عرض مرتب
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
(مقدمہ برائے مظفریات جلدِ اوّل)
قلم اور پوروں کا رشتہ نہایت دیرینہ اور پرانا ہے، چرخ ذہن پر چھائے ہوئے
ابر تخیل اور بحر قلب میں اٹھنے والی موجِ فکر پوروں کی حرکت سے بطنِ قلم
میں منتقل ہوتی ہے۔ جہاں الفاظ چشمان کی طرح ڈھلک جاتے ہیں اور سینۂ قرطاس
پر پھیل کر ہمیشہ کے لئے تابندہ نقوش کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
جنہیں نہ مرور زمانہ ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی کاتب کا مرکر فنا ہونا……
اسی مفہوم کو شاعر بیان کرتا ہے
یلوح الخط في القرطاس دھراً
+وکاتبہ رمیم في التراب
> قلم کی نیرنگی اور فسوں طرازی ملاحظہ ہو کہ وہ ہزار سال پہلے کے لکھاری
کے رشحاتِ قلم کو سالوں، صدیوں کے دوش پر اٹھا کر زمانۂ حال میں ہمیں پیش
کرتا ہے، حالانکہ لکھنے والے کا اتہ پتہ معلوم نہیں ہوتا، جب کہ اس کے
احساسات وخیالات، تخیلات وتفکرات اپنے اسی خدوخال کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتے
ہیں۔
قلم کی قدامت وشرافت بھی مسلَّم ہے، قرآن میں خداوند بزرگ و برتر نے اس کی
تقدیس وتبجیل اور مقام و مرتبہ سمجھانے کے لئے اس کے نام کی قسم کھائی ہے
﴿ن، والقلم ومایسطرون﴾․
اس آیت کے ذیل میں علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں روایت ذکر کی ہے:
’’عن ابن عباس، أنّہ کان یحدّث: أن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قال:
إن أوّل شیٔ خلقہ اﷲ- القلم فأمرہ فکتب کل شیٔ‘‘․
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلی چیز جو نیست سے ہست کا جامہ اختیار
کرگئی، وہ قلم ہی ہے۔ قلم کا تقدس صرف اسی کی حد تک محدود نہیں بلکہ صاحب
قلم بھی اسی زمرے میں آتا ہے اس لئے کہ وہ ہی قلم کی جنبش سے لازوال نقوش
کو وجود بخشتا ہے، ’’وما یسطرون‘‘ کی تفسیری تشریحات مندرجہ بالا دعویٰ کو
تقویت دیتی ہیں۔ اسی طرح مکتوب (لکھی گئی چیز) اپنی عظمت اور اہمیت کے
اعتبار سے اول الذکر سے کم نہیں، بعض مفسرین نے ’’ومایسطرون‘‘ کا مصداق
مکتوب کو ٹھہرایا۔
مفسر قرآن امام رازی کا قول ہماری اس بات کی تائید کرتا ہے ’’ویحتمل أن
یکون المراد -ومسطرھم- فیکون القسم واقعا بنفس الکتابۃ‘‘ (تفسیر الإمام
الرازي:۵۹۹/۱۰)․
دنیا میں جب بھی کوئی بڑا انقلاب آیا ہے، چاہے وہ اقتصادی بنیادوں پر ہو یا
سیاسی نظریات کی بنیادوں پر، اس کے پیچھے کچھ قوتیں کارفرما ہوتی ہیں، جن
میں تحریر بنیادی اور اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے تحریر اور کتابت کے
ذریعے مصنفین اپنے فکری رجحانات اور نظریات واحساسات دوسروں کی طرف منتقل
کرتے ہیں۔ اسی کے ذریعے لوگوں کی ذہنی قدریں استوار ہوتی ہیں، یہ کام زبان
سے بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زبان کا اثر وقتی اور عارضی ہوتا ہے جب کہ
تحریر کا اثر اتنا ہی دیرپا ہوتا ہے جتنی کہ خود تحریر ہے……
دین اسلام میں بھی تحریر وکتابت کو نمایاں مقام ومرتبہ حاصل ہے، سورۃ قلم
کی ابتدائی آیات سے اس کی اہمیت معلوم ہوچکی ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کی ایک روایت ہے جس میں علماء کی سیاہی کو خون شہداء کا
معادل ٹھہرایا ہے۔
عن معاذ بن جبل (رضي اﷲ عنہ)، قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم:
یوزن مداد العلماء ودماء الشھداء یوم القیامۃ فلا یفضل أحدھما علی الآخر……
الخ․
عظیم مجاہد عبداﷲ عزام رقمطراز ہیں:
’’التاریخ یسطر سطورہ بمداد العلماء ودماء الشہداء‘‘․
لیکن قلم کی سیاہی کا صحیح استعمال نہ ہوتو اس سے معاشرے کا فساد بھی ظاہر
و باہر ہے، ادیب و لکھاری حضرات کا معاشرے اور سوسائٹی کی اصلاح اور اِفساد
میں بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور قلمکار کی تحریر اس کی ذہنی سطح کی عکاس ہوا
کرتی ہے۔ اور جو نظریہ وفکر وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے اس کو پڑھ کر
عموماً قاری خواہی نہ خواہی اس کو لینے لگتا ہے۔
ابتداء اسلام سے علماء امت نے اسلام کی ترویج واشاعت، عقائد صحیحہ کی
نشرواشاعت اور عوام الناس کے رشد وہدایت میں تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کو
بھی بروئے کار لایا ہے۔ موجودہ حالات میں اس کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے،
اس لئے کہ معاشرے کے فساد اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار بنانے کے
لئے اہل باطل بے شمار ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، فحش لٹریچر کا طوفان روز
بروز بڑھتا اور زور پکڑتا جارہا ہے۔ اس لئے علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ
وہ تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر میں مہارت حاصل کرے، امت مرحومہ کے رشد وہدایت
کا سامان پیدا کریں۔
زیر نظر مضامین اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ استاذ محترم حضرت مولانا ولی خان
المظفر صاحب دامت برکاتہم عربی کے مایہ ناز ادیب ہیں۔ اردو تحریر بھی ان کی
بڑی پرمغز اور شگفتہ ہوتی ہے۔ ان کے مضامین مختلف رسائل اور اخبارات میں
چھپتے رہے، لیکن ان کو جمع کرنے کی کوئی منظم صورت نہ تھی بلکہ زیادہ موزوں
الفاظ میں صاحب مضامین کی اس طرف توجہ نہ تھی۔ اس لئے امتداد زمانہ کے ساتھ
کچھ تو تلف ہوگئے۔ جو بہم پہنچے ان کو قارئین کے استفادے کی خاطر کتابی
صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔ مضامین کی ترتیب تاریخ کے اعتبار سے الأول
فالأول کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ راقم کو اس سے قبل تالیف وترتیب کا کوئی
تجربہ نہیں رہا، بس دل ہی دل میں ایک داعیہ تھا، جسے عملی جامہ پہنانے کی
کوشش کی گئی۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں قارئین کے لئے فائدے اور مؤلف
ومرتب کے لئے نجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین․
ناصر بن ابی سعید صدوي
متخصص فی الأدب العربی
جامعہ فاروقیہ کراچی
|
|