کوئٹہ میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد بدھ
کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کافی عرصے
بعد شرکت کی۔ ہمارے ملک کی سیاست میں اب وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں اجلاس
کی شرکت ایک خبر بلکہ بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کی جاتی ہے حالانکہ کسی
بھی جمہوری نظام میں وزیراعظم اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کے فرائض منصبی میں
شامل ہے کہ جب بھی پارلیمنٹ کے منتخب ایوان کا اجلاس ہو تو وزیراعظم سمیت
تمام ارکان اس میں شرکت کریں تاوقتکہ کسی ممبر کو کوئی انتہائی مجبوری
درپیش نہ ہو یا وہ ملک ہی میں موجود نہ ہو۔خیر اس اہم ترین مسئلے پر تو کسی
اور موقع پر بھی بات ہو سکتی ہے اس وقت کوئٹہ میں ہونے والا دہشتگردی کے
واقعہ اور اس کے مضمرات پر بات کرنا ضروری ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز
شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد کہ جب
پوری قوم سوگوار ہے، میں انتہائی دکھ اور افسوس کی حالت میں قومی اسمبلی سے
خطاب کر رہا ہوں ۔ انھوں نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ سے دہشتگردی کے خاتمے کا
عزم متزلزل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب پہلے سے زیادہ قوت سے
دہشتگردی اور دہشتگردوں کا قلع قمع کریں گے۔انھوں نے کہا کہ تمام سیکیورٹی
فورسز اور پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے ادارے دہشتگرد ی کے خاتمے کے
لئے متحد ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسی اجلاس میں جب وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی
خان نے خطاب کیا اور سانحہ کوئٹہ کے موقع پر بقول ان کے اپوزیشن کے منفی
رویے پر کڑی تنقید کی تو اپوزیشن اجلاس کا بائیکاٹ کر کے ایوان سے باہر چلی
گئی ۔ بعد میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپوزیشن کا منا کر لائے ۔ کہا
جا رہا کہ یہ پارلمیانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ جب وزیراعظم خود اپوزیشن
کو منانے گئے اور اپوزیشن ارکان کو منا کر لائے۔کہتے ہیں کے سیاست کے سینے
میں دل نہیں ہوتا۔ یہ بہت بے رحم ہوتی ہے اتنی بے رحم کہ کوئٹہ میں درجنوں
پروفیشنل وکلاء کو ایک ہی ہلے میں موت کی نیند سلا دیا گیا اور وہاں
حکمرانوں اور اپوزیشن کو روٹھنے اور منانے اور منانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اسلام آباد میں
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا جس میں
آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لفٹینٹ جنرل رضوان اختر
سمیت سول و ملٹری اعلی قیادت نے شرکت کی ۔اجلاس میں دہشتگردوں کے خلاف
آپریشن ضرب عضب مزید شدت سے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اجلاس میں
آپریشن جلد از جلد مکمل کرنے کی بھی بات کی گئی۔ یاد رہے کہ اب موجودہ آرمی
چیف کی مدت ملازمت ختم ہونے میں ڈھائی سے تین مہینے رہ گئے ہیں۔ اجلاس میں
فیصلہ کیا گیا کہ آپریشن ضرب عضب میں تیزی لائی جائے اور صوبوں کے درمیان
انٹیلی جنس نیٹ ورک بڑھایا جائے اور انٹیلی جنس کے میکینزم کو زیادہ سے
زیادہ مضبوط کیا جائے۔اجلاس میں فیصلے کیا گیا کہ وفاق صوبوں کو نیشنل
ایکشن پلان پر عملدآمد کے لئے ہر ممکن وسائل فراہم کرے گا۔ جبکہ پلان کے
20نکات پر بھر طور اور مکمل طریقے سے عملدآمد کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا گیا۔
ملک کی موجودہ صورت حال اور اہم فیصلوں سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ
جیسے جیسے آرمی چیف کے مدت ملازمت ختم ہونے کی تاریخ قریب آ رہی ہے ویسے
ویسے بہت سے سیاسی اور غیر سیاسی معاملات بہت تیزی سے سامنے آ رہے ہیں اور
ساتھ ساتھ آپریشن ضرب عضب بھی مکمل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔کیا آرمی
چیف کے لئے آپریشن ضرب عضب مکمل کرنا ایک آسان ہدف ہو گا کہ باقی ماندہ
ڈھائی تین ماہ میں وہ آپریشن ضرب عضب کو مکمل کر لیں گے اور پاکستان کی
سرزمین کو دہشتگردوں اور دہشگردی سے پاک کر دیں گے؟ کیا یہ ممکن ہو پائے گا؟
دو روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سانحہ کوئٹہ کے بعد تما م سیکیورٹی
اداروں کو کامبنگ آپریشن کرنے کی ہدایت کی جس میں ملک بھر کے انٹیلی جنس
نیٹ ورک کو دہشتگردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کرنے کی ہدایت کی جبکہ منگل
کو کور کمانڈر اجلاس کے بعدکامبنگ آپریشن کو تیز کرنے کا بھی فیصلہ کیا
گیا۔صورت حال جو بھی ہو اور فیصلے کتنے ہی سخت اور پر عزم کیوں نہ ہوں لیکن
یہ ضرور دیکھنا پڑے گا کہ دہشتگردوں اور دہشگردی کے خلاف بہت بڑی بڑی
کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد کیا ہمارے ملک کی زمینی صورت حال یہ اشارے دے
رہی ہے کہ آپریشن میں مزید کامیابی حاصل کیا جا سکتی ہے اور دہشتگردوں اور
دہشتگردی کا مکمل طورپر خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔جب ہمارے ملک میں لاکھوں کی
تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن موجود ہوں اور جو ہر روز ہونے والی
دہشتگردی کے واقعات سمیت سنگین جرائم میں ملوث ہوں ، جب افغان بارڈر ہر وقت
کھلا ہو اور وہاں سے روزانہ ہزاروں افغانی پاکستان میں غیر قانونی طور پر
داخل ہو رہے ہوں، جب پاکستان میں درجنوں غیر ملکی خفیہ ادارے اپنے اپنے
ایجنٹوں اور جاسوسوں کے ساتھ ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے سرگرم ہوں تو
کیا اس صورت حال میں ان تمام مسائل پر قابو پائے بغیر دہشتگردی اور
دہشتگردوں کا مکمل خاتمہ ممکن ہے ؟ یا پھر ہمیں ایک طویل عرصے تک دہشتگردی
کے اکا دکا واقعات کے لئے تیار رہنا ہو گا کہ جب تک غیر قانونی تارکین وطن
کو رجسٹرڈ نہ کرلیا جائے، افغان بارڈر کی مینجمنٹ نہ کر لی جائے اور غیر
ملکی خفیہ ایجنسوں کے ایجنٹوں اور جاسوسوں کا قلع قمع نہ کر دیا جائے۔ |