عالمی سازشوں کے معمارقصرسفیدکے فرعون
اوراس کے ہمنواایک مرتبہ پھرافغانستان میں جاری جنگ کے نتائج اپنے حق میں
کرنے کیلئے شب وروزنت نئے جال پھیلارہاہے۔ایساکرناامریکی سازشیوں کیلئے کئی
حوالوں سے اس لئے ضروری ہے کہ نیٹو اورایساف فورسز کی معیت کے ساتھ طویل
حربی رفاقت کے باوجودامریکاافغانستان کوفتح کرنے اورافغان قوم کے عزم کو
شکست دینے میں بری طری طرح ناکام رہاہے۔بلاشبہ ایک محور میں پوری دنیاکے
سیاہ وسفیدکے مالک امریکاکیلئے توہین آمیز بھی ہے اور عبرت انگیزبھی،اس لئے
امریکا پہلے مرحلے پرافغانستان کو امن کے حوالے ہوتا دیکھنابرداشت نہیں
کرسکتا،اس صورت میں اس کی افغانستان میں ہونے والی شکست کے بارے میں کوئی
ابہام باقی نہیں رہ سکے گا۔امریکی سازشیوں کے جال بننے والوں کیلئے یہ بھی
قابل برداشت نہیں ہے کہ افغانستان میں اس کاقائم کیاگیاحکومتی چڑیاگھردھڑام
سے نیچے آگرے اوراس کی جگہ طالبان پورے افغانستان پرحاوی ہوجائیں۔اس
مقصدکیلئے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کوڈسٹرب رکھناامریکی
پروگرام میں شامل ہے۔
افغانستان میں خونی کھیل کوجاری رکھناخطے میں ابھرتے نئے اقتصادی و تجارتی
امکانات بھی امریکا کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں کہ اس صورت میں امریکی
معیشت کی حیثیت آنے والے برسوں میں نہائت پسماندگی کامظہرہوگی۔ بلاشبہ اس
سے امریکی سپر طاقت ہونے کابھرم بھی ریزہ ریزہ ہونافطری ہوگا۔ اس لئے
امریکی شہ دماغوں کے توسط سے افغانستان کوامن کے راستے پرنہ آنے دینے کیلئے
نہ صرف افغانستان میں جنگی شعلوں کوبھڑکانے کی ایک نئی سازش بنی جارہی ہے
بلکہ ان شعلوں کوپاکستان تک بااندازدگرپھیلانے کی بھی کوششیں تواترسے ہورہی
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوشکی میں ڈرون حملے میں ملا منصورکی شہادت کے
بعدامریکا،اس کے اتحادی اورافغان کٹھ پتلی حکومت کا خیال تھاکہ وہ اب اپنی
شرائط پرطالبان کومذاکرات کی میزپر لے آئیں گے لیکن طالبان نے جس سرعت سے
اپنے نئے امیرکاانتخاب اورافغانستان میں اپنی جارحانہ کاروائیوں کادائرہ
کاربڑھایااس سے جہاںامریکااوراس کے اتحادیوں کو اپنی شدیدناکامیوں کااحساس
ہواہے وہاںحالیہ امریکی انتخابات میں کامیابی کیلئے طالبان کے ملا منصورکی
ہلاکت کاوہ کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے اس نے درپردہ افغانستان
میں نئے سرے سے اپنی سازشوں کا آغازشروع کردیاہے۔ لیکن افغان طالبان کے
ساتھ دوبارہ چارفریقی مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے افغانستان کے صدر اشرف
غنی اورعبداللہ عبداللہ کے درمیان پھوٹ پڑجانے سے شدیداختلافات پڑگئے ہیں۔
دراصل پہلے مرحلے پرامریکی سازش کارنگ ڈھنگ امن اورامن مذاکرات کا لبادہ
لئے ہوئے تھاجس کے تحت امریکاپاکستان پر ایک جانب دباؤبڑھاتارہاکہ طالبان
کومذاکرات کی میزپرلائے،دوسری جانب ان مذاکرات کیلئے پاکستان کی کوششوں
کوساتھ ہی ساتھ ناکام بنانے کیلئے امریکااس کے زیرسرپرستی قائم اشرف غنی
حکومت کے کارپردازکوششوں میں بھی لگے رہے۔ان امن مذاکرات کاناکام بنانے کی
سازش پہلی باراس وقت بری طرح طشت ازبام ہوئی جب مذاکرات کی میزسجنے سے پہلے
طالبان کے امیرملاعمر کے انتقال کی پرانی خبرکاانکشاف کردیاگیا۔مذاکرات
پرمائل طالبان کے اس صورت میں میز پر آنا ممکن نہ رہا،بعدازاں پھرپاکستان
پردباؤڈالناشروع کردیاگیالیکن اچانک ایران سے پاکستان کی سرحدعبورکرنے والے
ملامنصوراخترپرایک طے شدہ منصوبے کے تحت ڈرون حملہ کرکے نہ صرف طالبان
امیرکونشانہ بنایابلکہ پاکستان کی خود مختاری پرکاری ضرب لگاتے ہوئے
پاکستان کواس طعن و تشنیع کاہدف بنایاکہ پاکستان اور طالبان کے باہم خوب
رابطے ہیں۔
اس سازش میں امریکی ڈرونزاس وقت تک پوری طرح ساکت وجامدرہے جب تک
ملااخترمنصورایران یاافغانستان میں نقل و حرکت کرتے رہے۔٢١مئی کو اس سازش
پرعمل کرکے پاکستان پردباؤبڑھادیا گیا لیکن پاکستان کی طرف سے
نسبتاًبہترسمجھ بوجھ کامظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پراب کی با ر ردّعمل
ظاہر کیا گیاکہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کو دباؤ
میں بھی لانے کی جوکوشش کی گئی ہے وہ پاکستان کیلئے قطعاًناقابل قبول ہے۔اس
پر پاکستان کی اشک شوئی کیلئے نچلی سطح کے چند امریکی حکام کوبھجوادیالیکن
معاملہ سنبھل نہ سکا۔بعدازاں اس سازش کوآگے بڑھانے کیلئے افغانستان کے توسط
سے طورخم بارڈرپرپاکستانی چوکی کونشانہ بنواکرکئے گئے حملے میں پاک فوج کے
ایک میجرکے علاوہ دوسرے افرادبھی زخمی ہوئے ،بعدازاں میجر جوادشہیدہوگئے ۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ معاملہ سفارتی سطح پراٹھایاگیا۔کئی
روزکی سفارتی کھینچاتانی اور رابطوں کے بعداگرچہ بظاہرمعاملہ سلجھاؤ کے
راستے پرتوآگیاہے لیکن یہ کہنامشکل ہے کہ امریکی سازش کایہیں انجام ہوگیا
ہے۔پاکستان اپنے جائزمؤقف پرڈٹارہاکہ پاکستان میں اب افغانستان سے آنے والے
ہرفردکوباقاعدہ سفری دستاویزات کے ساتھ داخلے کی اجازت ملے گی اور یہ
معاملہ بالآخرباقاعدہ طورخم پرگیٹ کی تعمیرمکمل ہونے کے بعد شروع ہوگیاہے
جس کے بعدپاکستان میں دہشتگردی کیلئے آنے والے افرادکا راستہ روکنے کا
بہترین حل ہے لیکن اب امریکاایک جانب مذاکرات کیلئے دوبارہ پاکستان کومائل
کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن دوسری طرف اندرون خانہ عبداللہ عبداللہ نے
افغانستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے حکومتی کوششوں کے برعکس
امریکیوں کے ساتھ مل کرمذاکرات کی مخالفت شروع کردی ہے۔عبداللہ عبداللہ
امریکیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط رکھناچاہتا ہے اوراس میں بھارت بھی
ان کی مددکررہاہے ۔
ادھراشرف غنی اورجنرل دوستم کے درمیان شدیداختلافات کی وجہ سے آئندہ
انتخابات میں اشرف غنی کو ازبک عوام کی حمائت کاامکان بھی مفقودہوگیاہے
جبکہ اشرف غنی کے بیمار ہونے کی وجہ سے ان کوصحت کے مسائل کاسامنابھی ہے،اس
لئے عبداللہ عبداللہ کوبرسلزمیں نیٹوکی جانب سے ٢٠٢٠ء تک اپنے مشن کی توسیع
کے بعد امید ہوچلی ہے کہ اگروہ امریکا اورنیٹو کی زبان بولیں گے
توشائد٢٠١٨ء کے صدارتی انتخابات میں انہیں کامیابی مل جائے اوراس مقصدکیلئے
عبداللہ عبداللہ نیٹوکے اجلاس میں شرکت بھی کی ہے جس کے بعدانہوں نے طالبان
کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت شروع کردی ہے حالانکہ طالبان کے نئے امیرکی جانب
سے عیدکے موقع پرآنے والے پیغام کے بعدیہ بات سامنے آگئی تھی کہ قطردفترکے
ذریعے مذاکرات ایک بارپھر شروع ہوسکتے ہیں لیکن عبداللہ عبداللہ اوران کے
ساتھی اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں جبکہ گزشتہ
برس یہی عبداللہ عبداللہ مذاکرات کیلئے درپردہ اوربعدازاں میڈیاکے ذریعے
مذاکرات کیلئے انتہائی بے چین تھے لیکن اب یہی وجہ ہے کہ صدرکے وہ ترجمان
جن کاتعلق شمالی افغانستان سے ہے اورخاص کرعبداللہ عبداللہ کے ترجمان
الجزیرہ سمیت ان میڈیا چینلزکوجن کوطالبان غور سے دیکھتے ہیں،ان
پرپروپیگنڈہ شروع کردیاہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں دلچسپی نہیں
رکھتے ۔
ادھراشرف غنی ، افغان حکومت اوران کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے
علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ افغان صدرنے نوازشریف
کوٹیلیفون کرکے ان کی خیریت دریافت کی اور ان کے ساتھ آئندہ مذاکرات کے
حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔مسلم لیگ(ن)کے ذرائع نے بتایا کہ افغان صدر نے
خالدمنصورعرف نرے اوران کے ساتھیوں کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے حوالے سے
بھی نواز شریف کوتفصیلات بتائیں اور نوازشریف کویہ بھی یقین دہانی کروائی
ہے کہ مستقبل میں بھی اس طرح کے مطلوب مجرمان کے خلاف افغان حکومت کاروائی
کرے گی لیکن افغان حکومت کیلئے بھی پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے
یقین دہانی چاہئے۔بعض اہم ذرائع سے معلوم ہواہے کہ اب پاکستان اب
امریکااورافغانستان سے ٹھوس بنیادوں پریقین دہانی چاہتاہے کہ مذاکرات کے
دوران مذاکرات کرنے والے طالبان کونشانہ نہیں بنایاجائے گا جس پرافغان
صدرنے وقت مانگاہے کہ وہ امریکاسے ایسی ٹھوس یقین دہانی کیلئے بات کریں گے۔
افغان طالبان کے سابق سربراہ ملااخترمنصورکوڈرون حملے میں نشانہ بنانے کے
نتائج اوربالخصوص جنرل راحیل شریف کی طرف سے انتہائی سخت الفاظ میں
بھرپوراحتجاج کے بعدامریکا کویہ محسوس ہواہے کہ انہوں نے حملہ کرکے شدید
غلطی کی ہے لہنداامریکانے پاکستان کے غصے کوٹھنڈاکرنے اورپاکستان اور
افغانستان کے معاملے پراپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے عمر منصور کو
نشانہ بنایاکیونکہ امریکاکومعلوم تھاکہ عمر منصوراس وقت پاکستان کومطلوب
فہرست میں پہلے نمبرپر ہے کیونکہ عمرمنصورکے خلاف کاروائی پاکستان کیلئے
ایک چیلنج تھی تاہم عمرمنصورداعش کے زیر کنٹرول افغان علاقوں میں
موجودتھا،اس لئے پاکستان کو کاروائی کرنے میں مشکلات کاسامناتھالیکن جب
امریکاکومعلوم ہواکہ عمرمنصورکے بعض منصوبوں کو فضل اللہ کی جانب سے زیادہ
حمائت نہ ملنے کے بعداس نے داعش میں شمولیت پرغور شروع کردیاہے توامریکانے
منصورکونشانہ بنایا۔
افغانستان میں قیام امن کیلئے طالبان نے ایک بارپھرمذاکرات کرنے والوں
کیلئے قطردفتر سے رابطے کی ہدائت کی ہے جبکہ افغانستان سے باہرکسی ملک میں
مداخلت نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ طالبان افغان سرزمین
کوبھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اس سے
امریکااورطالبان کے درمیان بنیادی نکتے پرجو اختلاف تھاوہ تقریباً اب حل
ہوتا ہوانظر آرہا ہے کیونکہ امریکاپہلے ہی حزب اسلامی اور طالبان سے یہی
مطالبہ کرتاچلاآرہاہے کہ وہ افغانستان سے مذاکرات پراس صورت پرتیارہوگاکہ
جب حزب اسلامی اورطالبان یہ ضمانت دیں کہ القاعدہ اور داعش سمیت کوئی بھی
تنظیم امریکاکے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کریں گی اورنہ ہی طالبان
اورحزب اسلامی افغانستان میں امریکامخالف تنظیموں کاتربیتی کیمپ باقی رہنے
دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ اب ایک بارپھرمذاکرات کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور
پاکستان میں افغان سفیرعمرذاخیل نے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ان
بیانات کومستردکردیاہے کہ اب افغانستان طالبان سے مذاکرات میں دلچسپی نہیں
رکھتا۔ افغان سفیرکے مطابق یہ افغان حکومت کی قطعاً پالیسی نہیں ہے اور یہ
ان کاذاتی خیال ہے ۔
افغان سفیرنے افغان صدراشرف غنی کاخصوصی پیغام پہنچایاہے کہ ایساکوئی بھی
موقع جس سے افغانستان میں امن آسکتاہے، افغانستان اس میں شریک ہونے کیلئے
تیارہے اوراس طرح تمام کوششوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جو افغانستان میں
امن کی طرف جاتی ہیں۔افغانستان میں نیٹوکی جانب سے اپنے مشن میں توسیع کے
بعدافغان طالبان نے قبائلی عمائدین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات معطل کئے ہیں
لیکن نیٹونے ٢٠٢٠ء کے مشن کی وضاحت کر دی ہے اورکہاہے کہ نیٹوکے فوجی صرف
افغان فوج کی تربیت کریں گے اوروہ کسی قسم کی لڑائی میں بالکل حصہ نہیں لیں
گے اورنہ ہی آپریشنل فوج ہوگی ،وہ صرف اور صرف افغان فوج کی تربیت پراپنی
توجہ مرکوزرکھیں گے لیکن کیاافغان طالبان ایک مرتبہ پھرامریکاکی کسی سازش
یا فریب کا شکار تونہیں ہوجائیں گے،اس کیلئے افغان طالبان انتہائی محتاط
رویہ اختیارکئے ہوئے ہے لیکن افغانستان میں انہوں نے اپنے حملوں میں بھی
کافی دباؤ بھی بڑھا دیاہے۔ |