چوہدری نثار کی پیپلزپارٹی پر چڑھائی

چوہدری نثار نے جمعہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو ملکی مفاد کی خاطر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں متحد ہونے کی اپیل کی اور اس کے لئے انھوں نے مختلف پیشکشیں کیں ۔ وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ میڈیا ایک جیوری قائم کرے ، جس کے لئے انھوں نے مختلف سینئر صحافیوں اور اینکر پرسن کے نام بھی لئے، یہ جیوری میڈیا پر مذاکرے کرے ۔ ان مذاکروں میں جو بھی کسی دوسرے پر الزام لگائے وہ ثابت کرے تاکہ عوام کے سامنے حقائق پیش کئے جا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ روزانہ ہونے والے ٹاک شو سے عوام میں مزید کنفیوژن پھیل رہا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو یہ مذاکرے بھی منظور نہیں تو سابق ججوں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا جائے جو اصل حقائق سامنے لائے اور اگر یہ بھی منظور نہیں تومعاملہ سپریم کورٹ کے حوالے کر دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پورے ملک کو اختلافات بھلا کر متحد اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر داخلہ بظاہر تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونے کا مشورہ دے رہے تھے لیکن در حقیقت وہ پیپلزپارٹی کے خلاف بہت سے پینڈورا باکس کھول رہے تھے۔ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے زیادہ تر مخاطب پیپلزپارٹی کے مختلف قائدین تھے ۔ ایک طرف انھوں نے ملک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی خاطر سب کو متحدہونے کامشورہ دیا لیکن ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے حوالے سے بہت سے سوالات میڈیا کے حوالے کر دیئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بظاہر تو چوہدری نثار اختلافات ختم کر کے دہشتگردوں کے خلاف یک جان ہونے کی بات کر رہے تھے تو دوسری طرف نام لئے بغیر وہ آگ کے گولے پیپلزپارٹی کی طرف پھینک رہے تھے۔چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ کوئی آدمی میڑ ریڈر تھا اس سے وہ اتنی ترقی کیسے کر گیا (ظاہر ہے کہ ان کا اشا رہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی طرف تھا) ۔ انھوں نے کہا میں نے کبھی نہیں کہا کہ ایل پی جی کا کوٹہ کسی کو کیسے مل گیا ( اس معاملے میں ان کا اشارہ چوہدری اعتزاز احسن کی طرف تھا) ۔ انھوں نے کہا میں نے کبھی یہ بات نہیں کی کہ اسلام آباد میں کس کس کو فلیٹ الاٹ ہو گئے کہ جس میں سے بعض افراد نے کوئی ادائیگی بھی نہیں کی۔ چوہدری نثار نے مزید کہا کہ میں نے کبھی اس بات کا بھی ذکر نہیں کیا کہ ایک ایسی کمپنی کو ٹھیکہ کیسے مل گیا جس نے کوٹیشن جمع ہی نہ کرائی ہو۔دوسری طرف اس پریس کانفرنس میں ایک براہ راست حملہ بھی چوہدری نثار نے کیا۔ یہ حملہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر تھا۔ انھوں نے کہا کہان کی پارٹی کی اعلی قیادت کے پاس ایک بہت ہی اہم شخصیت آئی تھی اور اس نے کہا کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہو سکتی ہے اس کے لئے دو شرطیں ہیں ایک تو ایان علی کو چھوڑ دیا جائے اور ملک سے باہر جانے دیا جائے اور دوسری یہ شرط ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہونے دی جائے۔ اس موقع پر چوہدری نثار نے معنی خیز انداز سے مسکراتے ہوئے ایان علی کا آصف علی زرداری کے ساتھ نام لیااور پیپلزپارٹی سے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ آخر ایان علی کا پیپلزپارٹی سے کیا تعلق ہے۔ اس پر تمام صحافیوں نے قہقہ لگایا جس پر چوہدری نثار نے پہلے سے زیادہ شدت سے مسکرا کر کہا کہ میری اس بات کا کوئی غلط مقصد نہ لیا جائے اور پھر مزید مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے تمام صحافیوں کے ہنسنے پر شدید اختلاف ہے۔انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے انھیں چھوڑنے اور مسلم لیگ کے ساتھ بیٹھنے کی قیمت صرف ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کے حکومت نرم رویہ اور انھیں باہر جانے کی اجازت دینے سے مشروط رکھی ہے۔ انھوں نے عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کو کنٹینر پر بٹھانے سے پہلے یہ ضرور پوچھ لیں کہ سرے محل کس کا تھا، اس کو بیچنے کے بعد 60ملین ڈالر کس کے اکاؤنٹ میں گئے، دبئی میں تین محل کیسے خریدے گئے اور ہیرے کا نیکلس کس کا تھا۔چوہدری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی دعوی کیا کہ ایان علی کے باہر جانے کے لئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی ادائیگی اسی اکاؤنٹ سے ہوتی رہی ہے جس اکاؤنٹ سے بلاول بھٹو زرداری کے ٹکٹ کی ادائیگی ہوتی ہے۔چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف نہیں وہ میرے خلاف ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان باتوں کا بھر رد عمل پیپلزپارٹی کے طرف سے آئے گا اور تلخی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔ صاف ظاہرہے کہ یہ پریس کانفرنس چوہدری نثار نے دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیلٹ فارم پر جمع کرنے کے بجائے پیپلزپارٹی کی طرف سے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا سخت ترین جواب دینے کے لئے کی تھی۔ اب پیپلزپارٹی کی طرف سے اس پریس کانفرنس پر رد عمل آنے شروع ہو گیا ہے اور معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونگے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس چوہدری نثار علی خان کی طرف سے اٹھائے گئے بہت سے سوالات کا کوئی جواب ہی نہیں تاہم وہ میڈیا میں خانہ پری کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور بولتے رہیں گے لیکن دوسری طرف وہ چوہدری نثار علی خان کی بھی پرانی فائلیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں اور اگر ان کے ہاتھ کچھ آ گیا تو وہ انھیں بخشیں گے نہیں۔ چوہدری نثار علی خان کا خود تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے کہ جس کے قائدین پر کرپشن کے الزامات ہیں ۔ یہاں بہت اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر وفاقی وزیر داخلہ اپنے ہر عمل میں اتنے ہی سچے ہیں اگر نہ وہ خود کرپٹ ہیں اور نہ ہی کرپشن برداشت کرتے ہیں تو پھر وہ اپنی جماعت میں موجود وزراء اور دیگر اہم اور با اثر سیاسی شخصیات کے خلاف کارروئی کیوں نہیں کرتے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب چوہدری نثار علی خان کے پاس نہ تو ہے اور ہی وہ کبھی اس سوال کا جواب دے سکیں گے۔
 
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.