ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں خاص
کر علما کا رول(Role)انتہائی اہمیت رکھتا ہے ساتھ ہی ساتھ مدارس اسلامیہ
بھی اس میں شانہ بشانہ شامل تھے۔ جنگ آزادی کی داستان بہت طویل اور انتہائی
دردناک ہے جس کا احاطہ ایک چھوٹے سے مقالہ میں ممکن نہیں۔ہندوستان کی تحریک
آزادی کی ایک سچی حقیقت یہ بھی ہے کہ علماے کرام نے اس جنگ کو جہاد کا نام
دیا تھا، ۱۸۵۷ء میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا لیاقت اﷲ الہٰ
آبادی،مولانا احمد اﷲ مدراسی وغیرہ وغیرہ علما نے فتویٰ جہاد دیا اور اس کی
خوب تشہیر (Publicity)پورے ملک میں کی جس سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑ
گئی۔علماے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و
جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علماے
کرام کو انگریزوں نے جوش انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علما نے بڑے
عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر ۱۵؍
اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کو آزادی ملی ۔اور آج ہم ہندوستان کی کھلی فضا میں
سانس لے رہے ہیں۔
پر افسوس! اس وقت ہمارا ملک جس بحرانی دور سے گزر رہاوہ ہم سب پر عیاں ہے
فرقہ پرست عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے نا قانون کا خیال کر رہے ہیں
اور نا ہی انسانیت کے اصولوں کو مان رہے ہیں ،اسلام اور مسلمانوں کو ہر
ممکن نقصان پہنچا رہے ہیں۔فرقہ پرست اور متعصب لوگ مدارس اسلامیہ اور مساجد
و مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک چلائے ہوئے ہیں ، جب سے مرکز میں
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے ، اس کے بعد سے مدارس، مساجد اور
مسلمانوں کے کردار کو مسخ کیا جارہا ہے اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم
میں زبردست شدت آئی ہوئی ہے۔ فرقہ پرست لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات نے
مدرسوں کے وجود کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ گزشتہ ۳؍جولائی ۲۰۱۵ کو حکومت
مہاراشٹر کی جانب سے ریاست کے مدارس اسلامیہ کے متعلق جو فیصلہ آیا اس پر
پورا ہندوستان تقریباً یک زبان ہوگیاکہ یہ فیصلہ مدارس کے خلاف ہے۔
کہا جارہاہے کہ مدرسوں کا وجود ملک کی سا لمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔ وہاں
دہشت گردوں کوپنا ہ دی جاتی ہے او ران کے تربیت کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مزید
یہ ان جگہوں میں جہاد کے لئے ذہن سازی کی جاتی ہے اور ماحول تیار کیا جاتا
ہے۔ لیکن ان جھوٹے اور شرمناک الزامات کے ٹھوس ثبوت تو کیا جزوی ثبوت بھی
پیش نہیں کئے گئے۔(اورانشاء اﷲ قیامت تک نہ پیش کرسکیں گے)اس کے باوجود
مختلف ذرائع ابلاغ ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا سے مدرسوں کے خلاف شر
انگیز مہم مسلسل جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں ان ہی
مدارسِ اسلامیہ اور علمائے کرام کاکردار نمایاں تھا۔ ملک کو آزاد کرانے
والے ان ہی مدارس کے پروردہ تھے۔۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے ہندوستان سے اسلام
کو نیست ونابود کرنے کا بگل بجا دیا تھا۔ہزاروں علما تختہ دار پر چڑھائے
گئے تھے۔
جنگِ آزادی میں علما کا کردار
یہ بڑا المیہ اور سانحہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل بہت ہی کم جانتی ہے کہ
جنگِ آزادی میں علما کا کوئی کردار و کارنامہ رہا ہے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ
انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے دوسری قوموں
کے مقابلے میں مسلمانوں نے آزادی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ بڑے بڑے
علمائے اسلام نے جنگ آزادی کا بگل بجایا اور خود پیش پیش رہے۔ جنگِ آزادی
کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں
اور صابر و شاکر رہے اور ملک و ملت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی
پیچھے نہ ہٹے۔ ان عظیم المرتبت علمائے اسلام میں چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ
فرمائیں۔
علامہ فضلِ حق خیرآبادینے۱۸۵۷ کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔مسلمانوں کو عزت
و آبرومندانہ زندگی بسر کرنے کے لئے ایک باقاعدہ جہاد کا فتویٰ تیا ر کیا۔
جگہ جگہ دورے کئے اور دہلی پہنچ گئے ۔مولانا فضل حق کے مشورے سے صرف لال
قلعہ کی پوشیدہ مجلسوں تک محدود نہ تھے۔ وہ جنرل بخت خاں سے ملے، مشورے
ہوئے۔ آخر میں بعد نماز جمعہ دلی کی جامع مسجد میں علما و عوام کے کثیر
اژدہام کے سامنے زبردست تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔گرفتار ہوئے ،مقدمہ
چلا، انگریز ججوں کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس مخبرنے عدالت میں مولانا پر
اعتراض پیش کیا تھا آپ کی علمی ہیبت سے لرز اٹھا اور کہنے لگاکہ یہ وہ شخص
نہیں ہے جس نے فتویٰ جہاد پر دستخط کیا تھا۔ علامہ نے بلا لو مۃ الائم
انگریز کچہری کو للکارا اور کہامخبر جو بیان پہلے دے چکا ہے وہی صحیح ہے
اور اب میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیاہے اورجھوٹ بول رہا ہے۔ سنو، جہاد کا
فتویٰ میں نے دیا ہے اور میں اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہوں اور اس سلسلے
میں میں نے اپنے فیصلہ سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ دریائے شور(کالا پانی) کی
سزا ہوئی۔ جزیرہ انڈمان بھیجے گئے جہاں انگریزوں نے آپ پر آپ کے ساتھیوں پر
سخت ظلم و ستم ڈھایا۔ انڈمان میں ہے ۱۲؍صفر ۱۲۲۷ھ کو آپ کا انتقال ہوا۔
حضرت مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی:۱۸۵۷ء سے قبل آگرہ اکبر آباد میں
قیام تھا۔انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ بریلی کے اطراف میں
جہاد کے لئے دورے کئے ۔ حویلی مرادآباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علمِ جہاد
بلند فرمایا۔ جدھر آپ کا رخ ہوا برطانوی سامرج کو شکست کا سامنا ہوا۔ سلطان
بہادر شاہ ظفر نے آپ کو دہلی بلایا اور جہاد کے لئے مشورے کئے۔ مولانا نے
جنرل بخت خان، شیخ افضل صدیقی، شیخ بشارت علی خاں ، مولانا سبحان علی، نواب
مجدالدین، مولانا شاہ احمد اﷲ مدراسی کی معیت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں
کوشکستیں دیں۔ رام پور، مرادآباد کے اکثر معرکے سر کئے۔ بالآخر انگریزوں نے
۶؍رمضان ۱۲۷۴ھ/۳۰؍اپریل ۱۸۵۸ء کو اپنے پٹھو کلال فخرالدین اور دیگر دغا
بازوں کی سازش کے ذریعہ گرفتار کرکے مرادآباد جیل سے متصل بر سرعام تختہ
دار پر لٹکادیا۔ پھانسی کے وقت مولانا مندرجہ ذیل اشعار ترنم سے بڑے ہی
والہانہ انداز میں پڑھ رہے تھے۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اﷲ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم سفیرو باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا
سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا
مولانا رضا علی خان عابدی: مجدد دین و ملت امام احمد رضا خاں کے دادا
بزرگوار نے فرنگی تسلط کے خلاف مجاہدین آزادی کے ساتھ تحریک آزادی میں بھر
پور حصہ لیا۔ بریلی میں آپ کا مکان اور مسجد انقلابیوں کا مرکز تھا۔ مولانا
عنایت احمد کا کوروی، نواب خان بہادر کی قیادت میں جگہ جگہ ان کے ساتھ رہے۔
جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپئے رکھا تھا۔ مشہور
مورخ ملی سن لکھتا ہے:بریلی کے اندر لوگوں میں برطانوی حکام کے خلاف جو
یورش پھیلی اس کے تمام تر ذمہ دار بخت خاں اور اس کا ساتھی ملا شاہ علی رضا
علی ولد حافظ کا ظم علی تھے جو بریلی کے عوام کو برطانوی حکام کے خلاف
مقابلہ کرنے پر بے حد بر افروختہ کیا ۔ اگر ملا رضا بریلوی اپنے عقیدت
مندوں سمیت ہمارا مقابلہ نہ کرتا تو بریلی شہر پر ہمارا قبضہ بالکل آسان
تھا۔
مولانا عبد الجلیل علی گڑھی : تحریک آزادی ۱۸۵۷ء میں مجاہدین نے انگریزوں
کو علی گڑھ سے بے دخل کر دیا تو قیادت کا بار مولانا عبد الجلیل علی گڑھی
کے حوالے کیا گیا۔ دوبارہ انگریزوں نے علی گڑھ پر چڑھائی کی تو دشمن سے
مقابلہ میں بہت سے مجاہدین شہید ہوگئے ۔ مولانا عبد الجلیل بھی ان شہدا میں
شامل تھے۔ جامع مسجد علی گڑھ میں دفن ہوئے۔ مولانا امام بخش صہبائی دہلوی،
مولانا رحمت اﷲ کیرانوی مہاجر مکی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان بہاری، مولانا
مظفر حسین کاندھلوی، مولانا رضی الدین بدایونی بھی جامع مسجد علی گڑھ میں
مدفون ہوئے۔
مجاہد اعظم مولانا سید احمد اﷲ شاہ مدراسی: ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف
علمِ جہاد بلند کرکے تحریک کے قائد اعظم کی حیثیت سے بخت خان کے دست راست
بن کر دہلی پہنچے۔ بخت خان کے مشورے سے علامہ فضل حق نے بعد نماز جمعہ جامع
مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر شعلہ بار تقریر کی اور اس کے لئے فتویٰ
جہاد مرتب کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،ڈاکٹر وزیر خاں، سید مبارک شاہ، احمداﷲ
شاہ مدراسی نے اس پر اپنے دستخط کئے اور مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت
کی۔ آگرہ میں انگریزی استبداد سے ٹکرائے پھر کانپور میں برطانوی اقتدار کے
پرخچے اڑائے،پھر لکھنؤ میں محاذ فتح کئے اور جنرل کولن کیمبل کو دوبارہ
شکست دی۔ پھر فیض آباد میں فرنگی سامراج کا ستیا ناس کیا ۔ الغرض برطانوی
اقتدار کے پرخچے اڑانے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ تن من دھن سب کچھ
ملک و ملت پر نثار کرکے بالآخر شاہجہاں پور کے میدان کارزار میں داد شجاعت
دیتے ہوئے ۱۳؍ذیقعدہ ۱۲۷۵ھ کو جام شہادت نوش فرما گئے۔
مفتی صدرالدین خان آزردہ: انگریزوں کا اقتدار بڑھتا دیکھا تو تحریکِ آزادی
کا علم اٹھا کر فتویٰ جہاد نشر کیا۔ مجاہدین و اکابرین تحریکِ آزادی کی
قیادت کی۔ عظیم الشان کتب خانہ جو زندگی بھر کی تلاش کا حاصل تھا فتویٰ
جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں جائیداد کے ساتھ ضبط ہوگیا۔ گرفتار
ہوئے۔جائیدادتو مل گئی لیکن ظالم انگریزوں نے کتب خانہ واپس نہ کیا۔ شعر
گوئی میں کمال رکھتے تھے۔ بروز جمعرات ۲۴؍ربیع الاول ۱۲۸۵ھ بستی نظام الدین
اولیا دہلی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
مفتی عنایت احمدکاکوروی: علی گڑھ میں ہی سرکار انگریزی میں مفتی و منصف کے
منصب پر مقرر کئے گئے۔ ایک سال کے بعد بریلی تبادلہ ہوا جہاں اکابر علما و
رہنما اصحاب کی سرکردگی میں تحریک انقلاب کی سلسلہ جنبانی جاری تھی۔مفتی
عنایت احمد بھی شب و روز بریلی کے انقلابی گروہ کی مشاورتی مجالس میں شرکت
کرنے لگے اور نواب خان بہادر خان کی قیادت میں جہاد حریت تنظیم کے لئے
سرگرم عمل ہوئے۔ روہیل کھنڈ اوربریلی مجاہدین آزادی کا عظیم مرکز تھا اور
اس علاقہ میں اینٹی برٹش تحریک کے قائد امام احمد رضا کے دادا مولانا رضا
علی خاں صاحب تھے۔ مجاہدین کے لئے کھانا اور سواری کے جانور کے انتظام میں
وہ پیش پیش تھے۔ مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوکر محاربات میں علما حصہ لینے
لگے۔ جگہ جگہ خان بہادر خان کے دست راست بنے ۔ کمال جرأت و ہمت سے لڑتے
رہے۔ جنرل بخت خان بریلی پہنچے اور دارالتخت دہلی کے مرکزی محاذ پر شرکت کے
لئے رام پور یوسف علی خان نے جنگ آزادی میں مجاہدین کی اعانت سے انکار کیا
تو جنرل بخت خاں نے فوج کشی کردی۔ اس جنگ میں بھی مفتی عنایت احمدنے بڑھ
چڑھ کر حصہ لیا۔ مولوی سرفراز علی صاحب کے مشورے سے مرادآباد ہوتے ہوئے
دہلی گئے ۔ وہاں ابھی تک ہنگامہِ کارزار گرم تھا۔ مفتی صاحب میدان شجاعت
میں تیغ آزمائی بھی کرتے رہے اور مجلس مشاورت میں خاص طور سے شرکت فرمارہے۔
مفتی صاحب نے دوسرے رہنما ئے حریت کی معیت میں محاربہِ بریلی میں اول اول
فتح حاصل کی لیکن وطن دشمن غداروں کی ناپاک حرکات کی وجہ سے بالآخر شکست کا
سامنا کرنا پڑا۔ شہیدانِ حریت کے ارواح پر رحمت کے پھول نچھاور ہونے کی
دعائے خیر کرتے ہوئے میدان سے رخصت ہوگئے۔ مفتی عنایت احمد صاحب انگریزی
تسلط کے بعد گرفتار کر لئے گئے۔ کالا پانی کی سزا تجویز ہوئی۔ ۱۸۵۸ء میں
کالا پانی بھیج دئے گئے۔وہاں پہلے سے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی ، مولانا
مفتی مظہر کریم دریاآبادی موجود تھے۔ زنداں کی تکلیف اور غریبی الوطنی کے
باوجود حفظ قرآن پاک بھی کیااور سیرت نبوی میں ’’حبیب اﷲ‘‘ وغیرہ کتابوں کی
مدد و مراجعت کی تالیف کی۔ ۱۲۷۷ھ/۱۸۶۰ء ایک انگریز افسر جس کی فرمائش پر دو
دن زنداں تقویم بلدان ترجمہ کیا اور حافظ وزیر علی داروغہ جیل کی کوشش سے
رہا کئے گئے۔ کاکوری میں تھوڑا عرصہ قیام کے بعد کانپور چلے آئے۔ اسی سال
’’مدرسہ فیض عام‘‘ قائم کیا۔ مولانا لطف اﷲ علی گڑھی مشہور زمانہ عالم و
بزرگ مدرسہ کے پہلے فارغ طالب علم تھے۔ ۱۲۷۹ھ میں بذریعہ پانی جہاز حج و
زیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ ۱۱؍شوال المکرم ۱۲۷۹ھ /۱۷؍ اپریل ۱۸۶۳ء کو
جہاز پہاڑ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔ مفتی صاحب حالتِ نماز احرام باندھے ہوئے
غریقِ رحمت ہوئے۔ آپ کی کل تصانیف کی تعداد بیس ہے۔ (جنگ آزادی کے مشاہیر
علمائے اہلِ سنت، مفتی مجاہد حسین حبیبی۔آل انڈیا سیرت کولکاتا مغربی
بنگال)
یہ ملک تمہارا نہیں یہ ملک ہمارا بھی ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لئے ہم نے بھی
جان گنوائی ہے۔
تاریخ (History)کی اہمیت:
علامہ اقبال نے کہا ہے: جس طرح ایک شخص کی زندگی میں حافظہ (Memory) کی
زبردست اہمیت ہے ، حافظہ (یادداشت) اگر کم ہوجائے یا بالکل ختم ہوجائے تو
اس کی زندگی اس کے لئے بے معنی ہوجائے گی۔ اس طرح ایک قوم یا ملت کی زندگی
میں تاریخ کی زبردست اہمیت ہے۔ کیونکہ اگر اس کی تاریخ گم ہوجائے گی یا
گمنامی میں چلی جائے گی ،دفن ہوجائے گی تو اس قوم کی زندگی بھی بے معنی اور
بے کار ہوکر رہ جائے گی۔
انگریزوں کی چال ، مدارس کا زوال ،علما کا کمال
جنگِ آزادی کے وقت علم دین کے مراکز مدارسِ اسلامیہ اجڑنے لگے تھے۔
پھرباقاعدہ حکومت کے زیر نگرانی ان قلعوں پر یلغار کر دی گئی۔ عیسائی
مشنریوں کا ایک سیلاب امڈ پڑا تھا جو ہندوستان کے بھولے بھالے اور ناواقف
مسلمانوں کو اپنے دامِ فریب میں جکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر یہ مدارس
اور ان کے فارغین یعنی علمانہ ہوتے ، چھوٹے چھوٹے مکاتب ،بڑے بڑے مدارسِ
اسلامیہ اور عظیم الشان دینی ادارے نہ ہوتے تو شاید یہ لوگ اپنے فریب میں
کامیاب ہوجاتے۔ اہلِ نظر، اہلِ علم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کی
عمل داری سے پہلے دہلی، آگرہ ، لاہور،ملتان، گجرات ،جون پور، بریلی، لکھنؤ،
خیرآباد ، پٹنہ اسی طرح مدراس اور بنگال وغیرہ کے بہت سے مقامات میں مدارس
علم و فن کا مرکز تھے جنہیں مسلمانوں نے چھ سو سال سے اپنے خونِ جگر سے
سینچا تھا اور ان کے سلاطین و امرا نے ان کے پھیلانے میں اخراجات اور
ضروریات کے لئے بڑی بڑی جائیدادیں اور اوقاف مقرر کئے تھے۔(سید محبوب
رضوی:تاریخ دیوبند/۳۰۵، شائع کردہ :علمی مرکز دیوبند)
ہندوستان پر عملاً تسلط قائم کرلینے کے بعد انگریزوں نے پورے منصوبے بند
طریقے پر قدیمی مدارس کے نظام کو تہ و بالا کر دیا اور بالواسطہ ایسی
صورتیں اختیار کیں جن سے خاص طور پر مسلمانوں کے خالص دینی علوم روز بروز
تنزل اور اضمحلال کا شکار ہوتے گئے۔(جیسے آج حکومت ہند منصوبہ بند طریقے
اختیار کر رہی ہے) ملکی زبانوں کی جگہ انگریزی ملک کی سرکاری زبان بن گئی
اور حکومت کی سرپرستی میں قدیم مدارس کی جگہ نئے اسکولوں کو بالا دستی حاصل
ہوگئی۔( سید محبوب رضوی: طبع دوم۱۹۷۲، تاریخ دیوبند /۳۱۶، شائع کردہ :علمی
مرکز ،دیوبند)۔دشمنانِ اسلام اس راز سے واقف ہیں کہ جب تک یہ سیدھا سادہ
بوریہ پر بیٹھنے والا مولوی اس معاشرے میں موجود ہے، مسلمانوں کے دلوں سے
ایمان نکالا اور کھرچا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا دشمنانِ اسلام نے اس کے خلاف
پروپیگنڈہ پھیلادیا ہے اور پوری مشینری لگائے ہوئے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ دین
کے مضبوط قلعے ہیں ۔ ہندوستان میں جو دینی تعلیم، دینی ماحول اور دینی فضا
نظر آرہی ہے یہ ان ہی مدارس کی دین ہے۔ ان کی قدر کرنی چاہئے اور ان پر کسی
طرح سے کوئی آنچ آئے تو مسلمانوں کو تڑپ جانا چاہئے۔ یہی مسلمانوں کی غیرت
دینی کا تقاضہ بھی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو آزادی کی
داستانیں بتائیں ،کتابیں پڑھوائیں جیسے’’ فضل حق سن ۵۷‘‘، ’’ مسلمان
مجاہدین‘‘ اور انگریز رائٹر مسٹر ایڈورڈ ٹامسن کی کتا ب ’’تصویر کا دوسرا
رخ‘‘اور بہت سی کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ہندوستان کی آزادی کی جنگ
میں مسلمانوں کا بہت خون بہا ہے ان گنت داستانیں بھری ہیں ایک غیر مسلم
رائٹر لکھتا ہے کہ ’’ ایک اندازہ کے مطابق ۱۸۵۷ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو
پھانسیاں دی گئیں۔جو بھی مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اس کو ہاتھی پر
بیٹھایا گیا اور درخت کے نیچے لے گئے پھند ہ اس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی
کو آگے بڑھا دیا گیا، لاشیں پھندے میں جھول گئیں،آنکھیں ابل پڑیں،زبان منھ
سے باہر نکل آئی‘‘(مسلمان مجاہدین،علمائے اہل سنت کی بصیرت و قیادت
ص:۸۰)۔ہم سب کو چاہیئے کہ موجودہ حالات سے گھبرائیں نہیں ،حالات پر کڑی نظر
رکھیں اور حکمت و ایمانی بصیرت سے مردانہ وار مقابلہ کریں۔
دنیا سے آج پوچھو ،پیچھے نہیں تھے ہم ٭ انگریز لے رہا تھا جب امتحان ہمارا
زد میں بھی گولیوں کی مقصد نہ ہم چھوڑا ٭ قیدوں میں بھی نہ بدلا عزم جواں
ہمارا
ریلوں میں،راستوں میں، جیلوں میں، محفلوں میں ٭ نعرہ تھا ہم کو دے دو
ہندوستاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ٭ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف تعلیم میں ہے ۔آرٹیکل 301میں کہا گیا ہے
کہ ہر اقلیت چاہے وہ مذہبی یا لسانی ہو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی
کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرے او رچلائے ۔ تعلیم ہی بے یارومددگار مسلم
قوم کے لئے نسخہ کیمیا ہے اور اس کی بھی ذمہ داریاں قائدین اور علمائے کرام
پر ہے۔ اﷲ ہم تمام لوگوں کواپنی ذمہ داری لینے اور نبھانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین!ثم آمین!! |