کشمیر میں انقلاب، آر یا پار کا عزم

سرتاج عزیز منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ سفارتی رموز بھی جانتے ہیں۔ 12اکتوبر 1999کو جب نواز شریف کی حکومت برطرف کی گئی، وہ وزیر خارجہ تھے۔مشاہد حسین سید، خورشید محمود قصوری، انعام الحق، حنا ربانی کھر، گوہر ایوب خان، عبد الستارسابق وزرائے خارجہ سے مشاورت کی جانب توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ہمایوں خان، تنویر احمد خان، شہر یار خان، نجم الدین شیخ، شمشاد احمد، ریاض کھوکھر، ریاض محمد خان، سلمان بشیر اور جلیل عباس جیلانی جیسے سابق سیکریٹری خارجہ کے ساتھ بھی کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔ کوئی بھی خود کوعقل کل نہیں سمجھ سکتا۔مشاورت اور تجربات سے استفادہ کی اپنی اہمیت ہے۔ سابق وزرائے خارجہ اور سیکریٹری خارجہ ، بھارت اور دنیا کے اہم ممالک میں سفارتی خدمات انجام دینے والوں کی کانفرنس طلب کی جا سکتی ہے۔ ان کی تجاویزاور تجربات ملکی خارجہ پالیسی میں کافی حد تک بہتری لانے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر مسلہ کشمیر پر ان کی آراء کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے دور میں اپنی بساط کے مطابق پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے حوالے سے کام کیا ہے۔ یہ سب لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمعکر دیئے جائیں تو ان کی خدمات ملک و قوم کے مفاد میں بروئے کار لائی جا سکتی ہیں۔ یہ فریضہ وزیراعظم کی ہدایت پر دفتر خارجہ ادا کر سکتاہے۔ کشمیر کو اس کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر سرتاج عزیزاور اعزازاحمد چوہدری کو اس سلسلے میں فوری توجہ دیں تو کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی دنیا کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہے۔ خارجہ امور میں آج کی عزیز ، اعزاز جوڑی کی زرا سی دلچسپی کار آمد ثابت ہو گی۔

کشمیر میں35ایام سے مسلسل زندگی کا پیہہ جام ہو چکا ہے۔ کارابار زندگی معطل ہے۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ دور دراز کے دیہات میں بھی لوگ غم و غصے میں ہیں۔ دیہات میڈیا کی نظروں سے دور ہیں۔ لیکن عوام کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں ہے کہ ان کی آواز کہاں تک پہنچتی ہے۔ وہ اپنے کام سے کا م رکھے ہوئے ہیں۔ بازار،بستیاں ویران اور سنسان ہیں۔کاروبار، ٹرانسپورٹ بند ہے۔ تعلیمی ادارے ، سرکاری دفاتر بھی بند ہیں۔ دن رات کرفیو ہے۔ دہلی کی آل پارٹی کانفرنس میں رات کے کرفیو کو جاری رکھنے پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ اس کی تاویل یہ دی گئی کہ کشمیری خواتین رات کو سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کر رہی ہیں۔ جگہ جگہ مشعل بردار جلوس نکل رہے ہیں۔ مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے آزادی کے ترانے بج رہے ہیں۔ یا بھارت کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ بھارتی فورسز ہر روز ایک سے سے زیادہ افراد کو فائرنگ اور پیلٹ گولیوں کا شکار بنا رہی ہے۔ لوگ ماتمی جلوس نکال رہے ہیں۔ کرفیو، بندشیں، موبائل اور انٹرنیٹ نیٹ ورک جام کئے گئے ہیں۔فورسز اب گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مگر عوام استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ رضاکارانہ خدمت میں تیزی لا رہے ہیں۔ تاجر ، ٹرانسپورٹر، ٹھیکدار، مل مالکان، ادویات فروش، قلمکار،ادیب، میڈیا، فروٹ تاجر، ہاؤس بوٹ وہوٹل مالکان غرض ہر کشمیری موجودہ جدوجہد میں پیش پیش ہے۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے تو کمال کر دیا ہے۔ وہ رات دن وادی بھر کے ہسپتالوں اور نجی کلنکوں پر ہزاروں زخمیوں کا مفت علاج کر رہے ہیں۔ تا ہم وادی میں تعلیمی سرگرمیاں مفلوج ہونے سے بچوں کے مستقبل ے بارے میں لوگ فکر مند ہیں۔ اس بارے میں وادی کے ماہرین تعلیم اور اساتذہ کرام سے خصوصی توجہ کی امید لگائی جا رہی ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے بارے میں کوئی حل تلاش کیا جا نا چاہیئے۔ وادی میں ادویات اور خاص کر حیات بخش ادویات کی شدیدقلت ہے۔ پاکستان ڈاکٹروں کی ٹیمیں خاص طور پر آنکھوں کے ڈاکٹر اور ادویات مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے لئے سفارتی کوششیں تیز کرے ۔ دہلی حکومت دنیا کو حقائق سے بے خبر رکھنا چاہتی ہے، اس نے میڈیا پر سنسر لگا رکھی ہے۔ بھارتی میڈیا تعصب اور جھوٹ پر مبنی رپورٹیں دکھا کر بھارتی اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہا ہے۔ بھارت عالمی غیر جانبدار اداروں کو وادی میں داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ کم از کم داکٹر اور ادویات وادی میں داخلے کی اجازت دے۔

سمند پار کشمیری لندن، واشنگٹن، برسلز، پیرس، سنگا پور، دوبئی سمیت دنیا بھر میں موجود ہیں۔ بھارت اگر پاکستان سے امداد وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا، تو دیگر دنیا سے ہنگامی امداد وادی میں داخلے کے لئے دہلی پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ تارکین وطن کی خدمات آج کام آ سکتی ہیں۔ ضرورت اس تمام عمل کو منظم اور متحد کرنے کی ہے۔ یہ پلیٹ فارم پاکستان ہی فراہم کر سکتا ہے۔

کشمیر کا زیادہ دیر تک بھارت کی غلامی میں رہنا پاکستان کے مفاد کے منافی ہے۔آج ایک اہم موقع ہے۔ عوام بھر پور طور پر ایجی ٹیشن کر رہے ہیں۔ بھارتی دہشت گردی اور قتل عام بھی بڑھ رہا ہے۔ آج یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو اس کی ساری ذمہ داری نواز شریف حکومت پر عائد ہو گی۔ یہ موقع شاید پھر کبھی میسر نہ آئے۔ اس لئے پاکستان کشمیر کے بارے میں فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرے۔ ابھی تک کوئی اے پی سی، سفارتی مہم، بیرونی سفارتکاروں کے لئے بریفنگ یا ان کا کشمیر کی جنگ بندی لائن کا دورہ کرانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سرتاج عزیزصاحب جیسے تجربہ کار سیاستدان سے یہ توقع نہیں کی وہ اور ان کی بصیرت ایسے وقت میں خواب میں چلی جائے گی جب بیداری ار متحرک ہونے کی شدید ضروت ہے۔ خارجہ معاملات کے سابق سینئر شخصیات سے فوری مستفید ہونا چاہیئے۔ بھارت بھی آزادی کی سترویں سالگرہ منا رہا ہے۔مودی کی ہدایت پر سیاستدان ترنگا یاترا کر رہے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے فریڈم فائٹرس کی جائے پیدائش پر جا رہے ہیں۔ انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔

’’ذرا یاد کرو قربانی‘‘ کا نعرہ لگا کر مودی حکومت اپنے شہداء کو یا د کر رہی ہے۔مگراپنی آزادی کے جوش میں کشمیریوں کی آزادی سلب کر رہی ہے۔یہ بھارت کے فریڈم فائٹرس کے مشن کی خلف ورزی ہے۔انہوں نے ایک قوم کی آزادی کے لئے جان دی۔ آج کے بھارتی حکمران ایک قوم کو غلام بنانے کے لئے قتل عام کر رہے ہیں۔ مگر وقت آئے گا جب کشمیری بھی آزادی کا سانس لیں گے۔ وہ بھی ایک دن ضرور کامیاب ہوں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ کون آزادی کی اس جدو جہد میں اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں کا عملی ساتھ دیتا ہے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484027 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More