تحریک احتساب اور کرپشن
(abdul razzaq choudhri, lahore)
بالآخر تحریک احتساب کا سفر پشاور سے شروع
ہو گیا ۔سربراہ تحریک انصاف تحریک احتساب کے دلہا بن کر پوری آب و تاب سے
جلوہ افروز ہو گئے اور پانامہ لیکس کے انکشافات کو بنیاد بنا کر حکمرانوں
کو اک مرتبہ پھر للکارنے لگے ۔عمران خان کا جلسہ ہو ،ریلی ہو یا پھر احتجاج
ہو اک عجب اور انوکھے انداز کی عکاسی کرتا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس مشق
کے اثرات کی نوعیت کیا ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جمود کا شکار ہماری
قوم کو چند دن جھومنے کا موقع میسر آ جاتا ہے ۔عمران خان جن کی ایمانداری
اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تو سبھی اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کے انداز سیاست
پر بعض لوگ بڑی شدت سے اعتراض کرتے ہیں ۔ بالخصوص ان کے لب و لہجہ کو ہدف
تنقید بنایا جاتا ہے کہ ان کا اپنے مخالفین کو للکارتے وقت لب و لہجہ قابل
ستائش نہیں رہتا اور اس میں کافی حد تک تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔
کہتے ہیں سچ بد تمیزی سے ہی بولا جاتا ہے ۔ سچ کو تہذیب کی پوشاک پہنانا
کسی عام انسان کا کام نہیں ۔ یہ کام کوئی خاص شخص ہی انجام دے سکتا ہے اسی
لیے ہمیشہ لکھتا ہوں کہ خان صاحب اپنے لب و لہجہ کو قابو میں رکھتے تو ان
کا مقابلہ ہی کسی سے نہ ہوتا ۔ میں عام انسان ہوں اور میرا عام لوگوں میں
ہی اٹھنا بیٹھنا ہے لوگ خان صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ انکشافات کی
پٹاری کھولتے وقت جذبات سنبھال لیا کریں تو یہ عمل ان کے مقصد کی راہ میں
بکھرے کانٹوں کو چن سکتا ہے ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی تمام
باتیں سچ ہونے کے باوجود عوام میں اپنا حقیقی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہتی
ہیں ۔ وجہ یہ ہے خان صاحب کہ آپ ان لوگوں کو جگانے نکلے ہیں جو پہلے ہی
جاگے ہوے ہیں ۔ قوم کا ہر فرد اس بات سے آگاہ ہے کہ کون لٹیرا ہے اور کون
کتنا محب وطن ہے ۔ خان صاحب آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نواز
فیملی کا پیسہ بیرون ملک ہے اور ان کی آف شور کمپنیاں بھی موجود ہیں ۔ حضور
یہ قوم سب جانتی ہے اور انہیں ایسے ہی قبول کر چکی ہے ۔ خان صاحب سوئے ہوے
کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جاگے ہوے کو کون جگا سکتا ہے ۔ آپ ایسی ہی مشق
کرنے نکلے ہیں ۔ شوق پورا کر لیجیے ۔ نتیجہ وہی جو پہلے برآمد ہوتا رہا ہے
۔ جماعت اسلامی نے بھی ہمیشہ قوم کو جگانے کی کوشش کی ۔ زمانہ طالب علمی سے
ان کی تحریکوں کو دیکھتا آیا ہوں اور ان کی جانب سے ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے
مگر قوم تو جاگی ہوئی ہے اس لیے ان کی بھی مشق بے کار رہتی ہے ۔ یہ کرپشن
کے جن کے ہاتھ پر بیعت کر چکی ہے ۔ اس کے پورے وجود میں کرپشن کے جراثیم
سرایت کر چکے ہیں اور یہ اس صورتحال کی عادی ہو چکی ہے ۔ یہ ستر سال کا جن
ہے جس کا سامنا کرنا بڑا مشکل امر ہے ۔ہماری بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہم سب
جانتے ہیں ۔ کرپشن کو بھی جانتے ہیں کرپٹ کو بھی پہچانتے ہیں ۔ بس ہم تبدیل
نہیں ہونا چاہتے ۔ ہم ذاتی مفادات کے جھولے ہی جھولنا چاہتے ہیں ۔ ہم ایک
دوسرے کا راستہ کاٹنے میں ہی خوش ہیں ہمیں کرپشن سے پیا ر ہے اور کرپٹ ہی
ہمارا آئیڈیل ہے ۔ ہم صرف اس کی عزت کرتے ہیں جس کے پاس پیسہ ہے جس کے پاس
عہدہ ہے اور جس کے پاس ڈنڈا ہے ۔ ہمیں نفرت ہے قابل آدمی سے ، ہم نہ اسے
عزت دیتے ہیں اور نہ ہی ووٹ دیتے ہیں ۔ خان صاحب زور لگا لو ہم نے ایسے ہی
رہنا ہے ۔ آپ اپنا زور بازو آزما لو ہم اپنی روش پہ ڈٹے ہوے ہیں اور ڈٹے
رہیں گے ۔عجب شخص ہو جو بتانا چاہتے ہو اس سے ہم پہلے ہی باخبر ہیں ۔کہا
تھا نا خیبر پختونخواہ کی خبر لو اس کی بے مثال کارکردگی ہی شائد ہمارا ذہن
بدل دیتی لیکن ہماری طرح آپ بھی اپنی دھن کے پکے ہو
دوسری جانب ملکی دگرگوں حالات کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ وطن عزیزمیں کبھی مذہب
اور فرقہ و عقیدہ کی بنیاد پر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے کبھی
جانوروں سے بھی بدتر انسان اغوا برائے تاوان کی صورت ہنستے بستے گھرانوں
میں صف ماتم بچھا دیتے ہیں او ر کبھی ہمارے ہی کچھ ہم وطن بیرونی طاقتوں کا
آلہ کار بن کر شدت اور دہشت کی قیامت برپا کر کے معصوم لوگوں پر ٹوٹ پڑتے
ہیں اور پاک سرزمین خون سے رنگین کر دیتے ہیں ۔ میری دانست میں نام نہاد
ترقی کا نشان ہمارے لیڈرز جوغریبوں اور مفلسوں کی جھوٹی تسلی ،تشفی اور
دلجوئی میں ماہر ہیں عوام ان کا گریبان پکڑے نہ پکڑے خدا کی عدالت میں ان
کی باز پرس ضرور ہو گی ۔ ہمیں لسانی اختلافات کو دریا برد کرنا ہو گ فرقہ
ورانہ دشمنی کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور سیاسی اختلافات کو اخلاقیات کے
دائرہ میں قید کرنا ہو گا ۔ اب بھی حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر
بجلی اور گیس کی قلت کے سلسلہ میں مربوط پالیسی وضع کرے ۔ غریب کی تعلیم تک
رسائی کو ترجیح اول دے ۔ روزگار کے مواقع پیدا کرے ۔ سڑکوں اور پلوں کی
تعمیر سے توجہ ہٹا کر غریبوں کے لیے رہائشی کالونیوں کا جال بچھائے ۔حیرت
تو عوام کے رویہ پر بھی ہوتی ہے ۔ غربت،تنگدستی اور مفلسی جیسی خرافات میں
دھنسے ہوے ہیں اور اپنے حقوق سے بھی قطعی ناآشنا ہیں اور ان کی جانب سے
کبھی کوئی سنجیدہ اور مربوط احتجاج بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ ہماری
عزت،آبرو،وقار اور شان و پہچان پاکستان سے ہے تو پھر کیوں ہم اپنے ملک کے
گل و گلزار کو اپنی ہی آنکھوں کے سامنے اجڑتے دیکھ کر بھی لب نہیں کھولتے ۔
حکمرانوں کو بھی یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ ضرورتوں اور مجبوریوں میں
جکڑے افراد کی رائے حقیقی نہیں ہوتی جبکہ آپ نے ہمیشہ اسی رائے کو اقتدار
تک رسائی کے لیے سیڑھی بنایا
اصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
سچ تو یہ ہے کہ اگر ایک جانب ملکی سیاسی قیادت سیاسی شعور اور عمرانی فراست
سے محروم ہے تو دوسری جانب عوام بھی اپنے پامال شدہ حقوق سے بے پرواہ ہیں ۔عوام
حکمرانوں کو اپنے ووٹ کی پرچی کے ذریعہ سزا دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں
لیکن عمومی طور پر اس حق کو استعمال کرتے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں
۔ قوم کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور دنیا میں جس
قوم نے بھی ترقی کی اس کے ہر فرد نے ملکی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالااور
پھر ان قوموں پر ایسا وقت بھی آیا کہ ان کے ہاتھ سے کشکول ہمیشہ کے لیے
چھوٹ گیا اس بات سے ہمارے حکمرانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیے کہ کشکول دعووں
سے نہیں محنت سے ٹوٹتا ہے ۔ایک بات اور جو غور طلب ہے وہ یہ کہ ہم بحیثیت
قوم کسی قانون اور قاعدے کے پابند نہیں ہیں ۔ سورج کا نکلنا اور غروب ہونا
،چاند کا زمین پر ہر سو روشنی پھیلانا،دن رات کا ظہور،موسموں کی آنکھ مچولی
،سمندر،دریا اور قدرت کا ہر نظارہ اصول اور قاعدے کا پابند ہے اور اگر کوئی
اصول اور قاعدے کا پابندنہیں ہے تو وہ ہم ہیں |
|