وادی کشمیر کے ایک چوراہے پر ایک معصوم بچہ
بھارتی کمانڈوز پر غلیل سے نشانہ باندھے کھڑا ہے۔ یہ تصویر آزادی پسندوں ہی
نہیں بلکہ نئی نسل کے عزائم کی عکاسی کر رہی ہے۔ کبھی یہ مناظر فلسطین کے
چوراہوں پر دیکھے جاتے تھے۔ اب کشمیر میں بھی یہی مناظر نظر آ رہے ہیں۔
جدوجہد نے خالصتاً عوامی رنگ دھار لیا ہے۔ پہلے بھارت کے لئے یہ گنجائش تھی
کہ وہ مجاہدین کو بھاڑے یا کرائے کے درانداز قرار دے۔ اس نے دنیا کو بہت
گمراہ کر لیا۔ بھارت اب بھی چیخ رہا ہے ۔ وہ دنیا پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ
کشمیر میں سب کچھ پاکستان کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ اس پانچ سال کے بچے کے
ہاتھ میں کنکریاں اور غلیل پاکستان سے لائے گئے ہیں۔ بھارتی حکمران یہ بھی
اعلان کر سکتے ہیں کہ یہ بچہ بھی ایک در انداز ہے۔ وہ کشمیر کی سڑکوں پر
معصوم بچوں کو فائرنگ کا نشانہ بھی یہی جتلانے کے لئے بنا رہا ہے کہ یہ
پاکستانی در انداز ہیں۔ گھروں کے اندر خواتین کو نشانہ یہی سمجھ کر بنایا
جا رہا ہے۔ ہسپتالوں یہاں تک کہ آپریشن تھیٹروں سے مریضوں کو بھی ٹارچر
سنٹرز میں منتقل کیا جا رہا ہے کہ یہ سب کسی بھی وقت فورسز پر پتھراؤ شروع
کر دیں گے۔ بھارتی حکمرانوں کا فوج کو حکم ہے کہ ماں کی گود میں موجود کم
سن بچے سے لے کر بستر مرگ پر پڑے کسی بھی کشمیری کا کوئی اعتبار نہیں ۔ یہ
کسی بھی وقت بھارتی فوج پر پتھروں س حملہ کر دیں گے۔ یہ اندازے درست ہیں۔
کشمیری اب یہی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اس
لئے ان کی مزاحمت طول پکڑ رہی ہے۔ محترم سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ مولوی
عمر فاروق، محمد یایسن ملک، شبیرا حمد شاہ سمیت تمام حریت پسند قیادت متحد
ہو چکی ہے۔ وہ مشاورت سے احتجاجی کلینڈر جاری کر رہے ہیں۔ اس عوامی کرفیو
میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔
کرفیو، ہڑتال، مظاہرے، عوام پر فائرنگ اور شیلنگ 34ویں دن میں داخل ہو چکی
ہے۔ شہروں اور دیہات میں تمام کاروبار زندگی مفلوج ہے۔عوام کی جگہ جگہ
بھارتی فورسز کے ساتھ جھرہیں ہو رہی ہیں۔ ہر روز سیکڑوں لوگ زخمی کے جا رہے
ہیں۔ روزانہ زخمی ہسپتالوں میں شہید ہو رہے ہیں۔ہر روز کشمیری بچے یتیم،
سہاگ لٹ رہے ہیں۔ گھر اجڑ رہے ہیں۔ کشمیریوں کی جان اورمال کو تحفظ دینے کے
لئے دہلی سے آنے والی فوج ہی عوام کا قتل عام کر رہی ہے۔ بھارت کی جنگ زمین
کے ٹکڑے کے لئے ہے۔ یہ درست تا ثر ہے کہ بھارت نے کشمیر کو قبرستان بنانے
کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے کشمیر آبادی سے خالی در کار ہے۔ تا کہ وہ یہاں پر
مزید فوجی چھاؤنیاں، ان کی رہائشی بستیاں قائم کر سکے۔ ہزاروں کی تعدداد
میں نوجوان گرفتار کئے گئے ہیں۔ ان میں نو عمر لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جن
کا ٹارچر سیلوں میں آپریشن کیا جاتا ہے۔ انہیں شدید تشدد سے شہید یا معذور
بنایا جا رہا ہے۔ سرینگر ، اسلام آباد، پلوامہ، کولگام، قاضی گنڈ، شوپیاں،
سوپور، بارہمولہ، ہندواڑہ، کپواڑہ، وادی لولاب، ترہگامیہاں تک کہکرنا ہ،
کیرن، اوڑی تک لوگ انتفاضہ میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ جبکہ وہ چاروں
طراف سے بھارتی فوج میں گھرے ہوئے ہیں۔
کشمیری تمام خطرات سے بے پروا ہو کر مزاحمت کر رہے ہیں۔ ان کے قت عام کے
ایک ماہ بعد بھارتی وزیراعظم نے بیان جاری کیا۔ نریندر مودی نے وہی الفاظ
دوہرائے جو 1989میں دہلی کے حکمران بیان کر رہے تھے۔ جیسے کہ چند مٹھی بھر
لوگوں کو پاکستان گمراہ کر رہا ہے۔ روایتی طور پر بھارت نے سارا ملبہ
پاکستان پر ڈالنے کی روایت قائم رکھی ہے۔ دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر
کو دفتر خارجہ ساؤتھ بلاک میں طلب کر کے جو احتجاج کیا گیا ہے اس میں بھی
کشمیر کی جدو جہد کو سرحد پار دہشت گردی کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی
گئی۔ مودی کشمیر میں اقتصادی پیکیج اور ترقیاتی عمل کو موجودہ حالات کا حل
سمجھتے ہیں۔ مگر کشمیری آج کسی اقتصادی پیکج یا نوکریوں کے لئے نہیں بلکہ
بھارت سے مکمل آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ایک ماہ کے بعد مودی نے کشمیر پر
خاموشی توڑی۔ مگر اٹل واجپائی کے نقش قدم پر چلنے کا ان کا بیان جھوٹ اور
گمراہ کن ہے۔ بھارت نے کشمیر میں کبھی بھی انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے
اصول سامنے نہیں رکھے بلکہ ان تین میں سے ایک بھی زیر غور نہ لایا۔
کشمیریوں کی آزادی اور بھارتی عوام کی آزادی میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق مقبوضہ
ریاست سے نکلتے ہی پٹھانکوٹ سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مودی کشمیر کو آزادی
دینے کا یہ مطلب واضح کرتے ہیں کہ بھارت کشمیریوں کو ان کی زندگی سے آزادی
دلا رہا ہے۔ اس کے لئے بھارت کی فورسز ہر روز کئی کشمیریوں کو زندگی سے
آزاد کر رہی ہیں۔ دہلی والے کبھی بھی کشمیر یوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ نہرو
نے اپنے نام نہاد دوست شیخ عبد اﷲ کے ہاتھ میں ایک پولیس سپاہی بھیج کر
ہتھکڑیاں ڈال لیں۔ مودی کشمیری نوجوانوں اور بچوں کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ،
کتابیں یا کرکٹ بلے دیکھنا چاہتے تو یوں کشمیر میں قتل عام جاری نہ رکھا
جاتا۔
گزشتہ برسوں میں بھی ایسا ہوا۔ اب پھر بھارت سے کل جماعتی وفد کشمیر آ رہا
ہے۔ وفد کے لوگ کشمیریوں سے وعدے کریں گے۔ سرکاری دعوتیں اڑائیں گے۔ کٹھ
پتلی حکومت اور فوج سے بریفنگ لیں گے۔ پہلے بھی ایسا ہوا۔ یہ سب بھارت سوچ
سمجھ کر دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے کرتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔
بھارت نے پہلے بھی کشمیر کے حوال سے کمیٹیاں تشکیل دیں۔ کشمیر کمیٹی قائم
کی۔ اس کی سفارشات سامنے آئیں۔ لیکن جب دنیا کا دباؤ ختم ہوا۔ سب کمیٹیاں
بھی تحلیل ہو گئیں۔ نریندر مودی نے بھوپال میں عر عام اعلان کیا کہ تمام
ہندوستانی کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت کا انوکھا انداز ہے کہ
کشمیریوں کو اس محبت میں قتل کیا جا رہا ہے۔ ان پر تشدد ڈھایا جا رہا ہے۔
کشمیر کی نئی نسل کو اندھا کیا جا رہا ہے۔ مودی کشمیریوں کے ہاتھ میں لیپ
ٹاپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لیپ ٹاپ اب بھارتی فوجی کشمیریوں کو شہید کر کے
ان کی قبروں پر رکھیں گے؟۔ کشمیر سے کوئٹہ تک انسانیت کا قتل عام ہو رہا
ہے۔ بلوچستان میں جو ہوا ، اس کی ہر کوئی مذمت کرتا ہے۔ مگر بھارت شاید
سمجھتا ہے کہ پاکستان کی توجہ کشمیر سے ہٹ جاے گی۔ بھارت نے افغانستان اور
بنگلہ دیش کو بھی پاکستان کا دشمن بنانے کا عمل جاری رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے
کہ کابل اور ڈھاکہ حکومتیں بھارتی سازشوں کو جلدی سمجھ لیں۔ مگر کشمیری
بھارت کو اس کی شکست دکھا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی آخری معرکہ ہے۔
اس میں بات چیت کا کوئی عمل نظر نہیں آتا۔ بھارت اپنے آئین کے تحت کشمیر پر
بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ کشمیریوں اور پاکستان کو تقسیم کر رہا ہے۔ تا ہم
پاکستان کے سامنے راستے کھلے ہیں۔ حریت کانفرنس، آزاد کشمیر حکومت، سمندر
پار تارکین وطن کی مشاورت سے لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ آزاد حکومت کو
تمام معاملات میں آگے لا کر اس کی پشت پناہی سے سفارتکاری تیز ہو تو مثبت
نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آزاد حکومت اپنی توانائی یوں وزارتوں، اہم
عہدوں اور نان ایشو پر ضائع نہ کرے بلکہ کشمیریوں کے قتل عام کو بند
کرانے،عوام کو سڑکوں پر لانے اور ریفرنڈم کے لئے سرگرم کردار ادا کرنے کے
لئے آگے آئے۔
|