مقبوضہ ریاست میں تمام آزادی پسند ہی نہیں
بلکہ بھارت نواز بھی اس نئی اپ رائزنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہاں تک
وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے گڑھ جنوبی کشمیر میں سب سے زیادہ مزاحمت ہو رہی
ہے۔ بلکہ اس کی ابتداء بھی یہاں سے ہوئی ہے۔ لوگ پی ڈی پی، کانگریس اور
نیشنل کانفرنسس سے از خود مستعفی ہونے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ اگر چہ
پاکستان کا میڈیااس بار کچھ قتل عام پر توجہ دے رہا ہے، حکومت بھی کچھ
سرگرمی دکھا ری ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے بیانات، دفتر خارجہ کا موقف،
وزیرداخلہ چوہدری نثار کے سارک وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں ریمارکس، فریڈم
فائٹرس اور دہشت گرد میں فرق کرنے کا مطالبہ، کشمیر بھی بھارتی ریاستی دہشت
گردی کو اجاگر کرنا اپنی جگہ اہم ہے۔
پاکستان کی موجودہ پالیسی سے کشمیریوں کوکیا ملے گا۔ انہیں جذباتی بیانات
دینے سے صرف خوش کیا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔یہ سب روایتی
باتیں ہیں۔تحریک میں آج جو شدت ہے۔ ہم ہر روز شہادتوں کی تعداد کی گنتی کر
رہے ہیں۔یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔کیا اس کا انجام بھی گزشتہ برسوں والی
مزاحمت سے ہو گا۔ بھارت بھی تماشہ دیکھ رہا ہے۔ کشمیریوں کے تھکنے کا
انتظار کیا جا رہا ہے۔ورنہ شہادتوں کی گنتی میں دلچسپی ہے۔یہ ٹھوس اور
مضبوط پالیسی نہیں ہو سکتی۔کشمیر میں روزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں۔ نوجوان
اور بچے اندھے اور معذور ہو رہے ہیں۔ ایک تحریکی نسل کو یوں ضائع ہوتے
دیکھا جا رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کم از کم اسلام آباد میں ہی دنیا کے سفیروں کوفوری بریفنگ
دے سکتے ہیں۔ اگر وہ نہیں تو مشیر خارجہ ، خارجہ سیکریٹری، دفتر خارجہ ایسا
کر سکتا ہے۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی والوں کے وفود دنیا میں روانہ کئے جا
سکتے ہیں۔ وزیراعظم آج سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل رکن ممالک کے
سربراہان مملکت اور حکومت کے پاس جائیں تو کم از کم سلامتی کونسل میں کشمیر
پر بحث کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفیر روزانہ کی
بنیادوں پر میڈیا بریفنگ دیں تو کشمیر دنیا کی نظر میں آسکتا ہے۔ اس عمل سے
بھارت پر دنیا کا کچھ دباؤ ہی سہی ، فائدہ ضرور ہو گا۔
او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس طلب کر کے کشمیر کی تشویشناک
صورتحال سے آگاہ کیا جا نے پر ابھی تک توجہ نہیں دی گئی ہے۔کشمیریوں کے قتل
عام اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے احتجاجاًً
بھارت سے سفارتی تعلقات ختم نہیں تو دہلی سے ہائی کمشنر کو واپس بلانے کا
ایک اعلان ہی کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے کشمیر پر
بحث بھی ابھی تک اس نوعیت پر نہیں کی گئی۔ یہ سب پاکستان کیوں کرے۔ کیا اس
کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں۔ مگر یہ سب انتہائی ضروری ہے۔ اگرآج اسلام
آباد میں کشمیر کو سب پر ترجیح نہیں دی جاتی تو پھر پاکستان مری کو بھارت
کے ساتھ مستقل سرحد بنانے کی تیاری کرے۔ کیوں کہ اس نوعیت کی مزاحمت کی
شاید پھر کبھی توقع نہ کی جائے۔ بھارت کی پارلیمنٹ میں قرارداد کے تحت آزاد
کشمیر کو بھی بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر بھارت جنگ بھی کرتا ہے تو
اس جارحیت کو بھی وہ جواز دے گا کہ مری کوہالہ تک کشمیر اس کا ہے۔ بھارت کو
اس میں تباہ کن شکست ہو گی۔ مگر کرگل جنگ کے دوران کیا ہوا، اسے فراموش
نہیں یا جا سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ اور دیگر طاقتیں بھارت کی ہمنوا بھی نہ
تھیں۔ آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔
آزاد کشمیر میں اس وقت اقتدار کی جنگ اور ایک شرمناک دوڑ لگی ہے۔ ہر کوئی
وزیر مشیر بنناچاہتاہے۔ انہیں کچھ پروا نہیں کہ جن کے نام پر وہ مزے اڑا
رہے ، ان کی حالت آج کیا ہے۔ وہ اپنے شہداء کی لاشیں گن رہے ہیں۔ وہ اندھے
ہونے والوں کی تعداد لکھ رہے ہیں۔ وہ معذوروں اور نیم مردہ بچوں پر ماتم کر
رہے ہیں۔ لیکن ان کی مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بیس کیمپ کی حکومت کے
لئے عوام کو بھی گمراہ کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے تحریک میں ہجرت کی، ان
کے ساتھ سلوک سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے اس قوم کوآر پار میں تقسیم کر
دیا ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ بیس کیمپ کے عوام تحریک کے لئے سب کچھ کرنے کو
تیار ہیں۔ لیکن انہیں زات برادری، علاقہ، فرقہ، پارٹی بازی میں الجھا دیا
گیا ہے۔ یہاں ہر روزکچھ نہیں تو احتجاجی ریلیاں جنگ بندی لائن تک نکالی
جاتیں۔ یہاں بھی کوئی کلینڈر جاری جاتا۔ اسلام آباد میں دنیا کے سفارتخانوں
کے باہر پر امن احتجاج ہوتا۔ لیکن ابھی تک یہاں زبانی یا بیانی ردعمل ہی کو
بہت کچھ سمجھا جاتا ہے۔
سرینگر میں حساس حلقے سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی صورتحال پر صرف سیاست ہو رہی
ہے اور کچھ نہیں۔ کشمیری پاکستان کی موجودہ پالیسی سے مطمئن نہیں۔ یہ
جارحانہ نہیں بلکہ معذرت خواہانہ ہے۔مجبوریوں میں جھکڑی ہوئی ہے۔ پاکستان
کے عوام کو بھی موبالائز نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہاں کی سول سوسائٹی ابھی تک
خاموش ہے۔ بھارت میں عوام کہتے ہیں ، بلاؤ اپنے پاکستان کو۔ بھارت کے عوام
کا بھی تعاون درکار ہے۔ بھارت کا جو میڈیا کشمیر میں قتل عام کو اجاگر کرتا
ہے، اسے پاکستان نواز قراردیا جاتا ہے۔ کشمیر میں نسل کشی کو میڈیا پر لانے
یا حقائق کو اجاگر کرنے کو بھی پاکستان نوازی یا پاکستان کی کسی چال جتلا
کر اس کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے۔ اس لئے سرینگر میں لوگ پاکستان پر تکیہ
کئے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جو درد سرینگر میں اٹھ رہا ہے اس پر اسلام
آباد ، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، گلگت، مظفر آباد، ملتان، لندن، یورپ،
دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری محسوس کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس
درد پر آہ و آزاری صرف سرینگر میں ہی کیوں ہو رہی ہے۔ لوگ سرینگر میں اپنی
لاشیں گنتے ہیں۔ دیگر مقامات پر معمول کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہاں تک کہ
مظفر آباد، میر پور، گلگت میں بھی اقتدار کی رسہ کشی میں لوگ الجھے ہیں۔
اگر سرینگر والے اپنے ہیں،کشمیر شہ رگ ہے، تو یہ تضاد کیوں ہے۔ ہمارا عملی
کردار کیا ہے۔ کم از کم جس کے بس میں جو ہے، وہ وہی کرے تو بھی یک جہتی کا
عملی مظاہرہ ہو گا۔ بھارتی میڈیا انتہائی متعصب ہے۔ مگر پاکستانی میڈیا کو
کیا ہو گیا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک کشمیر میں میڈیا ٹیم بھیجنے، ڈاکٹراور
ادویات روانہ کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں دی ہے۔ بھارت اپنی ریاستی دہشت
گردی اور قتل عام کو چھپانے کے لئے کشمیر میں آزاد میڈیا اور انسانی حقوق
کے عالمی اداروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام آباد حقائق
روزانہ کی بنیادوں پر دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔
|