یہ دنیا کا شاید واحد خطہ ہے جہاں ایک ماہ
سے مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ وادی کشمیر کی آبادی 2011کی مردم شماری کے مطابق
69لاکھ سے زیادہ ہے۔ وادی کے کل دس اضلاع ہیں۔ ان میں مسلم آؓبادی99فیصد سے
زیادہ ہے۔ شہروں اور دیہات میں سخت کرفیو ہے۔ جبکہ لداخ کے کرگل ضلع میں
بھی عوام اس تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ وادی کے عوام کے ساتھ اظہار یک
جہتی کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ لداخ کا تقریباًڈیڑھ لاکھ آبادی والا لیہ
ضلع بودھ اکثریت ہے۔ جموں کے بھی دس اضلاع ہیں۔ جن کی کل آبادی ساڑھے
53لاکھ ہے۔ اس میں ڈوڈہ، کشتواڑ، راجوری، پونچھ ، رام بن اضلاع میں مسلم
آبادی کی اکثریت ہے۔ یہاں بھی آزادی کی جدو جہد میں عوام وادی کے عوام کا
ساتھ دیتے ہیں۔ تا ہم جموں، ریاسی ، اودھمپور، کٹھوعہ، سانبہ اضلاع میں
ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ ان اضلاع کی آبادی تقریباً30لاکھ ہے۔
70لاکھ آبادی کا ایک ماہ تک محصور رہنا غیر معمولی بات ہے۔ بھارت کی ریاستی
دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر عوام کسی کمپرومائز یا سمجھوتے کے موڈ
میں نہیں۔ نئی نسل ک سوچ میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ تنگ آمد بجنگ آمدکے
مصداق روز روز کے قتل عام، نسل کشی، ماردھاڑ، بیانات، بات چیت،وعدوں، دعوؤں،
دھوکہ دہی، ٹال مٹول سے بہت تنگ آ چکے ہیں۔ اب وہ ’’کرو یا مرو‘‘ پر تیار
ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا وقت ہے۔ وادی میں نیا
انقلاب ہے۔ دیہات میں بھی اس مزاحمت میں تیزی آ رہی ہے۔ نوجوان فورسز کے
کیمپوں کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔ فورسز کی ایک چوکی پر مظاہرین نے حملہ
کیا تو اسے گرانے کے لئے بلڈوزر لایا گیا مگر نوجوانوں نے فورسز کی اس کیمپ
کو بلڈوزر کے بجائے اپنے ہاتھوں سے اس کی اینٹیں ایک ایک کر کے پھینکنے کو
ترجیح دی۔ اور اسے مسمار کر دیا۔ کشمیریوں کا یہ جذبہ ہے۔ یہ نسل 1947
،1971,1990والے تحریکیوں سے بالکل مختلف ہے۔ نوجوان دلائل سے بات کرتے ہیں۔
انہیں کوئی مکارانہ سیاست یا سفارت دھوکہ نہیں دے سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ
انھوں نے مقبوضہ ریاست خاص طور پر وادی کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔
یہ جذبہ گزشہ برس کے سیلاب میں بھی نظر آ رہا تھا جب انھوں نے بھارتی دہشت
گرد فوجیوں کو بھی مرنے سے بچایا اور اپنی جان پر کھیل کر خدنت خلق کے
انوکھے کارنامے انجام دیئے۔ دیہات سے لوگ سو سو کلو میٹر پیدل سفرطے کر کے
شہروں میں پہنچے۔ انھوں نے کھانے پکانے کی اشیاء اپنے کندھوں اور سروں پر
اٹھا رکھی تھیں۔ کیوں کہ اس وقت سرینگر ڈوب چکا تھا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو
چکے تھے۔ لیکن ان نوجوانوں نے حیرت انگیز خدمت انجام دی۔ یہی منظر آج بھی
دیکھا جا تا ہے۔ ہسپتالوں میں ہزاروں زخمی ہیں۔ لیکن خون دینے والوں کی
لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے جن کی دو آنکھیں ضائع ہو
چکی ہیں، انہیں نوجوان اپنی ایک آنکھ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہسپتالوں
کے باہر ان رضاکاروں نے لنگر قائم کر رکھے ہیں۔ ادویات عطیہ کی جا رہی ہیں۔
ایثار و قربانی کا یہ عملی جذبہ بے مثال ہے۔
وادی کے مبصرین کی آراء سے تہ چلتا ہے کہ وہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ آخر یہ
نوجوان کب تک یوں ہڑتالیں، مظاہرے، ریلیاں نکالیں گے۔ وادی کی معیشت پہلے
ہی بھارت نے تباہ کر دی ہے۔ ترقی کے تمام منصوبے ختم کر دیئے گئے ہیں۔
بھارت اب ریگولر فوج کو فنڈز دے رہا ہے۔ جو ’’آپریشن سدبھاؤنا‘‘ اور دیگر
ناموں سے دہلی کی رقوم کو ہڑپ کر رہی ہے۔ اس فوج کا ریکارڈ سیاہ ہے۔ جو فوج
اپنے مردہ فوجیوں کی لاشوں پر کرپشن کرے وہ کشمیریوں کی فلاح و بہبود کا
کیا سوچ سکتی ہے جو اس کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔
کشمیر میں حالات بہت خراب ہو رہے ہیں۔ کشمیرہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی
پالیسی کیا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے لئے
کیا رویہ رکھا ہے۔ پاکستان بھارت کو نتیجہ خیز بات چیت پر کیسے آمادہ کر
سکتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ رواں سال وزیراعظم نریند مودی سارک سربراہ
کانفرنس میں شرکت کے لئے جب اسلام آباد پہنچیں گے تو شاید برف پگلے گی۔ مگر
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی اسلام آباد میں آمد اور ان کے پاکستان
پر الزامات نے اس تاثر کو قدرے مشکوک بنا دیا ہے۔ پاکستان کو ایسی
سفارتکاری اور سیاست اپنانے کی تجویز دی جا رہی ہے جو انتہائی موثر ہو۔ تا
کہ بھارت کو فرار کا موقع نہ مل سکے۔ کشمیر میں جدو جہد زوورں پر ہے۔ پانچ
لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ ایک ماہ سے وہ کرفیو کی زد میں ہیں۔ ان کی
تمام کاروباری سر گرمیاں ختم ہو چکی ہیں۔ ان کی معیشت کو کروڑوں کا نقسان
وہ رہا ہے۔وہ بھوکے ننگے ہیں۔ ان پر اقتصادی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ لیکن وہ
تحریک شدت سے چلا رہے ہیں۔وہ ہر روز شہید ہو رہے ہیں۔وہ اپنے سینے تان کر
گولیاں کھا رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اب بارگیننگ کا وقت
ہے۔ روایتی بیان بازی یا مسلہ کشمیر کو صرف دفتر خارجہ پر چھوڑ دیا گیا تو
نتائج پہلے جیسے ہوں گے۔ جاری۔ |