پیکر انسانیت،فخر پاکستان مولانا ڈاکٹر عبدالستار ایدھی

 1928 ء کوبھارتی ریاست گجرات کے میمن گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ جو دوسری جماعت ہی پاس کرسکا ،کسی کو کیا معلوم تھا کہ کیا شاندار کردار ادا کرنے والا ہے؟ جو اس دور کے کسی انسان نے بھی نہیں کیا ہوگا ۔اس جفا کش،انسان دوست ہستی نے 1951 ء میں ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ،سادہ لباس اوربیس سال تک ایک ہی جوتا پہننے والا یہ شخص دنیا میں پر آسائش زندگی گزار سکتا تھا مگر اس کے دل میں انسانیت کا درد تھا وہ اپنی آسائش کو دوسروں پر قربان کر دینا چاہتا تھااس مقصد میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہوا ۔1952 ء سے ایک ایمبولینس کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار میدان عمل میں اترنے والے عبدالستار ایدھی ؒ دنیا کو حیران کر گئے کہ ان کے فلاحی نیٹ ورک میں 335 عمارتیں،1800 ایمبولنیس،17 ایدھی ہومز،چائلڈ پرٹیکشنز،ایدھی روزگار سکیم،اییدھی ویلج،ایدھی بلڈ بنک،تعلیمی ادارے،لاوارث لاشوں کی تدفین ایدھی فری لیبارٹری،میٹرنٹی ہومز،اینیمل ہوسٹلز،فری نرسنگ کورسز،2جہاز،1 ہیلی کاپٹرشامل ہیں اس فلاحی کام کا دائرہ کار ساری دنیا میں ہے، ایک اہم ترین عمل جو عبدلاستار ایدھی کے حصے میں آیا اور کسی کے حصے میں نہیں آسکا وہ یہ تھا کہ عبدالستار ایدھی ؒ نے اپنی زندگی میں 2 لاکھ لاوارث لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیا ۔مذہب ،رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرنے پر عبدالستار ایدھی کو اعزازی ٖ ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا،275 بین الاقوامی ایوارڈز بھی دئیے گئے ۔عبدالستار ایدھی کے انتقال کے بعد ایک منٹ کیلئے بھی فلاحی کام نہیں روکا گیا ۔یاد رہے کہ اس وقت بیس کروڑ ایدھی دنیا میں فلاحی کام سرانجام دء رہے ہیں جو عبدالستار ایدھی کیلئے صدقہ جاریہ ہیں ۔

عبدالستا ایدھی کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ کبھی وقت کے حکمرانوں کے ہاں دکھی انسانیت کی بھیک مانگنے نہیں گئے ،بلکہ ان کا مزاج تھا کہ عام شاہراوں پر بھیک مانگ کر فلاحی کام کرتے ،ساری دنیا ان کی اپیل پر ان سے بھر پور تعاون کرتی تھی مگر ایدھی ؒ کا کہنا ہے کہ جو محبت اور تعاون مجھ سے اہل لاہور نے کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا ان کے تعاون کو کبھی نہیں بھول سکتا۔عبدالستار ایدھی ؒ کو متعدد بار بیرون ملک سے علاج کروانے کی پیش کش کی گئی مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ پاکستانی ہوں پاکستان میں ہی علاج کروانا پسند ہے اور کسی جگہ نہیں ۔ایدھی صاحب کا یہ طرز حکمرانوں،سیاستد انوں اورمال داروں کے لئے مشعل راہ ہے ہمارے اشرافیہ کو چاہیے کہ ایدھی ؒؒ کے اس طرز کو اپنا کر محبت وطن ہونے کا ثبوت دیں ۔ایدھی ؒ نے اپنی بیوہ،2 بیٹیوں،4 بیٹوں کو ہی یتیم نہیں کیا بلکہ دکھی انسانیت کو ایک بار پھریتیم کرکے رنجیدہ کرگئے ۔ہر طرف ہر آنکھ کو اشکبار دیکھا گیا تمام طبقات نے دعائے مغفرت کی تمام مذاہب نے ایدھی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔آپ کے صاحب زادے فیصل ایدھی نے آپ ؒ کو غسل دیا جنازہ مولانا احمد خان نیازی نے ادا کروائی ۔پاکستان کی تمام سیاسی،عسکری قیادت کو عبدالستار ایدھی کے جنازہ میں صف اول میں دیکھا گیا ایدھی ؒ کو 21توپوں کی سلامی دے کر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ عبدالستار ایدھی کی انسانیت دوستی کے کیا کہنے وہ جاتے جاتے آنکھیں عطیہ کر گئے اور وصیت کر گئے کہ مجھے اسی لبا س میں دفن کیا جا ئے جس میں میں مروں ۔۔۔ میرے کفن کانیا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیا جائے ۔ عبدالستار ایدھی سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی تھی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں ہر 500 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہسپتال تعمیر کروایا جائے تاکہ صحت کی صورت حال بہتر ہو سکے۔

عبدالستار ایدھی کی زندگی ان لوگوں کے نام کھلا پیغام ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اور حالات نے انہیں مایوس کردیا کہ دنیا میں کوئی کام بھی ناممکن نہیں ہوتا وسائل نہ بھی ہوں تو جذبہ ٔ صادق انسان کو اس کی منزل تک پہنچا دیتا ہے ۔ آئیے عبدالستار ایدھی ؒ کی زندگی سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے میدان عمل میں اتریں تاکہ تکمیل پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔٭٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269676 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.