خون کی ہولی

اگست کا دوسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا۔ پیر کا دن تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ سرکاری ، نیم سرکاری، پرائیویٹ ادارے اور کاروبار کھل چکے تھے۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ ٹارگٹ کلنگ کا شکار بننے والے بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کی میت سول ہسپتال کوئٹہ میں موجود تھی۔ ایمرجنسی کے باہر وکلاء پر امن احتجاج کے لیے جمع تھے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف وکلاء برادری کے احتجاج کے کوریج کے لیے صحافی بھی ہسپتال میں جمع تھے۔

بلال کاسی کی میت کو جونہی ایمرجنسی سے باہر لایا جانے لگا تو اچانک مرکزی گیٹ پر فائرنگ کی گئی۔ اور پھر ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ سول ہسپتال کی بلڈنگ لرز اٹھی۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ آواز دور دور تک سنائی گئی۔ دھماکے کے فورا بعد سناٹا چھا گیا۔ ابھی لوگ سنبھلے بھی نہ تھے کہ شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر طرف خون ہی خون پھیل گیا۔ گوشت کے ٹکڑے چاروں طرف پھیل گئے۔ کسی کا پاؤں غائب تو کوئی ہاتھ سے محروم۔ کسی کا دھڑ ناقص تو کوئی سر کے بغیر۔ یہاں ہڈی وہاں گوشت، ایک دیور پر دماغ تو دوسرے جگرکے ٹکڑے لگے ہوئے تھے۔ سناٹے کے بعد ہر طرف اہ و بکا کی اوازیں بلند ہونے لگی۔ کوئی اپنی تکلیف میں رو رہا ہے تو کوئی حالات سے دلبرداشتہ ہوکر آنسو ضبط کرنے سے قاصر۔

وکلاء اور صحافیوں سمیت 25 سے زائد بے گناہ معصوموں کے خون کی ندیاں بہائی گئی۔ اشرف المخلوقات کے جسموں کے پرخچے اڑائے گئے۔ خوشحال گھرانوں میں صف ماتم بچھا یا گیا۔ گذشتہ سال کی طرف ایک بار پھر کوئٹہ کی فضاء کو خون آلود کر دیا گیا۔ آزادی کے مہینے میں وطن عزیز کے مٹی میں 25 شہداء اور 40 سے زائد زخمیوں کا خون شامل کرکے مملکت خداداد کے بنیادوں کو مضبوط بنادیا گیا۔

مساجد محفوظ نہ مدارس، چرچ ہو یا امام بارگاہ، ہر جگہ خون کی ندیاں بہائی جاچکی ہیں۔ عدلیہ محفوظ ہے نہ ہسپتال۔ دشمن نے وطن عزیز کے ہر شعبے اور ادارے کو نشانہ بنا کر مٹانے کی کوشش کی۔ کبھی دینی لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے۔ کبھی سیاحوں کے شکل میں ملک کے اندر انتشار پھیلانے کے موقعے تلاش کیے جاتے ہیں۔ زندہ لوگ محفوظ ہے نہ مردہ۔ پارکوں میں بھی دھماکے ہوتے ہیں اور جنازوں میں بھی۔

دنیا بھر کی غیر یقینی حالات اور خصوصا پاکستان کے اندرونی سیاسی و معاشی بحران کا سہارا لے کر دشمن طرح طرح کی سازشوں میں مصروف عمل ہے۔ کبھی مغربی پڑوسی ممالک کے ذریعے پاکستان میں دراندازی کی جاتی ہے۔ کبھی لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ سیکٹر پر دراندازی ہورہی ہوتی ہے۔ بیسیوں غیر ملکی انٹیلی جنس کو پکڑا جاچکا ہے۔ مختلف تنصیبات پر حملوں میں غیر ملکیوں کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔

آخر کون لوگ ہیں ایسا کرنے والے؟ کیا مذہب ہے ایسے ضمیر فروش لوگوں کا؟ کیا ملتا ہے ان کو معصوم لوگوں کا خون بہا کر؟ کتنے لاشیں گراتے رہیں گے یہ جلاد؟ کتنے ظلم ڈھاتے رہیں گے مظلوموں پر؟ یقینا ایسا کرنے والے نہ ملک و قوم کے خیر خواہ ہے نہ ان کا کوئی مذہب ہے۔ ایسے خون خوار بھیڑیے انسان کہلوانے کے بھی لائق نہیں۔ خون کی ندیاں بہنے سے نہ پاکستانی قوم کے حوصلے پست ہوں گے اور نہ ہی ان کی ایمانی قوت میں کمی آئے گی۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن کبھی بھی اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔

کوئٹہ دھماکہ کے ذریعے دشمن وطن عزیز کو کمزور ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن بے ایمان اور بزدل دشمن شاید یہ بھول چکا ہے کہ ملکی حالات چاہے کیسے بھی ہو، اندرونی اختلافات اور تلخیاں جتنی بھی ہو مشکل کی ہر گھڑی میں وطن عزیز کے عوام پاک آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ پاکستان کی طرف اٹھنے والے ہر بری نگاہ کو خاک میں ملایا جائے گا۔ جنگ کی صورت میں چند لاکھ نہیں پوری بیس کروڑ کی نفری دستیاب ہوگی۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83139 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.