ہندستان اور ہندستانی کیا واقعی آزاد ہیں؟
(Nadeem Ahmed Ansari, India)
15اگست کو ہندستان میں ’یومِ آزادی‘ کے
طور پر منایا جاتا ہے، اس لیے کہ اسی دن ملک کو فرنگیوں کے شکنجے سے آزادی
ملی تھی لیکن آج ہر حساس دل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا تقریباً ستر
(70)سال گزر جانے پر بھی ہندستان اور ہندستانی واقعی آزاد ہیں؟ مختلف طور
پر طویل جنگِ آزادی کے بعد ملک سے انگریزوں کو تونکال باہر کر دیا گیالیکن
کیا ان کی سی چال بازیاں اور پست سیاست کرنے والوں سے ملک اور اس کے باسیوں
کو آج تک آزادی مل سکی ہے؟اگر ایسا نہیں تو کیا اس دن کو محض ایک تہوار
یا رسم کے طور پر منالینا کو کافی ہے؟ جس ملک میں اشیاے خوردنی تک کی
آزادی نہ ہو، جس ملک میں غیر ضروری اور غیر اہم باتوں پر پارلیمنٹ میں بے
جا بحثوں میں وقت صَرف کیا جاتا ہو، جس ملک میں صرف وعدوں کے بَل پر حکومت
قائم کی جاتی ہو، جس ملک میں اقلیتوں پر جانوروں کو ترجیح دی جاتی ہو۔۔۔اس
ملک میں یومِ آزادی منانا چہ معنی دارد؟
ماضی قریب کے ایک عظیم مؤرخ و مفکرِ اسلام مولانا علی میاں ندوی نے ایک
عرصے قبل اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہمارے ملک کی جو حالت ہو
رہی ہے اور خاص طور پر (6؍دسمبر کے بعد سے) ہندستان کے کئی بڑے بڑے شہروں
میں اپنے ہم وطنوں اور ملکی بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، جس سفاکی اور
بے دردی کے ساتھ ہزاروں آدمیوں کا خون بہایا گیا، گھر اور دکانیں لوٹی
گئیں اور جلائی گئیں ، عورتوں کی بے عزتی کی گئی، بچوں کو مٹی کے برتنوں کی
طرح توڑا اور خاک میں ملا دیا گیا، کروڑوں اور اربوں کا سرمایہ لوٹا گیا
اور ضائع کیا گیا، میدانِ جنگ کی طرح خوف و ہراس کی فضا باغ و بہار شہروں
اور تماشا گاہ بستیوں پر ہفتوں طاری رہی، اس نے ملک کو ایک ایسی منزل پر
کھڑا کر دیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد غلامی کے دور کو یاد کرنے لگی اور
اس زمانے کو نہ صرف ترجیح دینے لگی، بلکہ اس کی آرزو کرنے لگی جب ملک میں
ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا، عزتیں اور عصمتیں محفوظ تھیں ، بچوں پر
کوئی بری نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا، ساری خرابیوں اور بد کرداریوں کے ساتھ
اور اس حقیقت کے ساتھ کہ سات سمندر پار کے رہنے والے انگریزوں کو اس ملک پر
حکومت کرنے کا ہرگز حق نہ تھا اور وہ ایک بدیسی راج تھا جو یہاں سے دولت
حاصل کر کے اپنے ملک کو منتقل کرتا تھا، عام شہریوں کو اس کا اطمینان تھا
کہ وہ محفوظ ہیں ، پولیس اور فوج ڈرنے کی چیز نہیں تھی، وہ کرایے کے ٹٹو
تھے اور بدیسی حکومت کے غلام، لیکن ان میں اپنے ہم مذہبوں اور اپنی ذات
برادری کی حمایت و ترجیح کا جذبہ نہیں تھا، وہ امنِ عامہ اور تحفظ کا اپنے
کو ذمّے دار سمجھتے تھے، اس سے زیادہ اس دور اور اس دور کے حاکموں کی تعریف
اور اعتراف میں کہنا اپنی غیرت و ضمیر کو گوارا نہیں ، اور یہ بھی جو کچھ
کہا گیا وہ بھی دل پر جبر کر کے کہا گیا۔اس سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں کی
مختلف قومیں اور مذاہب اپنے عقیدے اور مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت
(Religion and culture) کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کو اپنی آئندہ نسل
تک منتقل کرنے اور اس کے مطابق تعلیم گاہیں ، مکاتب و مدارس قائم کرنے ،
اپنی زبان میں لکھنے پڑھنے میں آزاد تھے، ان پر کوئی علم الاصنام
(Mythology) مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، اس وقت انگریزی کی ریڈروں
اور نصابِ تعلیم (Curriculum)میں جانوروں کے قصے، کتے بلی کی حکایتیں اور
تصویریںیا عالمی تاریخی شخصیتوں (Historical Personalities) کے قصے اور ان
کا تعارف ہوتا، لیکن عیسائی مذہب (Christianity) کے حضرت عیسیؑ کے بارے میں
، عقیدۂ تثلیث (Trinity)یا صلیب (Cross)کی تصویر و تقدیس کی دعوت نہیں
ہوتی تھی، اس لیے جن لوگوں کو مذہب سب سے زیادہ عزیز تھا، ان کو اس معاملے
میں کوئی بڑی تشویش نہ تھی، صرف مغربی تہذیب و معاشرت، مغربی فیشن اور
مغربی تخیلات و معیار اور کسی کسی وقت مذہبی آزادی ، الحاد اور بے راہ روی
کا ڈر رہتا تھا۔اھدہوں قبل مولانا علی میاں نے اتنی گہری بات کہی، ہم سوچتے
ہیں کہ اگر موصوف آج ہمارے درمیاں موجود ہوتے تو کیا کہتے؟ ان کے بعد اور
فی زمانہ ہندستان کی جو درگت بنی ہے، اس پر سچ کہیں تو ہم جیسوں کا کچھ
کہنا اور لکھنا ہی محال ہو گیا ہے۔اس لیے کہ ایوان میں بیٹھنے والوں کو
اپنی کرسی اورپارٹی کے سوا سب کچھ ہچ نظر آتا ہے۔ دنگے، فسادات،
کالابازاری، ظلم و استبداد کے واقعات پر ان کی توجہ ہی مرکوز نہیں ہوتی اور
اگر براے نام ہوتی ہے تو اس پر محض بیان بازی کرکے پلّہ جھاڑنے کی کوشش کی
جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست میں تقریباً ایسا کوئی اہم چہرہ نظر
نہیں آتا جس پر اعتماد کیا جا سکے اور جس کے اخلاص کی گواہی عوام دے سکے۔
ممکن ہے یہ بات کچھ بڑی کہہ دی ہو، لیکن یہ ہماری مجبوری تھی، اس لیے کہ اب
ایسی باتیں کہنے کا رواج نہیں رہا کیوں کہ اب تو وطنِ عزیز میں حالاتِ
حاضرہ پر تبصرہ کرنا اور آپ بیتی تک سپردِ قلم کرنا جرم گر دانا جاتا
ہے۔یہ ایک عام سی بات ہو گئی ہے کہ بلا تفتیش و ثبوت کے اہم شخصیات کو
سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے، ان پر مقدمے چلائے جاتے ہیں، جس میں ان
مدتوں ان کی شنوائی تک نہیں ہوتی۔یہ اس پر ہے کہ ہمارے آئین میں درجِ ذیل
مستقل دفعات موجود ہیں؛[دفعہ 19]تمام شہریوں کو حق حاصل ہوگا (الف)تقریر
اور اظہار کی آزادی کا (ب)امن پسندانہ طریقے سے اور بغیر ہتھیاروں کے جمع
ہونے کا (ج) انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا (د) بھارت کے سارے علاقے میں
آزادنہ نقل و حرکت کرنے کا (ہ)بھارت کے کسی علاقے کے کسی حصّے میں بود و
باش کرنے اور بس جانے کا وغیرہ۔اسی آئین کی دفعہ 25کے مطابق امنِ عامہ،
اخلاقِ عامہ، صحتِ عامہ اور اس حصّے کی دیگر توضیعات کے تابع تمام اشخاص کو
آزادیِ ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ
کرنے کا مساوی حق ہے۔لیکن اس قدر واضح دفعات کے باوجود ملک میں چل پھر کر
دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ شہریوں میں ان مسائل کو لے کر خوف و حراس غالب
ہے، جس کی وجہ عامۃً یہ ہے کہ انھوں بہ چشمِ خود آئین کی دھجیاں اڑاتے
ہوئے قانون کے رکھ والوں کو دیکھا ہے۔
اس بے ربط تحریر کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا اس صورتِ حال میں مخصوص
مقامات پر محض ترنگا لہرانے، سڑکوں یا اسکولوں میں پریڈ کرنے،جلوس نکالنے،
آزادی کے چند فلمی گیت سننے یا گنگنانے یا چہروں و کپڑوں وغیرہ پر ترنگا
بنوا لینے سے آزادی کی حقیقی خوشیاں حاصل ہو سکتی ہیں؟ جو بے قصور سالہا
سال سے قید و بند میں محبوس ہیں اور جو لوگ ناجائز مقدمات میں پھنسے ہوئے
ہیں، کوئی تو بتائے کہ انھیں آزادی کب ملے گی؟جن عورتوں کی عصمتیں تار تار
کر دی گئیں اور مجرم بے مہار گھوم رہے ہیں، انھیں اس کرب سے آزادی کب ملے
گی؟ جانوروں کی حفاظت کے نام پر جو لوگ آتنک پھیلانے اور اقلیتوں کو خوف
زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان سے سماج کو کب آزادی ملے گی؟
ایسا نہیں کہ ہم یومِ آزادی منانے کے مخالف ہیں،آزادی کی خوشیاں تو ہم
بھی منانا چاہتے ہیں لیکن اس آزادی کی جو حقیقت ہو سراب نہ ہو۔ ہمیں لگتا
ہے کہ جب ملک وعدہ خلاف سیاست دانوں سے، بھوک سے، مہنگائی سے، آتنک واد سے،
ظلم و جبر سے، کالابازاری سے،فرقہ پرستی سے، جات پات سے، رنگ و نسل سے نیز
ہر قسم کے تعصب سے آزاد ہوگا، ہندستان اور ہندستانی اسی وقت صحیح معنوں
میں آزاد قرار پائیں گے اور وہی دن در حقیقت ’یومِ آزادی‘ منائے جانے کے
قابل ہوگا!! |
|