سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
حکومت نہیں تو ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا
کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟پل ،سڑکیں اور میٹرو بسیں یا دہشت گردی؟
جب تک حکومت یا ریاست فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک ایسے ہی مذمتی بیانات ،افسوس
اور ناامیدی سے بھری تقریروں ،اداروں کی ناکامی یا بیرونی ممالک کی خفیہ
ایجنسیوں کی کارستانی سے لے کر اپنے سیکورٹی اداروں ،پولیس ، رینجرز،فوج یا
صوبائی اور وفاقی حکومت کی نااہلی پر ٹائم پاس کرتے رہیں گے اور دہشت گردی
، بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں معصوم اور بے گناہ لوگ مرتے جائیں گے۔
اس لئے سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ملک کو سب سے بڑا چیلنج کیا
درپیش ہے اور اس چیلنج اور مسئلہ کو حل کرنے اور اس کی روک تھام کیلئے کیا
اقدامات اٹھانے چاہیے ۔موجودہ نون لیگ حکومت کے سامنے دہشت گردی بڑا مسئلہ
نہیں ہے ، ان کے نزدیک پل ، سڑکیں ، میٹروبسوں اور ٹرینوں پر تو پانچ سو
ارب روپے خرچ کرنے کیلئے پیسے ہیں لیکن دہشت گردی کوختم کرنے اور نیکٹا
یادوسرے سکیورٹی اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے پیسے نہیں ہے جس کی وجہ سے ان
کے بعض اپنے وزراء جس میں چوہدری نثار بھی شامل ہے حکومت سے نالاں ہے کہ
حکومت دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہے اسلئے زیادہ تر واقعات
میں وہ جائے وقوع پر جانا ہی گوارا نہیں کرتے ۔حکومت کے نزدیک دہشت گردی سب
سے بڑا مسئلہ نہیں تو ریاستی اداروں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ دہشت گردی
بڑا مسئلہ ہے یا نہیں ؟اگر دہشت گردی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے
کوئی بھی ترقیاتی کام ممکن نہیں یعنی معیشت ہو یا ملک میں تعلیم اور صحت کو
بہتر بنانا، لوگوں کوروزگار دینے کیلئے پالیسی بنانی ہو یا اقتصادی راہداری
منصوبے کو عملی چامہ پہنانا ، یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ دوسرے تمام کام تب
ہی ممکن ہیں جب ملک میں امن وامان قائم ہو،لوگوں کی جان ومال محفوظ ہو ۔عام
آدمی کیلئے سب سے اہم چیز ان کی جان ومال کی حفاظت ہیں۔کوئٹہ بلو چستان میں
دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں جس پر ہر آنکھ آشکبار ہے بلکہ جس طرح اب
معصوم اور بے گناہ لو گوں کو ہسپتال میں دھماکے سے اُ ڑایا گیا اس طرح پہلے
بھی کئی دفعہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں تین سال پہلے
پولیس اہلکار کے جنازے میں خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں بھی بہت سے بے
گناہ شہری شہید ہوئے ، اس طرح کے واقعات خیبر پختونخوا میں بھی کئی دفعہ
رونما ہوچکے ہیں۔ اسی سال چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی اور پشاور میں
آرمی پبلک اسکول پر حملے تازہ مثالیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا دہشت
گردی کیخلاف جنگ کے بعد اب تک سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 60ہزار افراد جن
میں پولیس ، رینجرز،ایف سی اور فوج کے بھی ہزاروں جوان اور آفیسرز شامل ہیں
، جوشہید ہوچکے ہیں، اس طرح دہشت گردی کے ان واقعات میں زخمیوں کی تعداد
بھی لاکھوں میں ہے جن میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم اور بے گناہ لوگ عمر
بھر کیلئے اپاہج بن چکے ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو دہشت گردی کے اس جنگ میں
ملک کو 110ارب کا مالی نقصان ہوا ہے لیکن ان تمام نقصانات اور قربانیوں کے
باوجود جس طرح دنیا ہماری قربانیوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور آج بھی
ہمیں ہر جگہ صفائی پیش کرنی پڑتی ہے اس طرح ہماری حکومتوں کے نزدیک بھی یہ
قربانیاں کوئی خاص نہیں ہیں۔ اسلئے اب تک یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ ملک کا
سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔ ہر واقعے کے بعد
حکومتی ترجمانوں ، وزیر وں اور مشیروں کی جانب سے لے کر اپوزیشن رہنماؤں
اور سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں تک سب کے سب صرف مذمتی بیانات جاری کرتے
ہیں ، بعض بڑے واقعے پر جاتے اور افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن اس کے
بعد حالات ویسے کے ویسے رہتے ہیں جب دوسرا واقع پیش آجائے تو وہی ارادوں
اور اپنے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے ، کوئی اس کو اندرونی سازش قرار دیتا ہے
تو کوئی اس کو بیرونی ایجنسیوں اور ممالک کی کارستانی اور پاکستان کے خلاف
پراکسی وار کا حصہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اقدامات اٹھانے اور
ایک جامع پالیسی بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا کہ ملک کا سب سے بڑا
مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے وہ سب اقدمات اٹھائے
جائیں گے جس سے دہشت گردی ختم ہوجائے جس طرح امریکا ، برطانیہ یا دوسرے
ممالک نے ملک کی حفاظت اور سکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں
ہیں۔ پو لیس پر ہر جگہ تنقید ہوتی ہے کہ پولیس دہشت گردی کو ختم کرنے اور
دہشت گرد ی کے واقعات کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے لیکن پولیس کی نفری اور
ان کو جد ید آلات سے لیس کرنے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے ہم ٹر نینگ
کیلئے تیار ہیں اورنہ ہی ان کی نفری میں اضافے کا بندوبست کیا ہے ، وہ
پولیس جو روزمرہ معاملات کو حل کرنے ، بازاروں میں لڑ ائی جھگڑوں کو روکنے
کیلئے کام کررہی تھی اس پولیس سے ہم یہ بھی امید رکھیں کہ ملک میں دہشت گرد
کارروائیوں کو روکنے کیلئے بھی یہ کام کریں گے جن کے پاس پہلے سے بیٹھنے
کیلئے کرسی نہیں ، مجرموں کو پکڑنے کیلئے سواری نہیں اور مجرم پر گولی
چلانے کیلئے کارتوس نہیں ،ان سے ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے آئے
روز واقعات کو روکنے اور ان کوختم کرنے کی ذمہ داری ان پولیس آفیسروں اور
جوانوں کی ہے جن کی تنخواہ بھی دوسری فورس سے کم ہے۔
وقت کا تقاضاہے کہ مذمتی بیانات اور افسوس کرنے سے نکلیں اور عملی طور پر
دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے جامع پلان بنائیں جو پالیسی پہلے بنائی تھی اس
کا جائزہ لیں ۔دہشت گردی کا مسئلہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے ایسے واقعات
آئندہ بھی ہوں گے جس سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ عملی اقدامات اٹھائے جائیں،
سیکورٹی اور پولیس فورس میں اضافے سمیت ان کوتمام قسم کے جدید آلات دیے
جائے ۔ حکومت نہیں تو ریاست کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ سب سے بڑا مسئلہ
دہشت گردی ہے یا پل ،سڑکیں اور میٹرو بسیں بنانا ۔ |
|