کچھ ہوش کرو
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسر مظہر…… سرگوشیاں
وحشی درندوں نے بلوچستان کے دِل کوئٹہ کو لہو لہو کرڈالا ۔ دہشت گردوں نے
ایک پلاننگ کے تحت پہلے بلوچستان بار کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کلنگ
کا نشانہ بنایا پھر جیسے ہی وکلا اُن کی میت وصول کرنے سول ہسپتال کوئٹہ
پہنچے تو خودکُش دھماکا کر دیا۔حالتِ جنگ میں بھی کبھی ہسپتالوں کو نشانہ
نہیں بنایا جاتا ‘ لیکن پتا نہیں ابلیسیت کے یہ علمبردار کہاں سے آئے تھے
جنہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر باز محمد کاکڑ ،
ایڈیشنل سیشن جج محمدعلی ،50 وکلا ، نمازیوں ، مریضوں اور الیکٹرانک میڈیا
کے دو کیمرا مینوں سمیت 70 سے زائد افراد کو شہید کرڈالا ۔تاریخ عالم میں
اتنے وکلا کی بیک وقت شہادت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
وثوق سے کہا جا سکتاہے کہ حملہ آور مسلمان ہوہی نہیں سکتے کہ دین مبیں تو
الفت و محبت کا علمبردار ہے ۔ سیاسی اور عسکری قیادت متفق کہ یہ حملہ
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کروایا ہے ۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ شہدا کے بچے
میرے بچے ہیں ۔ ملک بھر میں دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے ۔ وزیرِاعلیٰ
بلوچستان ثنااﷲ زہری نے کہا کہ دہشت گرد ’’را‘‘ کے ایجنٹ تھے ۔ اُنہوں نے
کہا کہ ’’میرے پاس ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں ۔ جب وزیرِاعظم
سے ملاقات کروں گا تو شواہد پیش کروں گا۔ میں نے بار بار بھارتی خفیہ
ایجنسی کے ملوث ہونے کے شواہد دیے ۔ پرسوں بھی وزیرِداخلہ کو یہی شواہد پیش
کیے ، ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھیں گے ، اِن کا مقابلہ
کریں گے۔‘‘ بعدازاں وزیرِاعظم اور آرمی چیف نے کوئٹہ میں اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کا نشانہ سی پیک ہے ۔ سپہ سالار نے کہا کہ خیبر
پختونخوا میں دہشت گردوں کو شکستِ فاش ہوئی ۔ اب اُن کی توجہ بلوچستان کی
طرف ہے۔ وہ بلوچستان کی سکیورٹی صورتِ حال کو خراب کرکے اقتصادی راہداری
منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ۔ سپہ سالارنے براہِ راست تو ’’را‘‘ کا
نام نہیں لیا لیکن پاکستان کی تمام سیاسی و عسکری قیادت کی انگلیاں اُسی کی
طرف اُٹھ رہی ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے کہا
تھا کہ پاکستان کے خلاف ’’دفاعی حملہ‘‘ شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ اُس نے کہا
کہ بھارت کو کرائے پر انتہا پسندوں کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں ۔ اُس نے یہ
دھمکی بھی دی تھی کہ اگر پاکستان نے بھارت میں ممبئی حملوں جیسی کوئی اور
کارروائی کی تو اُسے بلوچستان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ۔ کچھ عرصہ پہلے
پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ’’را‘‘ کے آفیسر کل بھوشن یادو کو بلوچستان
ہی سے گرفتار کیا تھا ۔ وہ ایران میں بیٹھ کر بلوچستان میں دہشت گردی کی
کارروائیاں کرواتا تھا ۔ اُس نے اعتراف کیا کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند
عناصر کے ساتھ اُس کا رابطہ ہے ۔ اب کوئٹہ ہسپتال حملے کی ذمہ داری بھی
علیحدگی پسند تنظیم بی ایل ایف نے قبول کی ہے۔ ساری کڑیاں بھارتی خفیہ
ایجنسی ’’را‘‘ ہی کی خباثتوں کے ساتھ ملتی ہیں ۔
بھارت کو اس کا ادراک ہے کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان سے سرحدی جنگ نہیں جیت
سکتا کیونکہ یہ جب بھی ہوئی ،خاک بدہن ایٹمی جنگ میں ڈھل جائے گی‘ جو آبادی
کے لحاظ سے پاکستان سے چھ گُنا بڑے بھارت کو قبول نہیں۔ اِس لیے وہ اقتصادی
طور پر پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے ۔ سی پیک منصوبہ اُس کے دل میں کانٹے
کی طرح کھٹکتا ہے جسے وہ کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا‘ خواہ اِس کے لیے
اُسے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ اِسی مقصد کے لیے اُس نے ’’را‘‘ کا ایک
خصوصی سیل قائم کیا ہے جسے اربوں روپے کے فنڈز دے کر ’’سی پیک‘‘ منصوبے کو
سبوتاژ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔ ویسے بھی سی پیک کے بارے میں بھارت کھلم
کھلا کہتا ہے کہ وہ اِسے پایأ تکمیل تک نہیں پہنچنے دے گا لیکن بدقسمتی کی
انتہا دیکھیے کی وطنِ عزیز میں بھی اِس منصوبے کے مخالفین کی قابل ذکر
تعداد موجود ہے جو گاہے گاہے دُرفتنیاں چھوڑتی اور مختلف روٹس پر اپنے فضول
تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ اﷲ بھلا کرے ’’شریفین‘‘ کا جو اقتصادی
راہداری کے لیے یکسو ہیں اور سپہ سالار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سی پیک کی
تکمیل کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ 2025ء تک پاکستان کا شمار دنیاکی 20 بڑی اقتصادی
قوتوں میں ہوسکتا ہے لیکن اِس کے لیے جس خلوص ، لگن اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہے
وہ مفقود ہے۔ فی الحال تو ہمارے مہرباں اقتدار کی جنگ میں باہم دست و
گریباں ہیں ۔ تحریکِ انصاف نے تحریکِ احتساب کے کارواں کاایسے آغاز کیا کہ
اُس کے ساتھ حکومتی (سبزپلیٹ) نمبروں والی گاڑیوں کا کارواں بھی موجود تھا
۔ سوال یہ ہے کہ کیا کپتان صاحب سرکاری گاڑیوں میں سوار ہو کر احتساب کے
لیے نکلے ہیں؟ کیا نعرے لگاتے حکومتی کارندوں کا جنوں نئے پاکستان کی بنیاد
رکھے گا َ؟ کیا علامہ طاہرالقادری کو حلیف بناکر احتساب کیاجائے گا ، جن کے
بارے میں مشہور ہے کہ اُنہیں ’’سچ‘‘ سے نفرت ہے ۔ کیا گھاٹ گھاٹ کا پانی
پینے والے شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین ، عبدالعلیم خاں اور چودھری سرور
انقلاب کی نوید لائیں گے ؟ کیا لال حویلی والے شیخ رشید انقلاب کے علم
بردار ہوں گے جن کا کام ہی ہر وقت اور ہر لمحے جلاؤ گھیراؤ کا درس دینا ہے؟
اگرجلاؤ، گھیراؤ ، بدنظمی اور انارکی پھیلا کر ہی نوازلیگ حکومت کا خاتمہ
مقصود ہے توپھر بھی مسندِاقتدار تو کپتان صاحب کے ہاتھ نہیں آنے والی ۔ ایک
واجبی سی سیاسی سوچ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ایسی صورت میں اقتدار پر
قابض کون ہوگا اور جمہوریت کی بساط کم از کم کتنے سالوں کے لیے لپیٹ دی
جائے گی۔
کپتان صاحب نے کبھی داخلی یا بین الاقوامی امور پر بات نہیں کی۔اُنہیں
اقتصادی ترقی کی پرواہ ہے نہ قومی سلامتی کی۔ وہ اتنے مغلوب الغضب ہو چکے
کہ اُن کا ٹارگٹ صرف اور صرف میاں نوازشریف ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اُنہوں نے
میاں نواز شریف سے نجات کی جو راہ چُنی ہے ، اُس میں وہ کبھی کامیاب نہیں
ہو سکتے کیونکہ سیاست میں ضِد ، ہٹ دھرمی ، انانیت ، نرگسیت اور ذاتی نفرت
و انتقام کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن کپتان صاحب تو جذبۂ انتقام کے اتنے
اسیر ہو چکے کہ اب اُنہیں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی ۔ اُدھر اُن کی
جماعت میں واضح انتشار نظر آتا ہے ۔ سونامیے بَد دِل اور زبانِ حال سے یہ
پیغام دیتے ہوئے کہ
کلیوں کے جگر افسردہ ہیں ، غنچوں کے تبسم پژمُردہ
ہم باغ کے دھوکے میں شاید ، جنگل کے کنارے آ بیٹھے
قوم کپتان صاحب سے سوال کرتی ہے کہ کیا کوئٹہ کے دلخراش سانحے کے بعد بھی
وہ اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے یا پھر قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک
دشمن عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے لیے یکسو ہو جائیں گے؟ |
|