اے آر قیصر
عابد شب زندہ دار، لیلیٰ لقدر میں حکومت برطانیہ کا اہم اعلان سننے کے لئے
گوش بہ آواز تھے کہ 14اگست 1947ء ٹھیک رات بارہ بجے آل انڈیا ریڈیو پر ایک
باوقار آواز نے تہلکہ مچا دیا کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘۔ اب آپ شکیل احمد
سے اردو میں خبریں سنیئے۔ حکومتِ برطانیہ کے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن
نے اعلان کیا ہے کہ مسلمان قیادت کا مطالبہ پاکستان تسلیم کرلیا گیا ہے اور
آج پاکستان بن گیا ہے۔ اعلان سنتے ہی مسلمان گھروں سے باہر آ گئے اور
فضائیں پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ اور اسلام زندہ باد کے فلک شگاف
نعروں سے گونج اُٹھیں۔ فرزندان توحید پلکوں پر خوشیوں کے موتی لیے شانِ
کریمی کے حضور سجدہ ریز ہو کر رات بھر شکرانے کے نوافل ادا کرتے رہے۔ یہ شب
واقع ہی شبِ قدر تھی۔ اُمنگوں، رحمتوں اور برکتوں والی رات دو قومی نظریہ
پر قائم ہونے والی اسلامی سلطنت مدینہ منورہ کے چودہ سو سال بعد وجود میں
آنے والی مملکت خداداد پاکستان۔
ہندو ورطہ حیرت میں ڈوب کر کہہ رہے تھے کہ ہندوستان ایک روٹی ہے، ہندو مسلم
دو بھائی ہیں۔ اب چاہیے کہ امن و آشتی اور منصفی کے ساتھ تقسیم کرلیں۔
چھینا جھپٹی سے اَن ہتبہ ہوگی۔ مہاتما گاندھی نے ریڈیو پر نشری تقریر میں
کہا کہ جو ہوا سو ہوا۔ میری آشا ہے کہ میں اب اپنا جیون پاکستان میں بیتاؤں۔
اُدھر مہاراجہ کشمیر نے قائد اعظم کے ساتھ STAND STILL کا معاہدہ توڑ کر
اپنی سینا کو پوری ریاست میں تعینات کردیا۔ اس غیر متوقع حماقت کے پیش نظر
قائد اعظم نے فرمایا کہ ریاست جموں و کشمیر کو کسی اصول، کسی قانون اور کسی
استدلال سے پاکستان میں شامل ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔ آبادی کا تناسب،
جغرافیائی تناظر اور تقسیم ہند کے قواعد و ضوابط سب الحاق پاکستان پر دلالت
کرتے ہیں۔ اسپہ پنڈٹ جواہر لال نہرو نے کہا کہ اب تو جس کی لاٹھی، اس کی
بھینس ہوگی۔
پاکستان کے حصہ کی مسلمان رجمنٹ کو ابھی تک عالمی جنگ کے اختتام پر برما
اور آسام میں قصداً روکے رکھا تھا جبکہ بھارت کو فوج کے ساتھ اضافی سامانِ
جنگ، بکتر بند دستے اور ہوئی جہاز تک فراہم کیے جا چکے تھے۔ قائد اعظم نے
ہندو انگریز کی سانجی بدنیتی، فوجی نقل و حرکت اور پاکستان میں شامل
ریاستوں پر پولیس ایکشن کے بھارتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کشمیر کو
بھارتی جارحیت سے بچانے کے لئے پاکستان کی غیر حاضر فوج انگریز کمانڈر
انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ میسر ذرائع کے ساتھ کشمیر پر چڑھائی کر
دے۔ مگر جنرل گریسی نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ کہ جب تک تاج برطانیہ کا
حکم موصول نہیں ہوتا، میں ادب نہیں کروں گا۔ I AM SORRY SIR ۔ اس دو ٹوک
انکار، ہرزہ سرائی اور حکم عدولی نے قائد اعظم کو قطعاً مایوس نہیں کیا۔
عزم و ہمت اور جرأت و استقلال کے پیکر، عظیم قوم کے عظیم قائد نے جذبہ جہاد
سے سرشار خیبر پی کے کے قبائلی مجاہدین کو پکارا۔ مجاہدین نے قائد اعظم کے
اعلانِ جہاد پر لبیک کہتے ہوئے نصرمن اﷲ فتح قریب کا نعرہ لگاتے ہوئے جوق
در جوق لشکر کشی کا آغاز کردیا اور محض ذاتی اسلحہ، ذاتی وسائل اور ذاتی
کمانڈ میں راولپنڈی سے وادی کشمیر تک دو سو پندرہ میل کا دشوار گزار سلسلہ
ہائے کوہ کا مشکل ترین سفر طے کرکے فتح و نصرت کے شادیانے بجاتے ہوئے وادی
کشمیر میں داخل ہو گئے۔ مہاراجہ کشمیر کی فوج کا تقریباً صفایا ہو چکا تھا۔
اس طرح اسلام نگر (سرینگر) کے ایئر پورٹ ’’ایرو ڈرم‘‘ اور شہر سے ملحقہ
دوسہرہ گراؤنڈ پر فیصلہ کن یلغار کے بعد بٹمالو کے میدان میں قبائلی
مجاہدین کے قافلے خیمہ زن ہو چکے تھے۔ ریاست کی تمام سرکاری عمارتوں پر
مہاراج سرکار نے خود پاکستان کا سبز و سفید ہلالی پرچم لہرا دیا تھا اور
ریاست جموں و کشمیر کے آخری مہاراج ہری سنگھ کی راجدھانی جموں میں بھی
مہاراج کے لال پیلے جھنڈوں کی جگہ پاکستان کے سبز پرچموں کا سبز انقلاب بپا
ہو چکا تھا۔ مہاراج نے ریاست کے دارالحکومت جموں پہنچ کر بھارتی نیتاؤں کی
نیتِ بد کو پروان چڑھاتے ہوئے قلعہ سلطان بلہو سے شیخ محمد عبداﷲ کو اکتوبر
کے وسط میں رہا کرکے اسلام نگر کشمیر پہنچا کہ کشمیری گاندھی کے لقب سے
وزیر اعظم بنا دیا۔ شیخ عبداﷲ نے وزارت عظمیٰ ہتھیاتے ہی اپنی پارٹی جموں و
کشمیر نیشنل کانفرنس کے ایک متمد مقبول شیرانی کوموٹرسائیکل پر قبائلی
مجاہدین کے عمائدین کے پاس بھجوا کر کہا کہ مہاراجہ کی بچی کچھی فوج جموں
کی طرف بھاگ رہی ہے اور حکومت کی باگ ڈور بھی مسلمانوں کے ہاتھوں آچکی ہے۔
ایسا نہ ہو کہ بھاگتی ہوئی فوج مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ اس لئے تھوڑا
ٹھہر جائیں۔ ہمارے ساتھ جشن منائیں اور گائے کے گرم گرم پلاؤ سے ہمیں مہمان
نوازی کی سعادت نصیب کریں۔ چرب زبان غداروں کی پُرفریب غداری کے ٹھیک چھ
روز بعد 17نومبر 1947ء بعد از دوپہر بھارت کی فوج ہوائی جہازوں سے ایروڈرم
پر اتر گئی۔ 303رائفلوں، مارٹر گنوں اور بکتر بند دستوں کو لیے۔ مجاہدین نے
مقبول شیرانی کو روک لیا اور موٹرسائیکل سمیت چنار کے درخت کے ساتھ لٹکا کر
فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا اور دفاعی مصلحت کے تحت آبادی سے ہٹ کر
کارگل، ہائی ہامہ، پلوڑاہ، پلگامہ اور کل گام کے پہاڑوں میں مورچہ زن ہو
گئے۔ بھارتی فوج، مہاراج کی بچی ہوئی نفری اور شیخ عبداﷲ کی نیشنل ملیشیا
کے ساتھ گھمسان کارن پڑا مجاہدین نے پہاڑوں کی محفوظ گھاٹیوں سے بارود برسا
کر کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ ہوٹلوں، ہاؤس بوٹوں اور ہسپتالوں میں بے شمار
زخمی زخموں کی تاب نہ لاکر تڑپ رہے تھے اور جو مر جاتا اسے جھیل ڈل میں
بُرد آب کردیا جاتا تھا۔ کسی کو قبر نصیب نہ تھی۔ جو محاذ پر گیا زندہ یا
مردا واپس نہیں آیا۔
بھارت نے امریکہ اور روس کے تعاون سے اقوام متحدہ میں جنگ بندی اور رائے
شماری کے لئے درخواست دائر کردی۔ وزیر خارجہ پاکستان میر ظفر اﷲ خان کے
پانچ پانچ گھنٹے کے دلائل پر کسی نے کان نہ دھرا اور سکیورٹی کونسل نے سیز
فائر اور یو این او نے ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں
استصواب رائے کے لیے ڈاکٹر گراہم کو ناظم رائے شمار مقرر کردیا۔ پاکستان
مجاہدین کو واپس بلانے مجبور ہو گیا۔ مجاہدین کشمیر کے سپہ سالار جنرل طارق،
جنرل خالد اور میجر حسن نے پُرسوز احتجاج، بددلی اور ناراضگی سے دو میل تک
پیچھے آ کر آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان وغیرہ کے ستائیس ہزار مربع میل کے
علاقہ پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرلیا جو بدستور ہے۔ اگر سیز فائر قبول نہ
ہوتا تو آج مسئلہ کشمیر نہ ہوتا۔
پاکستان کو غیر منقسم ہندوستان کے کل سترہ صوبوں میں سے صرف پانچ صوبے،
بنگال، سندھ، پنجاب، سرحد، اور بلوچستان ملے جو قائد اعظم نے قوم کو یہ
باور کروا کر منظور کرلیا کہ ہم ایک حصار حاصل کررہے ہیں تاکہ قلعہ بند ہو
کر منظم ہو جائیں اور پاکستان کی تکمیل کرسکیں۔ پانچوں صوبوں کی ایک
وحدت(ون یونٹ) بن کر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کے دور میں ایک معمولی
طاقت بن چکا تھا مگر مشرقی پاکستان کی بندرگاہ، چٹاکانگ اور مشرقی کی
بندرگاہ کراچی کے درمیان بحیرہ عرب میں 2908ناٹیکل میل کی دوری اور پاکستان
میں شامل 155ریاستوں پر بھارت اپنے گورنر جنرل وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی
شہ پر بھارت کے پولیس ایکشن نے پاکستان کے مشرق اور مغرب کی خشکی کا 2208
کلو میٹر کا راستہ بھی مسدود کردیا تھا۔ اگر غیر جمہوری سربراہ مملکت صدر
یحییٰ خان نہ ہوتا یا وہ سرحدی کانگریسی ٹولہ کے دباؤ میں آ کر پانچ صوبوں
کی وحدت کو غیر منتقی، غیر فطرتی اورغیر انتظامی حکم سے پارہ پارہ نہ کرتا
تو پاکستان میں اسپین کی تاریخ نہ دھرائی جاتی۔ کاٹ ٹیل پارٹیوں کے شیردل
جنرل عبداﷲ خان نیازی سے پلٹن میدان ڈھاکہ میں مسلمانوں کی تاریخ میں حذیمت
کا داغ نہ لگتا۔ افسوس یہ مومن تو کہلاتا تھا مردِ مومن نہیں تھا کربلائی
نہیں تھا ورنہ بھارت کی کٹ پتلی مکتی باہنی کا بنگلہ دیش نہ بنتا۔
آج قائد اعظم ہم میں ہوتے تو جہاد دہشتگردی اور مجاہد دہشت گرد نہ ہوتا۔
قائد اعظم کا کشمیر پر جہاد کا حکم ناطق ہو چکا ہوں اور تکمیل پاکستان تک
جہاد جاری و ساری ہوتا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نہ ہوتے تو کشمیر پر
ایک ہزار سال تک آزادی کی مقدس جنگ جاری رکھنے کا اعلان ہمارا رہنماء نہ
ہوتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان محسن پاکستان نہ ہوتے تو پاکستان ناقابل تسخیر
نہ ہوتا۔ کشمیری مسلمان اپنے دین اپنے اکابرین اور اپنے قائدین کے نقش قدم
پر چلتے ہوئے خون کے دریا سے گزر رہے ہیں کہ پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ
الا اﷲ۔ آزادی ہمارا حق، جہاد ہمارا راستہ ہے اور پاکستان ہماری منزل ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے جیالوں، شمع آزادی کے پروانوں اور اسلام کے متوالوں
کی منزل قریب ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ مستقبل کا جشن آزادی ایک ساتھ منا رہے
ہوں گے۔ ایک ملت واحد، ایک اُ مت رسولؐ اور ایک قومیت پاکستان کے طور پر
انشااﷲ۔
|