ملکُ الموت دروازہ پر

اس آرٹیکل کو لکھتے وقت میرے اپنے ذہن میں کئی ایسی باتیں آ رہی ہیں کہ شاید مجھ کو بھی آج اُن کو سوچ کر افسوس ہوتا ہے کہ اے کاش اُس وقت میں نے وقت کی قدر کی ہوتی تو شاید آج وقت کا انداز اور طریقہ میرے ساتھ کچھ اور ہوتا،مثال کے طور پر مجھ کہ یاد ہے ہمارے حالات اتنے اچھے نہ تھے جب مجھ کو میری والدہ نے اسکول میں داخل کروایا،وہ بچپن کا شرارتوں کا زمانہ تھا خوب ہم نے شرارت کی وقت کی قدر نہ کی والدہ نے کہا بیٹا پڑھو ہم نے کبھی اُن کی بات نہ مانی کھیل کھیل اور بس کھیل،انجام کیا ہوا جماعت ششم میں سالانہ امتحان ہوئے اور آخر کار فیل ہو گئے بڑا افسوس ہوا دوست آگے چلے گئے میں پیچھے رہ گیا وہ وقت سیکھنے کا پہلا موقع تھا پھر ہم نے محنت شروع کی لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا دنیا میں مست ہوتے چلے گئے یہ بات بھول گئے کہ پیدا کس نے کیا، کس لیے کیا،کیا کیا نعمتیں ادا کیں جوانی کے نشے میں چُور کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ جوان ہڈیاں بوڑھی ہو جائیں گی ،جس طرح ہمارے باپ دادا تھے اب نہیں ہیں اسی طرح ایک دن ہم کو بھی اﷲ کے پاس جانا ہے،کیا کِیا ہم نے زندگی میں اﷲ نے آنکھ جیسی نعمت دی ہم نے فلمیں دیکھیں ،اﷲ نے سننے کے لئے کان دئیے ہم نے گانے سنے،اﷲ نے کھانا دیا ہے بغیر بسمہ اﷲ کے کھایا،نماز کا وقت ہوا ہم پڑے سوتے رہے،رمضان آیا پان اور گٹکے کے اتنے عادی ہو گئے کہ روزہ نہ رکھ سکے اﷲ کے روزے سے بہتر ہم کو پان و گٹکالگا ،ماں باپ بوڑھے ہو گئے تو ہم جوان ہو گئے اب جس ماں نے بولنا سیکھایا اُس سے اُونچی آواز میں بات کرنے لگے جس باپ نے چلنا سیکھایا اُس سے آگے چلنے لگے جس بہن نے اپنے آنچل میں رخصت کیا اپنی بیوی کی خاطر اُس سے لڑنے لگے ،کسی نے مدد کے لئے بلایا تو ہم نے کہا کیا ضرورت ہے دوسروں کے چکروں میں پڑنے کی،بندہ سڑک پر پڑا رہا ہم سیلفیاں بناتے رہے،اپنی دنیا میں مست تھے اﷲ کو کبھی یاد نہیں کیا اور آج میں بستر مرگ پر ہوں افسوس کر رہا ہوں کہ کاش میں نے وقت کی قدر کی ہوتی کاش میں نے اﷲ کو یاد کیا ہوتا آج کوئی نہیں میرا ،ماں باپ مٹی میں مٹی ہو گئے میری اولاد اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی میں تنہا ہوں سوچ رہا ہوں ماں باپ کی محبت ،بہن کا پیار ،رمضان کی برکت،موذن کا ازان دے کر بلانا،اور میں یاد کر رہا ہواکس طرح میری ماں کہتی تھی بیٹا کبھی میرے پاس بیٹھ جایا کر لیکن کیا کریں وقت نہیں ہوتا تھا،باپ انتظار کرتا تھا میرا بیٹا مجھ کو پیسے دے تو میں اپنا ٹوٹا ہوا چشمہ بنوا سکوں ،خاندان میں کوئی جیا یا کوئی مرا میں نے فکر نہیں کی آج سوچتا ہوں کہ کل میں مر گیا تو کون آئے گا میرے جنازے میں ،میں تو آج تک گیا نہیں کسی کے جنازے میں ،دوست احباب سب ساتھ چھوڑ گئے اولاد بھی مجھ سے بے خبر ہو گئی بیوی بھی ساتھ چھوڑ گئی ،جس دنیا کے لئے سب کچھ قربان کردیا اپنا دین اپنا ایمان،ماں باپ بہن بھائی آج وہ دنیا ہنس رہی ہے کہ کیوں کیا ہوا تم کو نہیں بتایا تھا کہ دنیا ایک دھوکا ہے اس کے دھوکے میں نہ آنا آخر کار تم بھی ہمارے دھوکے میں آہی گئے اچھا اب تم یہاں افسوس کرو میں جا رہی ہوں اپنے نئے شکار پر ،جس اﷲ کو کبھی نہیں پکارا وہ اﷲ پکار پکار کر کہہ رہا ہے پریشان نہ ہو جس کا کوئی نہیں ہوتا اُس کا خدا ہوتا ہے،اتنے میں دق الباب ہوا میں نے کہا کون کہا ملک الموت میں نے کہا اے ملک الموت تھوڑا وقت دے میں اپنے گناہوں کی توبہ کروں ،کوئی نیک کام کروں ملک الموت نے کہا تم کو بڑا وقت دیا تھا لیکن تم نے کچھ نہیں کیا اب کچھ دیر کی مہلت میں کیا کر لو گے میری آنکھوں کے آنسو میرے رخسار پر آنے لگے صرف ایک ہی صدا کانوں میں آ رہی تھی ،انا ﷲ و انا الیہ راجعون اور دل کی آخری دھڑکنوں میں ایک ہی صدا تھی ہائے افسوس ہائے افسوس
Shahid Raza
About the Author: Shahid Raza Read More Articles by Shahid Raza: 162 Articles with 256986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.