معمولات میں تو ہم بہت آگے نکل چکے ہیں مگر معاملات میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں
(Syed Farooq Ahmed Syed, India)
ملک میں موجود صاف وسیکولر ذہن۶۰؍کروڑبرادران وطن تک اسلام کا پیغام اچھے معاملات سے پہنچے گا |
|
محترم قارئین کرام:السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
وبرکاتہ۔۔۔
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔اور اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کررہے ہوں گے
کہ اس نے ہمارے گناہوں پر ستاری کا معاملہ کرتے ہوئے ہمیں بہترین نفع اور
رحمت والی بارش عطا کررہا ہے۔استغفار کی کثرت کرتے رہئے۔حقوق اﷲ اور حقوق
العباد کا خصوصی طور پر خیال رکھئے۔
بہر کیف:میں دراصل آج جس بات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کررہا ہوں وہ یہی
ہے جس کا میں نے ا?پ کو خیال رکھنے کا کہا ہے اور وہ یہ کہ ہم حقوق اﷲ کا
تو بہت بہترین طور پرخیال کرتے ہیں مگر جہاں حقو ق العباد کا تعلق آتا ہے
ہم اپنی انا کے سامنے ہار جاتے ہیں۔آئیے میں آپ کو تفصیل سے سمجھانے کی
کوشش کرتا ہوں۔اﷲ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا جس کی تفسیر میں کچھ یوں
پایا گیا کہ معاملات کی درستی اور اس کی صفائی میں اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔
یعنی انسا ن کا معاملات میں اچھا ہونا اور خوش معاملہ ہونا یہ دین کا بہت
ہی اہم باب ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ دین کا جتنا اہم باب ہے ہم نے اتنا
ہی اس کو اپنی زندگی سے خارج کر رکھا ہے ہم نے دین کو صرف چند عبادات مثلاً
نماز روزہ حج زکوۃہ وظائف اور اوراد میں منحصر کرلیا ہے۔ دین کے احکام کا
ایک چوتھائی حصہ عبادات سے متعلق ہے اس کے برخلاف تین چوتھائی دین ہمارے
معاملات پر منحصر ہیں مگر لوگوں سے ہمارے معاملات بالکلیہ طور پر خراب اور
گندے ہوچکے ہیں۔واحد اسی وجہ سے آج ہم ذلیل وخوار ہوئے جارہے ہیں۔ کیونکہ
معاملات(لین دین، حرام حلال،جائز نہ جائز۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔) اچھے نہ ہونے
کی بنیاد پر ہماری عبادات بھلے ہی ادا ہوجائیں مگر ان سے اثر جاتا رہے
گا۔دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔ایک حدیث میں سرکار دوجہاں نے ارشاد فرمایاجس
کا مفہوم ہے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے سامنے بڑی عاجزی کا
مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں اس حال میں ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ گڑگڑا کر اور
رورو کر پکارتے ہیں ،لیکن ان کا کھانا حرام پینا حرام لباس حرام،پڑوسیوں سے
تعلقات خراب،گھروں میں نا اتفاقیاں،والدین سے جھگڑے،وغیرہ وغیرہ تو پھر
ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے۔؟
بندے کے اﷲ کے ساتھ معاملات کو اﷲ پورا نہ کرنے پر معاف بھی کرسکتے ہیں مگر
بندوں کے بندوں کے ساتھ معاملات کو اﷲ اس وقت تک معاف نہیں کریں گے جب تک
مظلوم خود اسے معاف نہ کردیں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد
فرمایا:جس کا مفہوم ہے۔
’’جس کسی نے اپنے کسی بھائی کے ساتھ ظلم زیادتی کی ہو، اس کی آبرو ریزی کی
ہو یا کسی اور معاملہ میں حق تلفی کی ہو تو اس کو چاہئے کہ آج ہی اور اسی
زندگی میں اس سے معاملہ صاف کرا لے، آخرت کے اس دن سے آنے سے پہلے جب اس کے
پاس ادا کرنے کے لئے دینار درہم کچھ بھی نہ ہو گا۔ اگر اس کے پاس اعمال
صالحہ ہوں گے تو اس کے ظلم کے بقدر مظلوم کو دلا دیئے جائیں گے، اور اگر وہ
نیکیوں سے بھی خالی ہاتھ ہو گا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاد دیئے جائیں
گے(اور اس طرح انصاف کا تقاضا پورا کیا جائے گا)۔
’’اعمال نامے (جن میں بندوں کے گناہ لکھے گئے ہیں) مختلف قسم کے ہیں۔ ایک
وہ جن کی ہر گز معافی نہ ہو گی، وہ ’’شرک‘‘ہے قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے
اعلان فرمایا دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ شرک کا گناہ ہر گز نہیں بخشے گا۔ اور ایک
وہ جس کو اﷲ تعالیٰ انصاف کے بغیر ہر گز نہ چھوڑے گا۔ اور ایک اعمال نامہ
وہ ہوگا جس کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں اہمیت اور پرواہ نہیں، یہ بندوں کے وہ
مظالم اور کوتاہیاں ہیں جن کا تعلق بس ان سے ہے اور ان کے اﷲ سے ہے، ان کے
بارے میں فیصلہ بس اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو
بالکل معاف کردے۔
بہر کیف حقوق العباد کا معاملہ اس لحاظ سے بہت زیادہ سنگین اور قابل فکر ہے
کہ اس کا فیصلہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ وہ بندوں سے ہی
متعلق ہے اور ان کا حال معلوم ہے۔
پھر حقوق العباد سے متعلق آپ کی تعلیم و ہدایت کے بھی دو حصے ہیں، ایک وہ
جس کا تعلق معاشرتی آداب و احکام سے ہے۔ مثلاً یہ کہ ماں باپ کا اولاد کے
ساتھ ، اولاد کا ماں باپ کے ساتھ، بیوی کا شوہر اور شوہر کا بیوی کے ساتھ،
قریب و بعید کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ ، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ
، نوکروں، ما تحتوں کے ساتھ، خاص کر کمزوروں کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا
برتاؤ ہونا چاہئے۔ اسی طرح اس میں ملنے جلنے، ہنسنے، بولنے، کھانے، پینے،
اٹھنے بیٹھنے، شادی بیاہ اور خوشی و غم کے موقعوں پر کن احکام اور آداب کی
پابندی کرنی چاہئے۔ دین کے اس حصہ کا جامع عنوان معاشرت ہے۔
رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ دیوالیہ اور مفلس کون ہے؟
لوگوں نے کہا’’ مفلس ہمارے یہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور
نہ کوئی سامان ‘‘۔۔۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے
جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اﷲ کے پاس حاضر ہوگا اور
اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،
کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان
تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم
ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی
جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا ( حضرت ابو
ہریرہ ، مسلم )
اس حدیث سے سیدھے سیدھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے معاملات دوسروں کے
ساتھ کیسے ہونے چاہئیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم لوگوں کی قدر و منزلت اور حیثیت و
عِزت کا اظہارکیجئے،دوسرے شخص کو احساس دلایے کہ آپ اس کا بہت خیال رکھتے
ہیں ، لوگوں سے اپنی محبت کو چھپایے نہیں ، بلکہ اس کا اظہار کیجیے ، لوگوں
کے ساتھ ان کی دلچسپی والے معاملات کے بارے میں بات چیت کیجیے ، لوگوں کے
ساتھ احسان یعنی نرمی ، آسانی، اور سہولت کے ساتھ معاملات مکمل کیجیے ،
لوگوں کی اچھائی ، اچھے کاموں اور اچھی صِفات کی تعریف کیجیے ،شرعی حدود
میں رہتے ہوئے ، دوسروں کی اچھائی ، اچھے کاموں اور اچھی صِفات کی تعریف
کرنا بھی معاملات کی مثبت طور پر تکمیل میں مددگار ہوتا ہے ، لوگوں کی
برائیوں ، کمزوریوں اور عیب کی کھوج میں مت رہیے ، بلکہ اپنی ذات کا محاسبہ
کرتے ہوئے اس میں پائی جانے والی برائیاں ، کمزوریاں اور عیب دور کرنے کی
کوشش کیجیے ،اپنی حقیقت ، اور اپنے عیوب پہچانتے رہیے ، اور اﷲ کی
خاطراِنکساری والا رویہ اپنائے رہیے۔جو اﷲ کی خاطر ، دوسروں کے ساتھ
اِنکساری والا رویہ رکھتا ہے ، تو اﷲ جلّ جلالہ اس رویے کے ذریعے اِنکساری
اختیار کرنے والے کودنیا اور آخرت میں بلند عِزت اور اعلی قدر و منزلت عطاء
فرماتا ہے ، دوسروں کی بات کو نہ کاٹنے ، کم بولنے ، اور خاموش رہنے کا فن
سیکھیے اور اس کے مطابق عمل کیجیے، کیونکہ عام طور یہ ہی ہوتا ہے کہ لوگ اس
شخص کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو ان کی بات توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے ، اور
جب وہ بولتا ہے تو وہی لوگ آس کی بات کو بھی توجہ سے سنتے ہیں اور اس کی
بات کی ان کے ہاں اچھی قدر و قیمت ہوتی ہے ،اپنے عِلم ، معرفت اور مہارات
میں اضافہ کیجیے اور زندگی کے ہر میدان عمل میں دوست بنایئے، شرعی حدود میں
رہتے ہوئے دوسروں کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کیجیے۔ اپنے قول اور فعل کو
واضح رکھیے،جی ہاں ،حتی الامکان کوشش کرتے رہیے کہ آپ اپنے تمام معاملات
میں اپنی ہر بات ، اپنے ہر کام کو بالکل صاف اور واضح رکھ سکیں ، کہیں کچھ
ایسا نہ ہونے پائے جِس کی وجہ سے آپ کے اور دوسروں کے درمیان غلط فہمیاں
ہونے لگیں ، یا لوگ آپ کو ایک سے زیادہ چہرے والا شخص سمجھنے لگیں ، اپنے
وعدوں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے،اپنی ضرورت ، اپنے معاملات کو
پورا کروانے کے لیے سختی مت کیجیے،جِس کسی سے بھی آپ اپنی کوئی ضرورت پوری
کروانا چاہتے ہوں ، کوئی معاملہ نمٹانا چاہتے ہوں ، اس کے ساتھ سختی والا
رویہ مت اپنایے ، اور ایسا کوئی انداز نہیں اپنایے جس کی وجہ سے اسے یہ
احساس ہو کہ اگر وہ آپ کا کام مکمل کرنے سے معذور رہا تو آپ اس کا جائز اور
سچا عذر بھی قبول نہیں کریں گے ،اپنے معاملات مکمل ہونے کے بعد بھی لوگوں
سے ربط میں رہیے،جب آپ کسی کے ساتھ کوئی معاملہ مکمل کر چکیں ، تو اسے اپنی
زندگی سے نکال مت پھینکیے ، بلکہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی طور ربط رکھیے ، تا
کہ لوگ آپ کو مطلب پرست نہ سمجھیں ،اور مستقبل میں بھی ان کے ساتھ کسی کام
کے پیش آنے کی صورت میں وہ آپ کے ساتھ اچھے طور پر معاملہ کریں، لوگوں سے
مناسب حد تک اورمناسب اوقات اور انداز میں میل ملاقات اپنایے۔جب آپ کسی سے
بالمشافہ ملاقات کریں ، یا فون وغیرہ پر بات کریں تو خصوصی خیال رکھیں کہ
وہ وقت اس دوسرے شخص کے لیے مشغولیت والا نہ ہو ، اور نہ ہی آپ اس کا زیادہ
وقت لیں ، اور نہ ہی کسی بھی انداز میں آپ اس کے لیے کسی پریشانی کا سبب
بنیں ، بناوٹی اور بد تہذیبی والے انداز میں بات چیت مت کیجیے۔دوسروں سے
بات چیت کرتے ہوئے اپنے فطری انداز میں بات چیت کیجیے ، ایسے انداز و اطوار
مت اپنایے جو بناوٹی محسوس ہوں ، کہ اِس طرح آپ کی شخصیت کا کوئی اچھا اثر
مرتب نہیں ہوگا، جی ہاں یہ خیال ضرور رکھیے کہ آپ کے انداز میں کچھ ایسا نہ
ہو جو دوسروں کو تکلیف یا بے عِزتی کا احساس دلوانے والا ہو ، مذاق والی
بات کو دوسرے سے تعلق اور اس کے رتبے کی حدود میں رکھیے ، ہر شخص کے ساتھ
آپ کے رشتے اورتعلق کے مطابق مشاورت رکھیے، اپنے معاملات کے بارے میں لوگوں
کے ساتھ ، آپ کے رشتے ، اور تعلق کے مطابق مشورہ کیا کیجیے ، ایسا کرنا کسی
بھی رشتے اور تعلق کو آپ کے ہاں اہمیت کا احساس دلانے کے ایک موثر ذریعہ ہے
، جس کے اِن شاء اﷲ عموماً بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں ، اور بہت سے رشتہ دار
اور تعلق دار پہچاننے میں بھی مدد ملتی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اﷲ جلّ جلالہ
کب کس کو ہدایت عطاء فرماتا ہے اور کب کس کو گمراہی پر ہی چھوڑ دیتا
ہے۔لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جب ہمارے اپنے دینی وایمانی بھائیو ں
اور سگوں کے درمیان معاملات اتنے خراب ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن بنے
ہوئے ہیں جب اپنے معاملات اپنوں کے ساتھ ایسے ہیں تو دوسروں (برادران
وطن)تک ہم دین اور اسلام کی بات کب اور کیسے پہنچائیں گے۔اور اگر اکثر لوگ
آپ کو ایسے ملیں گے تو جذباتی طور پر پوری دنیا میں دین اسلام پھیلانے کی
بات کریں گے مگر ان کے گھر کا حال اگر آپ دیکھیں گے تواستغفار کی کثریت
کرنے لگیں گے۔ ہم عبادات میں اتنے زیادہ مصروف ہوگئے ہیں کہ گھر کی بچی
بھاگ رہی ہے، گناہوں کو ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں او رہم سکت وقدرت رکھنے کے
باوجوداسے روکنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔گھروں میں بھائی کی بھائی سے،بہن کی
بھائی سے،ساس کی بہو سے،نندوں کی بھاوجوں سے نہیں بن رہی ہیاور پھر
دیندارہونے کا ’’ٹھپہ‘‘ہم نے لگا رکھا ہے۔
بہر کیف نکتہ کی بات میں آپ تک یہ پہنچانا چاہ رہا تھا کہ اس ملک میں تین
طرح کے غیر مسلم آباد ہیں۔ ایک وہ جو آپ کے دشمن ہیں وہ آپ کو معاف نہیں
کریں گے ان کی تعداد۱۳؍تا۱۵؍کروڑ ہیں۔ دوسرے وہ جو آپ کے دوست ہیں وہ
۱۸؍تا۲۰؍ کروڑ ہیں اور تیسرے وہ جوخاموش ہیں نہ دوست ہیں اور نہ دشمن ان کی
تعداد تقریباً۶۰ کروڑ ہیں۔ اب ان خاموش۶۰ کروڑ افراد کو مسلمانوں کے خلاف
کھڑا کیا جارہا ہے اور ساری مسلم جماعتیں اور تنظمیں دفاع میں لگی ہوئی ہیں
لیکن ان تک ایمان پہنچانے میں کوئی توجہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بس
ضرورت ہے کہ ہم آج اپنے اخلاق وکردار پر محنت کرایک اچھے معاشرے کی بنیاد
ڈالیں سب مسلمان اچھے ہوجائیں گے کیوں کہ گھروں ہی سے محلے ،سوسائٹیاں،
بستیاں، آبادیاں، گاؤں،شہر،صوبے اور ملک بنتے ہیں اور آباد ہوتے ہیں۔گھر
اینٹ اور بنیاد کی مانند ہیاگر ہمارے گھر درست ہوگئے تو پھر ہمارہ معاشرہ
ماحول اور سوسائٹی بھی درست ہوجائے گی۔
میں دعا کرتا ہوں اﷲ تبارک وتعالیٰ سے کہ ہم سب کو خیر سیکھنے ، اور آس کے
مطابق عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،ہمارے اندرونی وبیرونی تمام معاملات
میں اخلاص وﷲیت عطا کریں۔ہماری انا کو ختم کرایک دوسرے کی عزت کرنے،ستاری
کا معاملہ کرتے ہوئے درگذر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
انشاء اﷲ پھر ملاقات ہوگی۔۔۔ زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔۔۔اﷲ حافظ۔۔
|
|