نفرت ، غرور اور شد ت پسندی کا زہر بعض اوقات انسان
کی رگوں میں اس قدر سرایت کر جا تا ہے کہ اچھے برے کی تمیز کھو دیتا ہے یہی
صوت حال بھارت کی ہے جہاں ہندو انتہا پسند کھلم کھلا آئین و قانون کی خلاف
ورزی کرتے نظر آتے ہیں گا ؤ کشی کا بہا نہ بنا کر مسلما نوں اور دلتوں کے
خون سے ہو لی کھیل رہے ہیں افسوس کسی ایک شر پسند کو بھی سزا نہیں دی گئی
اسی کا نتیجہ ہے کہ آئے دن گاؤ کشی پرظالما نہ وا قعات منظر عام پر آرہے
ہیں یہ ظلم کسی قیامت سے کم نہیں ذرا تصور کیجئے کسی شخص کو سخت تشدد سے
ہلاک کیا جائے اور وہ آخر وقت تک اپنے بے گناہ ہونے کی قسمیں کھا رہا ہو آس
پاس کھڑے عزیز و اقارب آہ وزاریاں منت وسما جت کر رہے ہوں مت مارو یہ بے
قصور ہے مگر درندگی و نفرت کی پٹی آنکھوں پر چڑھا ئے جلاد کسی کی کہاں سنتے
ہیں پھر اپنے جرائم پر کسی قسم کی ندامت محسوس کیئے بناء یہ سمجھ لیاجانا
جو کچھ کیا مذہب کے خا طر کیا جا رہا ہے ایسے لوگ کس سزا کے مستحق ہیں اس
کا جواب پڑھنے والوں پر چھوڑتی ہوں۔
انسانی تشد دسے ہلاک کرنے کا سلسلہ ہزاروں سال پراناہے اور بر صغیر میں
گائے کے حوالے سے ہندو مسلم فسادات کو ئی نئی با ت نہیں مشہور مو رخ ابن
بطو طہ جب فیروز شاہ تغلق کے زما نے میں ہندوستان آیا تحریر کر تا ہے کہ گا
ئے کی قربانی کیخلاف ہندوؤں نے کئی مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا شائدیہی
وجہ تھی کہ با بر نے اپنے بیٹے کو رموز حکمرا نی سکھا تے ہو ئے مشورہ دیا
تھا کہ گا ؤ کشی سے دور رہنا تا کہ عوام تمھا رے لیئے نر م گو شہ رکھے
احسان مند ہو کر تمھا رے تا بع رہے جب ا کبر بر سر اقتدار آ یا تو اس نے
مذہبی رواداری کے پیش نظر گا ئے کی قربانی پر پابندی لگا دی جس پر علما ء
اس کے خلاف ہو گئے تھے احمد سر ہندی کا کہنا تھا کہ’’ گا ئے کی قربا نی
مسلمانوں کے شر یعت کا اہم حصہ ہے اس سے انکا ر شریعت سے انکا ر ہے اس لئے
مسلمان گا ئے کی قربا نی فرض کی ادائیگی سمجھ کر کریں ،،پھر تو بات مذہبی
فریضہ سے نکل کر سیا سی ایوانوں میں پہنچ گئی یہ مسئلہ سیا سی طا قت بننے
کی دیر تھی کہ شیوا جی جو اس وقت مغل حکومت کا سخت مخالف تھا اس نے حکم نا
فذ کیا کہ’’ ہم ہندو اس ریا ست کے وا لی وارث ہیں ہمارے لیئے گا ئے کی قربا
نی بر ہمنوں پر ظلم کے مترداف ہے،، اقتدار حاصل کر نے کے لئے مذہب اور
سیاست کے کھلاڑیوں کو ایک مہرہ ہاتھ آگیا 1845ء سکھ حکمرانوں کے دورمیں
سرینگر چھتہ بل کے پیرزادہ قا دری اور ان کے 17 اہل خا نہ کو اسی جرم میں
گا ئے کے گوبر اور بید کی سوکھی لکڑیوں کے الا ؤ میں زندہ جلا دیا گیا
کشمیر کے ایک بڑے تا جر معین الدین کھو سہ اور ان کے داماد مرزا کلو کو گھر
سے گا ئے کا گو شت بر آمد ہونے پر سر عام پھا نسی دی گئی ان کی لاشوں کو
سڑکوں پر گھسیٹا گیا کہ نشان عبرت ہو ۔
ا نیسویں صدی کے آواخرمیں ہندوؤں نے اصلا حی تحریکوں میں گا ئے کشی کو شنا
ختی علامت کے طور پر پیش کیا اس کی حفا طت کے لئے با قا عدہ انجمنیں بنا ئی
گئی یوں اب یہ سیا سی طا قت کا حوالہ بن گئی 1920ء میں سرینگر جیل میں قید
117 میں سے 97 گا ؤ کشی کی سزا بھگت رہے تھے ڈوگرہ حکو مت نے پھا نسی کی
سزا کم کر کے دس سال قید رکھی جو آج بھی نافذ ہے بر طا نوی راج میں گا ئے
کی قربا نی پرکو ئی پا بندی نہیں لگا ئی گئی کیو نکہ انگر یز خود گا ئے کا
گو شت رغبت سے کھا تے تھے ۔بھارت کے تمام صوبوں میں گا ؤ کشی پر پا بندی ہے
اس کے خلاف جا نے والوں کو چھ ما ہ سے ایک سال کی سزا ہے کشمیر میں اب تک
اس جرم میں 119افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے ۔
ڈا کٹر مبارک اپنی کتاب میں ڈی این مبھا جو دہلی یو رینیورسٹی کے پروفیسر
کا حوالہ دیتے ہیں ڈی این مبھا کے مطا بق ہندوستا ن میں آریا اپنی مذہبی
تہواروں اور رسومات میں گا ئے کی قربا نی کرتے تھے اس کا گو شت کھا تے تھے
مگر جب گا ئے کو مذہبی علامت بنا کر تقدس کا درجہ دیا گیا تو وہ گؤ ماتا بن
گئی ہر ہندو کا مذہبی فر یضہ بن گیا کہ وہ اس کا تحفظ کر ئے ،،ڈی این مھبا
کی کتا ب کے اشاعت کے بعد ہندو انتہا پسند ان کے سخت مخالف ہو گئے سخت
احتجاج اور مظا ہرے ہو ئے آخر حکو مت کو ان کے تحفظ کے لئے گارڈ فراہم کرنا
پڑا ۔
گزشتہ سال دادری میں اخلاق نامی مسلمان کو بہیمانہ تشد د کر کے قتل کر دیا
گیا ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے یہ قتل جا ئز قرار دیا گا ؤ کشی
ایک بھیانک جرم کے طور پر سینکڑو ں سال سے ہندو مسلم فسادات کی وجہ بنی ہو
ئی ہے ابھی کچھ ہفتے قبل دلتوں کے چند نوجونواں کو محض شک کی بنیاد پر
ہندوا نتہا پسندوں نے ہلاک کر ڈالا ان گناہ یہ تھا کہ وہ مردہ گا ئے کی
کھال اتا رہے تھے ان سب باتوں میں انتظامیہ کا کس قدر عمل دخل ہے کیا یہ سب
ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے اگر ایسا نہیں تو مجرموں کو اب تک کیفر کردار
تک کیوں نہیں پہنچا یا گیا انتہا پسند قوتوں کے خلاف تحقیقات ہو نی چا ہیئے
اونچ نیچ کی یہ دیواریں ، یہ بر تری کا گھمنڈ ،بالا دستی کی ہوس اور مذہبی
انتہا پسندی کا غلبہ اس سلسلے کو اب ختم ہو نا چا ہئے تا ریخ میں گا ؤ کشی
جیسے مذہبی عقیدے کی کیا اہمیت ہے تاریخ داں، دانش ور اور سیاسی رہنما مل
کر فیصلہ کر یں صدیوں سے ساتھ رہتی دو قوموں کے درمیاں معاملات کو سلجھانے
کی کوشش کرنا ضروری ہے جب ہی نفرت پھیلانے والے کمزور ہوں گے ان سے عوامی
سطح پر بات چیت کرنا ہو گی انسانی زندگی اس قدر ارزاں تو نہیں کہ اسے جانور
پر قربا ن کر دیا جا ئے ا س خون تما شے کو اب بند ہو نا چا ہئے ورنہ نفرت
کی یہ آگ نجانے کتنے خاندانوں کو خاکستر کر دے گی ۔ |