موثر قوانین کا غیر موثر نفاذ

موثر قوانین کا غیر موثر نفاذ
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

قانون بنانا اور ان پر عمل کروانا دو مختلف نوعیت کے کام ہیں شاید اس ملک کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جو آئے رو ز شدت اختیار کرتا جارہا ہے کیونکہ قانون تو سب کیلئے بنایا جاتا ہے تاکہ ملک کا ہر شہری نہ صرف اسے استعمال کرے بلکہ اس سے حاصل ہونیوالے ثمرات کا حصہ بھی بنے اور شہریوں کا قانون کی حکمرانی کا خواب بھی شرمندہ تعبیرہو سکے۔

لیکن جیسے ہی قوانین پر عملدآری کا وقت آتا ہے توپتہ چلتا ہے کہ قانون کتنا سخت کیوں نہ ہو ادارے قانون کی تشریح کمزور اور طاقتور لوگوں کے مطابق کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں بااثر افراد کیلئے ایسے قوانین موم کی ناک جیسے ہیں جبکہ اداروں میں تعلقات سے محروم طبقات پر یہی قانون ہتھوڑے کی صورت میں برستا ہے بااثر لوگ سخت سے سخت قوانین کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں جب چاہا ایسے قوانین کے منہ سے دانت نکال لیے یا پھر ایسے اقدامات کرلیے جاتے ہیں کہ فائلوں کا پیٹ بھر کر کاروائیوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں سالہا سال کاروائیاں بھی جاری رہتی ہیں اورکاروبار بھی یہی کچھ برسوں سے ہوتا آرہا ہے اور ہوتا رہے گا جب تک ادارے مضبوط نہیں ہو جاتے۔

ایسے اقدامات کاکھوج لگانے اورقانون کی عملدراری کی جانچ کرنے کیلئے پنجاب شفافیت و معلومات تک رسائی کاقانون 2013نہایت ہی موثر قانون ہے جس کے ذریعے ہم مختلف محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا کہ قانو ن صرف بنانے کی حد تک ہی ہیں یا پھر ان کو نافذ بھی کیا جاتا ہے اورغیر قانونی کام پرکیا کسی کمپنی یا شخص کو نوٹس دیے جانے کے بعد کوئی کاروائی کی جاتی ہے یا صرف فائلوں کا پیٹ بھر کر داخل دفتر کر دی جاتی ہیں۔

ایسے ہی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے جھنگ کے شہری علاقوں میں قائم پاورلومز فیکٹریز کے حوالہ سے محکمہ تحفظ ماحول پنجاب شفافیت و معلومات تک رسائی کے قانون2013کے ذریعے پوچھاگیا کہ جھنگ کے شہری علاقوں محلہ حسنانہ،جھنگ سٹی،سیٹلائٹ ٹاؤن،کوٹ سائی سنگھ اور دیگر علاقہ جات میں کل کتنی پاور لومز فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور کیا ان پاور لومز فیکٹریز نے محکمہ سےNOCحاصل کیا ہے اور اگر بغیر اجازت یہ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں تو محکمہ کی جانب سے اب تک کیا کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔

اس درخواست کے جواب میں بہت ہی دلچسپ معلومات موصول ہوئیں جس کے مطابق مذکورہ بالا شہری علاقوں میں 100سے زائد پاور لومز فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی فیکٹری کے پاس محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کی جانب سے جاری کردہ NOCموجود نہیں ہے کچھ مزید حیران کن انکشافات سامنے آئے جن کے مطابق صرف20فیکٹریاں ایسی ہیں جنہیں NOCکی ضرورت ہے کیونکہ وہ محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کے ایکٹ1997ترمیم شدہ2012کی دفعہ12کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں جبکہ80دیگر پاورلومز فیکٹر یوں پریہ قانون لاگوہی نہیں ہوتا جس وجہ سے ان کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں گھروں کے اندر بنا لی جائیں تونہ صرف قانون خاموش ہے بلکہ انہیں کھلی چھٹی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ جن20پاور لومز فیکٹریوں کیخلاف مندرجہ بالا قانون کی دفعہ12کے تحت کاروائی کا آغاز کیا گیا اسکا کیا بنا اس کاروائی سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے ایک بار پھر محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کا دروازہ کھٹکھٹایا گیااور پوچھا گیا کہ ان20 پاور لومز فیکٹریوں کیخلاف کاروائی کس تاریخ کو شروع کی گئی۔اب تک کی جانیوالی سماعتوں کے دوران کیا کاروائی ہوئی اور اس ایکٹ کے تحتNOCحاصل کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔محکمہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ان 20فیکٹریوں کیخلاف کاروائی جاری ہے اور ڈی سی او جھنگ کو ان فیکٹری مالکان کیخلاف کاروائی کرنے بارے لکھ دیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کو عملدرآمد کروانے میں کس قدر سستی سے کام کیا جاتا ہے یا پھر مالکان کو سخت کاروائی سے بچانے کیلئے کیسے کیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔کیونکہ کئی سال گذرنے کے باوجود فیکٹریاں بھی چل رہی ہیں اور کاروائیاں بھی۔محکمہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سال 2015کے دوران ان فیکٹریوں کیخلاف کاروائی شروع کی گئی ہے تاہم ایک سال گذرنے کے باوجود واضح اقدامات نظر نہیں آرہے۔مزید معلومات کیلئے جب ڈی سی او جھنگ کے نام مورخہ9مئی2016کوارسال کردہ درخواست میں یہ پوچھا گیا آیا کہ ان20پاورلومز فیکٹریز میں سے کسی کو ابھی تکNOCجاری کیا گیا ہے یا نہیں تو ڈسٹرکٹ آفیسر محکمہ تحفظ ماحول جھنگ کی چٹھی نمبر DOE/EPA/JNG/344بتاریخ19.05.2016کے مطابق ابھی تک ان20پاور لومز فیکٹریز میں سے کسی کو بھیNOCجاری نہیں کیا گیا۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ20 فیکٹریاں NOCحاصل کیے بغیر چلائی جارہی ہیں اور کاروائیاں صرف فائلوں تک محدود ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر قانونی کاروائی کرنی ہی نہیں ہوتی تو قانون بنایا کیوں جاتا ہے اور اگر کاروائی شروع کی جاتی ہے تو پھر سستی کس لیے۔۔؟

شہری علاقوں میں پاور لومز فیکٹریز کی تنصیب کے باعث لوگ نہ صرف ذہنی اذیت کا شکار ہیں بلکہ شور اور تھرتھراہٹ کے باعث انہیں شدید مشکلات درپیش ہیں۔شہریوں کاکہنا ہے کہ ان پاورلومز فیکٹریز کو فوری طور پر شہر سے باہر شفٹ کیا جائے اور انہیں محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کے قانون و ضوابط کے مطابق NOCحاصل کرنے کا پابند بنایا جائے اور اسکے بغیر چلنے والے فیکٹریوں کو فوری طور پر سیل کیا جائے۔شہریوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ضلع جھنگ میں انڈسٹریل اسٹیٹ کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں علاقوں میں قائم تمام صنعتی اداروں کووہاں شفٹ کرنے کے اقدامات کرے۔۔۔۔۔۔

Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 18966 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.