھے ہیں
ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے مظلوم۔ منبروں پر امام بیٹھے ہیں
طلم کی انتہا ہے ، لب بستہ۔سر جھکائے تمام بیٹھے ہیں
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389420 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More