قُرعہ پاکستان کے نام:
60ء کی دہائی کا اختتام اور 70 ء کی دہائی کا آغاز جدید دُنیا کی اصطلاح سے
منسلک نظر آنے لگا۔ گزشتہ ایک صدی سے حیرت انگیز (طلسماتی) ایجادات و
دریافت پر مزید تجربات کر کے جدت پیدا کی جا رہی تھی۔ اسکے علاوہ نئی نئی
ایجادات کا دور دورہ تھا ۔ خلائی سفر ، چاند پر قدم رکھنا جیسے کارنامے لوگ
دیکھ کر حیرت زدہ بھی تھے اور سٹیلائٹ سسٹم کے فوائد بھی جاننے کی کوشش میں
تھے۔ دُور کہیں کمپیوٹر کا لٖفظ بھی سُنائی دے رہا تھا۔ اِن اشیاء کی جدت
دُنیا کو نئے رنگ میں رنگ رہی تھی۔ لیکن یہ سوال کوئی تلاش نہیں کر رہا تھا
کہ یہ کر کون رہے ہیں ؟ کن میں اتنی صلاحیت آ گئی ہے کہ اُن کی ہر ایجاد و
دریافت بلکہ اُن کا تعلیمی نصاب بھی ہر ملک کی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔
اگلے چند سال میں ہی مسلم ممالک کے واقعی کچھ ایسے لیڈر سامنے آئے جو جان
چُکے تھے کہ جدید دُنیا میں اِن سب چیزوں کی اہمیت و افادیت سے اِنکا ر
نہیں ۔ لیکن تیل جیسی جو نعمت ہم مسلمانوں کے پاس ہے اُس کے بغیر اُن
طاقتوں کے معاملات بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ میں وہ دولت جو ہم مسلم
ممالک اِن کو تیل بیچ کر اُن سے وصول کر تے ہیں وہ رقوم جمع تو اِنکے بنکوں
میں ہی ہوتی ہیں۔ کیوں نہ اسکے لیئے ایک مسلم بلاک کا بنک قائم کیا جائے
تاکہ اُن رقوم سے مسلم دُنیا میں ترقی کی نئی راہیں کھولی جائیں۔
آخری اور سب سے اہم معاملہ تھا ایٹمی طاقت۔ کیونکہ وہْ تمام ممالک جو ایٹمی
طاقتیں کہلا رہی تھیں وہ سب غیر مسلم تھیں۔ یہاں تجزیہ نگار شاید کا لفظ
استعمال کرتے ہوئے اس کو ایک خفیہ سوچ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا بھی کوئی سوال
ہوا تو ہو گا۔ مطلب یہ کہ اسلامی ممالک یہ صلاحیت کیسے حاصل کر کے ایٹمی
طاقت کہلا سکتے ہیں اور کونسا ملک اس کیلئے قدم آگے بڑھائے گا ؟ شاید قُرعہ
پاکستان کے نام نِکلا ہو گا۔
فرانس و پاکستان:
دوسری مسلم سربراہی کانفرنس فروری 1974 ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں
منعقد ہوئی اور اُس میں جس دِلچسپی سے مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی
اور مسلم اُمہ کا واقعی جو جوڑ دیکھنے کو مِلا سب حیران رہ گئے۔ فیصلے ہو
گئے ، حکمتِ عملی کی تیاری اولین بنیادوں پر کرنا تھی کیونکہ آگے ہی بہت
دیر ہو چکی تھی۔ اس ہی دوران بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ 18ِ مئی
1974ء کو پوکھران، راجستان کے مقام پر زیرِ زمین کیا تو اس سے ایک اور
نومسلم ملک کو ایٹمی طاقت بننے کا موقع مل گیا ۔ اُمتِ مسلمہ اور پاکستان
کو اپنے دفاع کی تشویش لاحق ہوئی۔ لہذا اُس وقت کے وزیرِ اعظم پاکستان
ذوالفقار علی بھٹو کی تائید سے حکومتِ پاکستان نے فرانس سے رابطہ کیا۔
فرانس پہلے ہی امریکہ اور نیٹو سے نالاں تھا۔ حکومتِ پاکستان نے اس کا
فائدہ اُٹھاتے ہوئے دسمبر 1976ء میں فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ
خریدنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس پر مغربی ممالک ، امریکہ، بھارت اور روس نے
فرانس پر زور دیا کہ وہ ایسا نہ کرے لیکن اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان
کامیابی حاصل کر چکی تھی۔ |