ہمیں اس ’’آزادی ‘‘سے بغاوت کرنا ہوگی

ایک مدت ہونے کو ہے ہر سال ماہ اگست میں آزادی کا ایسا شور بلند ہوتا ہے کہ کبھی کبھار میں خود کو بھی آزاد محسوس کرنے لگتا ہوں لیکن جب میں اس آزادی سے محضوض ہونے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے یاد دلایا جاتاہے آپ غلام ہیں آپ چند خاندانوں کے غلام ہیں پھر میں حیران ہوتا ہوں اُن منافقوں پر جو 14اگست کے دن دل و دماغ میں لوٹ مار کے منصوبے لئے پورا دن مزار قائد پرپھول چڑھا تے ہیں مجھے یقین ہے یہ طبقہ دل ہی دل میں اس جمہور کی بے وقو فی سے ضرور محضوض ہوتا ہوگا آپ تصور کریں ایک طرف سائبر کرائم بل جیسے قوانین منظور کئے جارہے ہیں اوردوسری طرف ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ہم آزاد ہیں ہم سا ئبر کرائم بل جیسے کالے قوانین کو بھی بھلا سکتے ہیں لیکن ہم ان مظالم کو کیسے بھول جائیں جو ہمارے نئے ’’آقاؤں ‘‘ کی جانب سے ہم پر ڈھائے جارہے ہیں ہم اس مزارے کے دُکھ کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جس کے بیٹے کا بازو اس لیے تو ڑ دیا جاتا ہے کہ اس نے وڈیرے کی حکم عدولی کی ‘کیا اس بیٹی کا غم بھلایا جاسکتا ہے جو بغیر کسی جرم جر گے کی نذر ہوگئی ‘مجھے بتا یا جائے جہاں علاقے کے چوہدری کے سامنے حق بات کر نے کی جرائت کسی میں نہ ہووہ معاشرہ کیسے آزاد ہو سکتا ہے ․․․!اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیاسی و غیر سیاسی سرداروں کے مظالم ایک باشعور انسان کیلئے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے‘ میں اس نظام میں رہتے ہوئے خود کو کیسے آزاد محسوس کرسکتاہوں جس نظام میں ایس ایچ او کسی وقت ایک غریب آدمی پر جھوٹی ایف آئی آر درج کر کے اسے کال کوٹھری میں پہنچا دے ‘میں نے اپنی آنکھوں سے مدعی بن کر تھانے جانے والوں کو مجرم بنتے دیکھا ‘مجھے یہ کہہ دینے میں کوئی عار نہیں کہ آ ج ایک غریب آدمی جتنا خوف ایک پولیس والے کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے اتنا خوف شاید اسے کسی فرنگی کو دیکھ کر محسوس نہ ہوتا ‘مظالم کی کتنی ہی داستانیں ہیں جو بیان کی جائیں تو روح تک کانپ جائے‘پولیس ‘پٹواراورانتظامیہ کے ذریعے اس ملک کے محروم طبقات کیساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ شاید انگریز کی غلامی سے بھی بد تر ہے ‘ یہاں فرض اور انتقال کیلئے بھی سفارش درکار ہے ‘چور کیخلاف ایف آئی آر کیلئے بھی رشوت کی ضرورت ہے ‘ملازمت کیلئے بھی کسی وزیر کی پر چی کی ضرورت ہوتی ہے ‘کاروبار کیلئے کچھ قبضہ گروپوں سے آپ کے قریبی تعلقات ضروری ہیں الغرض ہمارا معاشرتی نظام اس قدر تباہ ہوچکا کہ سو چیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے پھر انصاف کا فقدان اور اقرباء پروری جس طرح اس ملک کی بنیادوں کو چاٹ رہی ہے وہ ناقابل یقین حد تک تباہ کن ہے ضلعی عدالتوں میں انصاف کے نام پر عام آدمی کو جس طرح جوتے گھسانے پڑتے ہیں وہ ایک الگ موضوع ہے۔

میں جب اپنا سیاسی نظام دیکھتا ہوں تو تب بھی مجھے اپنی آزادی پر شبہ ہوتا ہے‘ باپ کے بعد بیٹا ایوان اقتدار کی طرف دیکھ کر ہونٹوں پر یوں زبان پھیرتا ہے جیسے قائد اعظم نہیں اسکے والد صاحب اس ملک کے بانی ہوں ‘ا س ملک پر جس طرح حکمرانی کی جارہی اس طرح کی حکمرانی کسی ایسی کمپنی کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی جس میں دو یا اس سے زائد شراکت دار ہوں یہ تو ایک ملک ہے زندہ سلامت ملک جس کے حصول کیلئے لاکھوں روحیں جسموں سے جدا ہوئیں ‘نہ جانے کتنی ماؤں نے اپنے سپوت قربان کئے ‘کتنے سہاگ اجڑے اور کتنی بیٹیاں یتیم ہوئی آج اگر اس ملک پر ہم اس طرز ِحکمرانی کو قبول کر رہے ہیں تو اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ہماری جڑوں میں آج بھی آقاؤں کا خوف ہے ہماری اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوگی کہ ہم اپنے ان ’’مالکوں‘‘کو خوش کرنے کیلئے اپنے رسم ورواج اور اپنی ثقافت تک نہ صرف بھول گئے بلکہ ہم اس قوم کی ثقافت اپنانے میں فخر محسوس کر تے ہیں جس قوم نے ہمیں عشروں تک غلام بنائے رکھا۔ اسے غفلت کہا جائے ‘بے قدری یا ناشکری لیکن یہ حقیقت ہے کہ بحثیت قوم ہم آج تک وہ اہداف حاصل نہ کرپائے جس کیلئے ہم نے قربانیاں دیں کیا ہماری تمام تر قر بانیوں کا مقصد اپنے آقاؤں کی تبدیلی تھا ؟کل انگریز تھا اور آج شریفوں‘زرداریوں ‘گیلانیوں ‘لغاریوں ‘چوہدریوں اور وڈیروں کا ٹولہ ہم پر حکمرانی کر رہا ہے وہ بھی انگریز کی باہمی مشاورت سے ۔افسوس ناک اور تباہ کن حقیقت یہ ہے انگریز کیخلاف آواز بلند کرنے والی قوم اس ٹولے کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے اول تو کبھی اس نظام اوران چند خاندانوں سے آزادی حاصل کر نے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی اور اگر کی جائے تو چند خاندان ہمیں فوجیوں سے ڈراتے ہیں جب عوام آواز حق بلند کرے تو ان کی جمہوریت خطرے میں پڑھ جاتی ہے سچ تو یہ ہے کہ یہ جمہوریت ہی ہماری آزادی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور ہمیں اس سوالیہ نشان سے نجات کیلئے مشترکہ جدوجہد کر نا ہوگی ہم سب کو اس برائے نام آزادی سے بغاوت کرناہوگی اس زمین اور اس کے باسیوں کو حقیقی آزادی تب ہی نصیب ہوگی جب اس مصنوعی آزادی سے بغاوت کی جائے گی ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر خود احتسابی کے ذریعے اس نظام سے بغاوت کرنا ہوگی اس فرسودہ نظام سے نجات ہم پر قرض ہے ان لاکھوں خاندانوں کا قرض جنہوں نے ہمارے لئے خون قربان کیا 14اگست 1947ء کو صرف اذان دی گئی تھی نماز ابھی باقی ہے -
Zulqarnain Bashir
About the Author: Zulqarnain Bashir Read More Articles by Zulqarnain Bashir: 16 Articles with 10530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.