بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تحریر: حبیب اﷲ سلفی
پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرارداد پاس کی گئی ہے جس میں گذشتہ ماہ جولائی
کے شروع میں مسجد نبوی کے سکیورٹی ہیڈکوارٹر سمیت سعودی عرب کے تین شہروں
میں کئے گئے دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد پر اظہار
خیال کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کامتفقہ طور پر یہ کہنا تھا کہ مدینہ منورہ
میں دہشت گردی کا واقعہ کا پوری امت پر حملہ ہے۔ اس واقعہ سے سب مسلمانوں
کو دکھ ہوا اور ہم سب اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ یہ قرارداد وفاقی مذہبی
امور سردار محمدیوسف نے پیش کی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر
صدارت ہونے والے اجلاس میں پاس کردہ قرار داد میں کہا گیاہے کہ یہ ایوان
سعودی عرب کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی
برادری پر بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص زور دیتا ہے کہ وہ اسلامی دنیا
اور انسانیت کے دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے اس نازک مرحلہ
پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔قومی اسمبلی کی اس قرارداد کی تحریک
انصاف نے بھی حمایت کی تاہم رکن اسمبلی شیریں مزاری نے جب یہ کہا کہ مقبوضہ
کشمیر میں مظالم کی بھی دوسرے ممالک کو مذمت کرنی چاہیے تو اس پر ماحول تلخ
ہو گیا اور غوث بخش مہر، کیپٹن صفدر و بعض دیگر اراکین نے کہاکہ مدینہ منور
ہ پر حملہ کی مذمت کے مسئلہ کو غیر متنازعہ رکھا جائے۔ اراکین کا یہ بھی
کہنا تھاکہ پاکستان میں پشاور آرمی پبلک اسکول اور دہشت گردی کے دیگر
واقعات پر سعودی عرب نے ہمیشہ شدید مذمت کی اورآگے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا ہے۔
سعودی عرب میں ایک ماہ قبل مسجد نبوی ﷺ کے باہر خودکش حملہ سمیت ایک ہی دن
میں چار دھماکے ہوئے جس میں چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت متعدد افراد شہید
ہوگئے۔پہلا دھماکہ جدہ میں امریکی سفارت خانہ کے قریب ہوا جہاں سکیورٹی
اہلکاروں کے روکنے پر خودکش بمبار نے اپنے آپ کو اڑالیا۔ اسی طرح سعودی عرب
کے مشرقی شہر قطیف کی مسجد ’’فراج العمران’’ کے باہر بھی دو خودکش دھماکے
ہوئے۔ جب یہ دھماکے ہوئے تو اس وقت شوال کا چاند دیکھنے کیلئے لوگوں کی بہت
بڑی تعداد وہاں موجود تھی تاہم تینوں مقامات پر بہترین سکیورٹی انتظامات کی
وجہ سے خودکش حملہ آور بہت بڑی تباہی پھیلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
مسلمانوں کے روحانی مرکز مسجد نبوی ﷺ کے قریب اور دیگر مقامات پر ہونے والے
خود کش حملوں نے پورے عالم اسلام کو سوگوار کر دیا اور پوری مسلم دنیا میں
سخت غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ سفاک دہشت گردوں نے امت مسلمہ کے دل پر خنجر
گھونپنے کی کوشش کی ۔ بیت اﷲ او رمسجد نبوی ﷺ مسلمانوں کے دو حرم ہیں اور
حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس لئے ہم
سمجھتے ہیں کہ یہ حملے صرف سعودی عرب کی سرزمین پر ہی نہیں کئے گئے بلکہ
مسلمانوں کے دل پر وار کیا گیا ۔جو کوئی بھی ان حملوں میں ملوث تھے وہ
انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے سعودی
عرب میں دھماکوں پر شدید ردعمل کا اظہارکیا گیا اور پورے عالم اسلام میں
سوگ کی کیفیت رہی۔مسجد نبوی ﷺ کے قریب دھماکہ کے بعد جب فضا میں دھویں کے
بادل چھا گئے تو یہ وقت بہت حساس تھالیکن سعودی حکام کی جانب سے اس موقع پر
زبردست حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر کہا گیا کہ یہ دھماکے کی
آواز اور دھویں کے بادل سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے حالات کا مقابلہ کرنے
کیلئے کی جانے والی مشق کا حصہ ہے جس پر مسجد نبوی ﷺ میں موجود لاکھوں
افراد پرسکون انداز میں عبادات میں مشغول رہے۔ اس طرح کسی قسم کی افراتفری
کی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی وگرنہ جہاں انسانوں کا اتنا بڑا جم غفیر
موجود ہو وہاں معمولی سی غلطی حالات کی خرابی اور بھگدڑ وغیرہ کا ماحول
پیدا کر سکتی ہے۔یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ سعودی سکیورٹی
فورسز کی جانب سے بہترین انتظامات کی وجہ سے مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ،
جدہ میں امریکی سفارت خانہ اور قطیف کی جامع مسجد سمیت کسی جگہ بھی دہشت
گرداپنے اصل ٹارگٹ تک پہنچنے میں ناکام رہے اور تینوں مقامات پر سیکورٹی
فورسز کے روکے جانے پر خودکش حملہ آوروں نے اپنی جیکٹیں پھاڑ ڈالیں وگرنہ
اگر خدانخواستہ بدبخت دہشت گرد مسجد نبوی ﷺ یا قطیف کی مسجد میں داخل ہونے
میں کامیاب ہو جاتا تو بہت بڑی تباہی پھیل سکتی تھی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ
جب پوری دنیا برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان
کے دکھ درد بانٹنے کی کوششیں کر رہی تھی تو ایسے موقع پر بھی بعض علماء کی
جانب سے فرقہ وارانہ نوعیت کے بیانات دیے گئے ۔ایک عالم دین کی جانب سے کہا
گیا کہ سعودی عرب کے اندرونی بگاڑکی وجہ سے ایسے حملے ہوتے ہیں اس لئے جس
طرح ویٹی کن سٹی کو اوپن کر دیا گیا ہے اسی طرح مقامات مقدسہ کی حفاظت
کیلئے بھی مشترکہ فوج بنائی جانی چاہیے تو کسی نے کہاکہ اگر پاکستان کے درد
کو محسوس کیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ ایسی غیردانشمندانہ اور
مسلم امہ میں اختلافات پیدا کرنے والی باتوں پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
کون نہیں جانتاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ
کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ، پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی اور
اب اس وقت بھی دونوں ملک مل کر 34مسلم ممالک کے اتحاد کی عملی طور پر کمان
کر رہے ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی ﷺ کے قریب دھماکہ کو بنیاد بنا کر مقامات
مقدسہ کی حفاظت میں دوسرے ملکوں کو بھی شریک کرنے کی باتیں کرکے ایک نیا
اختلاف کھڑا کرنے کی کوشش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ایسے ہی ایک مخصوص طبقہ
کی جانب سے حج انتظامات میں بھی دوسرے ممالک کو شریک کرنے کی باتیں کی جاتی
ہیں جنہیں کسی صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی
باتوں سے امت میں انتشار وافتراق پیدا ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اﷲ
تعالیٰ نے سعودی عرب کو حرمین شریفین کی نگہبانی کی سعادت دی ہے تو یہ انہی
کا حق ہے اور پوری مسلم دنیا اس پر مطمئن ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے حجاج
کرام اور عمرہ پر جانے والوں کیلئے ہر سال پہلے سے بڑھ کر انتظام و انصرام
کی ذمہ داریاں سرانجام دی جاتی ہیں۔ بہرحال سعودی عرب میں خودکش حملوں کا
جائزہ لیا جائے تو پچھلے کچھ عرصہ سے مسلسل ایسی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صلیبی و یہودی طویل عرصہ سے کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح
مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کو بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کی
کیفیت سے دوچار کیا جائے۔ قطیف ایسا صوبہ ہے جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں اس
لئے یہاں خاص طور پر سعودی عرب مخالف جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے
تاکہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے اور سعودی حکومت اپنے ہی
ملک میں الجھ کر رہ جائے۔ خاص طور پر یمن میں بغاوت کے بعد یہاں فساد
بھڑکانے کی سازشیں تیز کی گئیں تاہم سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے ملک کے
رہائشیوں کوپرامن رہنے اور اتحاد کی فضا برقرار رکھنے کی ترغیب دی ہے۔قطیف
میں حملوں کے بعد داعش کیخلاف سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر آپریشن شروع
کرکے ایسے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیاجو شدت پسند تنظیم داعش سے مل کر
سکیورٹی فورسز کیخلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔سعودی عرب نے پچھے
ایک سال میں اس سلسلہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب اگر کئی ماہ بعد
دہشت گردوں نے مسجد نبوی ﷺ یا قطیف کی مسجد پر حملوں کی ناکام کوششیں کی
ہیں تو اس پر کسی طورمایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حملے انتہائی قابل نفرت اور
مجرمانہ فعل ہیں ان کا اسلام یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بیت اﷲ اور مسجد
نبوی ﷺ والایہ خطہ پوری مسلم امہ کی محبتوں و عقیدت کا مرکز ہے ‘یہاں فتنہ
وفساد اور قتل و غارت گری کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔پاکستان کی
قومی اسمبلی میں سعودی عرب میں حملوں سے متعلق قرارداد منظور کرنا قابل
تحسین ہے۔ مسلم ملکوں کا داخلی امن و استحکام بہت ضروری ہے۔ضرورت اس امر کی
ہے کہ مسلم حکومتیں، علماء کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین متفقہ طورپر
کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کریں کہ سعودی عرب کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور
قتل و غارت گری پھیلانے کی سازشیں کرنے والوں کے مذموم عزائم ناکام بنائے
جاسکیں۔ حکومت پاکستا ن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں سعودی عرب
کا کھل کر ساتھ دے اور اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل اور ذرائع بروئے کار
لائے جائیں۔ |