خدمت خلق

رسول پاکؐ نے فرمایا’’کمزور بے شوہر والی عورت اور محتاج و نادر شخص کی مدد کیلیے دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اﷲ کی راہ میں سرگرمی دکھاتا ہے۔

کسی قوم کے زندہ قوم کہلانے کی سب سے بڑی دلیل یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس کے افراد کے دل انسان دوستی کے بلند ترین جذبات سے مامور ہوں اور اس کے یہی جذبات اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی ایک دلیل کی حیثیت رکھتے ہوں کہ وہ قوم دنیا کی قیادت کا حق رکھتی ہے یا نہیں۔ در حقیقت افراد اور قوموں کے درمیان برتری اور افضیلت کا فیصلہ بھی انہیں آثار کے مطابق ہوتا ہے جو وہ اس میدان میں چھوڑتی ہیں۔ اسلام قدرت رکھنے والے ہر شخص کو خیر کی طرف دعوت اس طرح دیتا ہے کہ ایک مالدار ، غریب، مزدور ، تاجر،زمیندار،شاگرد، استاد، عورت، مرد، بوڑھا ، اندھا کمزور بھی نیکی کا کام کر سکتا ہے۔اور اس کے مالی حالات معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے کام کرنے میں اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں بنتے۔ اسلام میں ایسا کوئی انسان نہیں پایا جاتا جو کسی نہ کسی طرح سے بھلائی کا کام نہ کر سکتا ہو۔ہر انسان اپنی حیثیت کے مطابق خیر و فلاح کے کام کر سکتا ہے۔ مالدار اپنے مال اور رتبے کے ذریے خیر کا کام کرے گا۔ غریب تو اُسے چاہیے کہ وہ یہ کام اپنے ہاتھ،اپنے دل اور اپنی زبان سے کرے۔ حضور پاکؐ کے زمانے میں بعض ناداروں نے آپؐ سے شکایت کی کہ مالدار لوگ نیکی کے میدان میں اُن سے آگے بڑھ گے ہیں کیونکہ وہ اپنی دولت کو رفاعامہ اور نیکی کے کاموں میں خرچ کر رہے ہیں اور نادروں کے پاس کوئی چیز نہیں جو وہ صدقہ میں دے دیں۔ ان کے سامنے حضور پاکؐ نے اس بات کی وضاحت کی کہ نیکی کے کام ذریعہ صرف مال ہی نہیں ہے بلکہ ہروہ کام صدقہ اور بھلائی کا کام ہے جس سے انسان کو فائدہ پہنچے۔حضور ؐ نے فرمایا جو تم ایک دفعہ اﷲ کی تسبح کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، کسی کو بھلائی کا حکم دینا بھی صدقہ ہے، بُرائی سے روکنا بھی صدقہ ہے، راستے میں تکلیف دینے والی چیزوں کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے، دو آدمیوں میں صلح کرا دینا بھی صدقہ ہے،اور اگر تم کسی شخص کو اس کی سواری پر بیٹھنے میں مدد دو تاکہ وہ سہولت سے چڑ جائے تو وہ بھی صدقہ ہے۔

اس طرح اسلام خیر کے دروازے معاشرے کے تمام لوگوں کے لیے کھول دیتا ہے۔اور یہ خیر و فلاح صرف ہم مذہب کے لیے نہیں بلکہ اسلام انسان کو انسان دوستی کے اس اونچے مقام پر لا کھڑاکرتاہے جہاں سے خیر و نیکی کے تمام کام،تمام انسانی برادری کے لیے عام ہو جاتے ہیں۔ چاہے ان کا مذہب، ان کا ملک اور ان کی قوت کچھ بھی ہو۔ ہمارے نبیؐ فرماتے ہیں لوگ اﷲ کی عیال(خاندان) ہیں اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اس کی عیال کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔

اس خیر اور فلاح کی طرف دعوت دیتے ہوئے اسلام یہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ اس کا فائدہ سب سے پہلے خوداس کی ذات کو پہنچے گا۔ دنیا میں مقبولیت اور محو بہت حاصل ہو گی اور آخرت میں ثواب اور اجر ملے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ـ’’تم جو چیز بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے نفس ہی کے لیے ہے‘‘ (القران)
Rukhsar Fatima
About the Author: Rukhsar Fatima Read More Articles by Rukhsar Fatima: 3 Articles with 2056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.