افغان مہاجرین کی واپسی پاکستا ن کے لیےکیوں ناگزیرہے؟

1979ء میں روس کی درندگی کے بعد افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دینا شروع کی تھی۔پچھلے تیس سالوں سے پاکستان میں تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پناہ گزیں ہیں،نائن الیون کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔ان مہاجرین میں سے کچھ ازخود واپس چلے گئے،جب کہ پندرہ لاکھ کے لگ بھگ رجسٹر مہاجرین اور ان کے ساتھ ایک ملین سے زیادہ غیرقانونی افغانیاب بھی پاکستان میں مقیم ہیں۔پاکستان نے تین دہائیوں سے ان مہاجرین کو تقریبا عام پاکستانیوں کی طرح برابر کے حقوق دیے،یہ لوگ پاکستان میں جہاں چاہے گھوم سکتے ہیں،جہاں چاہے بزنس کرسکتے ہیں،پراپرٹی خرید سکتے ہیں،پاکستان کی نیشلٹی سے دیگر ملکوں کے ویزے لے سکتے ہیں اور تو اور افغان مہاجرین پاکستان کے اہم سرکاری عہدوں پر بھی تعینات رہے ہیں۔اور یہ ساری سہولیات بغیر کسی فیس اور ٹیکس کے افغان مہاجرین کو ملتی رہیں۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے مہاجرین کو فری نیشنلٹی سمیت دیگر سہولیات بغیر کسی فیس کے دی ہوں۔پاکستان کے بعد ترکی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جس نے شام کے 25 لاکھ کے لگ بھگ مہاجرین کو پناہ دی ہے۔

افغان مہاجرین کو پناہ دینا پاکستان کا دینی اور اخلاقی فریضہ تھا،کیوں کہ اسلام کی زبان میں یہ افغان مہاجرین پاکستانی مسلمانوں کے بھائی ہیں۔پاکستان نے یقیناانصار اور مہاجرین کے درمیان "عقد مواخات" کے نام سے جو سنہری معاہد ہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہواتھا اس کا چود سوسالوں بعد عملی مظاہر ہ کرکے دکھایا۔لیکن براہو استعمار کی عالمگیر سازش کا جس نے عالم اسلام جو خلافت عثمانیہ کے تحت یک جاں اور یک قالب تھے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور پھر سرحدوں اور ویزوں کے نام پر دینی بھائیوں کے درمیان قومیت اور عصبیت کا متعصب بیرئیر کھڑا کیا۔قرآن کی زبان میں مسلمان اور کافر دو الگ الگ گروہ ہیں۔جسے دوسری جگہ حزب اللہ اور حزب الشیاطین سے قرآن نے تعبیر کیا ہے۔حزب الشیاطین کی بدمعاشی کا حال یہ ہے کہ عالم اسلام کو پہلے ایک خلافت اور حکومت سے کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کیا اور اب ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کو یکے بعد دیگرے تباہ کر رہاہے۔المیہ یہ ہے کہ پہلے براہ راست یہ شیطانی گروہ مسلمانوں کے ملکوں میں داخل ہوکر لڑتا تھا اور اب مسلمانوں ہی سے غداروں کو خرید کر اپنا مقصد پورا کرتاہے۔فساد فی الارض کا عالمگیر فتنہ جو استعمار نے پھیلایا ہے جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے،تاریخ انسانی نے اس سے پہلے ایسا فتنہ کبھی نہ دیکھا تھا۔

بہرحال افغان مہاجرین کے ساتھ دینی اور اخلاقی ہمدردی میں پاکستان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی،بلکہ بار بار ان کی سکونت میں توسیع دے کر پرامن افغانستان واپسی کے لیے سرتوڑ کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں۔لیکن پاکستان کو اس ہمدردی کو برانتیجہ بھگتنا پڑا،افسوس کہ آج بھلائی کا دور جاتارہا،جس کا بھلاکیا جائے وہی انسان کا سر کاٹتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اگر آپ سرکش کے ساتھ اچھائی کریں گے تو وہ اور زیادہ سرکش اور نافرمان ہوجائے گا۔افغان مہاجرین کے ساتھ ہمدردی کے نتیجے میں پاکستان کو خودکش بم دھماکے،قتل وغارت گری،منشیات،اور غیرقانونی اسمگلنگ سمیت دیگر نقصانات اٹھاناپڑے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے افغان مہاجرین ایک جیسے ہیں۔لیکن کیا کریں تالاب کی چندگندی مچھلیوں کی وجہ سے ساری مچھلیاں اورپورا تالاب ہی گندا ہوکر رہ گیا ہے۔پاکستان کے سچے مسلمان آج بھی نیک منش افغانیوں کے خیرخواہ اور ہمدرد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی آج بھی امریکہ اور روس کو ناکوں چنے چبوانے والے بہادروں کو اپنا ہیرو کہتے ہیں۔مگر افسوس ان بہادروں کی آڑ میں بزدل اور غدار وں نے دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستانیوں کا خون چوسا۔ڈکٹیڑ مشرف کی غلط پالیسیوں نے جہاں ڈرون حملوں کو جواز دیا،وہیں افغان مہاجرین کے روپ میں چھپے جاسوسوں نے مظلوموں پر ڈرون کامیاب کروانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔باجوڑ ایجنسی کے جس مدرسے پر ڈرون حملے میں سو معصوم بچے شہید ہوئے اس ڈرون کو راستہ دینے والے بھی افغان جاسوس تھے۔پھر وقتا فوقتا پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملے،اور پاکستانی فوجیوں کونشانہ بنانے والے بھی یہی غیرقانونی افغان مہاجرین تھے۔انڈیا کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کرنے کے پیچھے بھی ان کا برا کردار سامنے آچکاہے۔یہی وجہ ہے قبائلی علاقوں میں افغانیوں کے بارے منفی تاثر بڑھ رہا ہے۔افسوس تب ہوتا ہے جب یہ لوگ پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔پاکستان کا سب کچھ کھا پی کر اس پر تھوکتے ہیں۔ پاکستان سمیت ،خلیجی ممالک میں کتنے افغانی ہیں جن کے پاس پاکستانی نیشنلٹی ہے،لیکن یہ نیشنلٹی صرف اپنے مفاد کے لیے انہوں نے رکھی ہے،کتنی بار ان لوگوں کو پاکستان کے بارے برابھلاکہتے سنا گیا۔ان لوگوں کو نیشنلٹی دینے کی وجہ سے جہاں بہت سے پاکستانیوں کاغیرملکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا کوٹہ کم ہوا،وہیں عالمی سطح پر دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ وغیرہ سے پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہوا۔

حالیہ چندسالوں سے پاکستان نے افغان مہاجرین کے معاملے میں زبردست اسٹینڈ لیاہے۔چنانچہ انہیں ازخود رضامندی سے پاکستان چھوڑنے کا کہا،جس پر ان مہاجرین نے کافی حدتک عمل بھی کیا،لیکن اب بھی پاکستان میں پندرہ لاکھ کے لگ بھگ رجسٹرڈ مہاجرین موجودہیں،جن کی پرامن واپسی کے لیے پاکستان بھرپور کوشش کررہاہے۔لیکن افغان حکومت کی بے حمیتی کا اندازہ لگائیں کہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کی اپنے ملک واپسی پر راضی نہیں۔چنانچہ مظلوم افغان مہاجرین کے ساتھ ان کی بدسلوکی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو پاکستان کے ساتھ تعاون کرناچاہیے تاکہ مظلوم افغان مہاجرین کی واپسی ممکن ہوسکے۔پاکستان کو جلدسے جلد رجسٹر مہاجرین کو پرامن واپس ان کے ملک پہنچادینا چاہیے،تاکہ ان رجسٹر مہاجرین کی آڑ میں غیر قانونی افغانی غداروں اور دشمنوں کے روپ میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف محاذ نہ بن سکیں۔آخرمیں ایک بار پھر ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ پاکستان کی نظر میں سارے افغانی پاکستان کے دشمن نہیں ہیں،بلکہ افغانیت کی آڑ میں وہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں جو بھارت اور دیگر دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں تخریب کاری کرتے ہیں،اگر یہ تخریب کارمٹھی بھر ہوتے تو ان پرقابوپایاجاسکتاتھا،لیکن افسوس یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں،ان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان پرامن افغان مہاجرین کو واپس کرنے پر مجبور ہے بلکہ سالہا سال کی لازوال افغا ن دوستی بھی کم کرنے پر مجبورہے۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32114 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.