ہوشیار ! آپ لٹ رہے ہیں

پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ اور کنسٹرکشن انڈسٹری کے ٹائیکون ملک ریاض اور ان جیسے مٹھی بھر افراد کی وجہ سے معاشرے کا کیا حشر ہو رہا ہے زرا ملاحظہ کیجئے۔ ملک ریاض ملک بھر میں اور خا ص طور پر کراچی میں بحریہ ٹاؤن یا کراچی کی بلند ترین رہائشی و کمرشل مقاصد کے لئے قائم عمارت کا مالک ہے جہاں وہ بہترین طرز رہائش بلکہ دنیا میں جنت جیسا طرز رہائش فراہم کرنے کا دعوی کررہا ہے کہ جہاں نہ پانی کا کوئی مسئلہ ہو گا ، نہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو گی، نہ کبھی وہاں بجلی کی فراہمی معطل ہو گی، جہاں بہترین اسپتال، اسپورٹس کمپلس، اسکول کالج، یونیورسٹیاں، جدید ترین شاپنگ مال ہونگے۔ غرض دنیا کی ہر نعمت ہو گی۔ اس جنت میں جانے کے بعد کسی کو باہر آنے کی ضرورت نہیں ہو گی گویا جنت کے اندر ہی پیدا ہو اور باہر نکلے بغیر اندر ہی مر جاؤ۔ ہاں اگر باہر جانا پڑے تو صرف ملک سے باہر جاؤ ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک ملک ریاض اپنے دعوؤں میں درست بھی ثابت ہوا ہے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کسی پروجیکٹ میں ملک ریاض پروجیکٹ کے اندر ہی سے ملک سے باہر جانے کی سہولت فراہم کر دے ۔ ملک ریاض کی اس دنیاوی جنت کی قیمت لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ یعنی صرف کروڑ پتی ہی ملک ریاض کی جنت میں رہنے کے اہل ہیں اور کروڑ پتی بھی دو چار کروڑ والے نہیں بلکہ فلیٹ یا گھر کی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی ان کے پلے کم از کم پندرہ بیس کروڑ روپے تو لازمی طور ہونا چاہئیں تب ہی وہ درست طور پر ملک ریاض کی کراچی یا ملک کے دیگر علاقوں میں بنائی جانے والی جنتوں میں رہنے کی اہلیت کا سرٹیفکیٹ لے پائیں گے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک ریاض اپنے آپ کو ایک دریا دل انسان بھی ثابت کرتا ہے ۔ کہیں وہ مفت دسترخوان لگاتا دکھائی دیتا ہے، کہیں وہ شہیدوں خاص طور پر پولیس کے شہیدوں کے لواحقین کولاکھوں روپے دینے کا اعلان کرتا نظر آتا ہے یعنی ریاست کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اٹھاتا نظر آتا ہے ۔ کہیں وہ کراچی جیسے شہر میں اپنے خرچے پر پل اور بائی پاس بناتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک ریاض کتنا ذہین اور کتنا بڑا منصوبہ ساز ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ ملک ریاض سندھ میں طاقت کے دو اہم محور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو اپنا ہمنوا بنا تا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے والد کے نام پر یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کر تا ہے اور پھر کوڑیوں میں خریدی زمینوں کو کروڑوں نہیں اربوں نہیں کھربوں میں فروخت کرتا ہے۔ یعنی ملک ریاض بوٹی دیکر بکرا نہیں، گائے نہیں بلکہ اونٹ لے رہا ہے اور سب خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ملک ریاض اور ان جیسے مٹھی بھر نام نہاد بزنس مینوں کی وجہ سے ملک بھر کے شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں زمین اور گھروں کی قیمتیں آسمان پر چلی گئی ہیں۔آج سے دس برس پہلے تک کراچی میں کسی بھی متوسط طبقے کی آبادی میں 120اور 240گز کے گھروں کی قیمتیں بالترتیب15 سے 25لاکھ اور 20سے 35لاکھ کے درمیان ہوتی تھیں لیکن اب ان ہی علاقوں میں 120گز کے گھروں کی قیمتیں ایک سے ڈیڑھ کروڑ اور240گز کے گھروں کی قیمتیں 2سے ڈھائی کروڑ اور بعض علاقوں میں تین کروڑ تک بھی ہیں جبکہ تھوڑے بہت معقول فلیٹوں کی قیمتیں پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے کے درمیان ہیں۔ یہاں بہت اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی غریب ملک میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اتنی تیزی سے اتنا زیادہ اضافہ ہونا چاہیے؟اب کوئی مجھے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا ایک ایسا شخص یا خاندان جس کے پاس اپنا گھر نہیں، اور وہ کسی کالج میں لیکچرار ہے یا اسکول ٹیچر ہے یا کسی دفتر میں مینجر ہے یا کسی بینک کا ملازم ہے، کیا وہ کراچی کے کسی متوسط طبقے کے علاقے میں اپنا گھر تو کجا کوئی فلیٹ بھی خرید سکتا ہے؟اس صورت حال کے ذمہ دار ملک ریاض اور اس جیسے مٹھی بھر نام نہاد بزنس مین جو در اصل استحصالی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جو میڈیا میں پیسوں اور اشتہاروں کے زور پر اپنے خلاف کوئی خبر تک نہیں چلنے دیتے ۔ یہاں تک کے ان گروپوں کے خلاف عدالتوں کے فیصلوں اور آبزرویشنز کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ملک ریاض ، اس کے حواریوں اور اس ہی جیسے سوچ کے حامل نام نہاد بزنس مینوں کی وجہ سے ملک میں ایک اور خوفناک صورت حال پیدا ہو رہی ہے جس پر شاید بہت کم افراد کی توجہ ہے۔ میری یہ تحقیق ہے کہ ملک ریاض اور اس جیسے پراپرٹی کا بزنس کرنے والوں کی وجہ سے ملک میں خاص طور پر کراچی میں بے روز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی عام آدمی کے پاس کچھ پیسے جمع ہو جاتے تھے تو وہ سوچتا تھا کہ اسے کسی بزنس میں انسوسٹ کرے یا خود کوئی چھوٹا موٹا بزنس کرے، کوئی چھوٹا سا کارخانہ لگا لے کوئی دکان بنا لے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب کسی کے پاس کچھ رقم جمع ہو جاتی ہے تو وہ کوئی بزنس کرنے کے بجائے پراپرٹی میں انوسٹ کرتا ہے۔ ملک ریاض کے اور اس جیسے کسی دوسرے پروجیکٹ میں فائلیں خریدتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگر ملک ریاض کے کسی پروجیکٹ میں اس نے کوئی فائل خرید لی تو اسے چند ماہ میں اتنا فائدہ ہوجائے گا کہ کسی بھی دوسرے بزنس میں اس منافع کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی ملک ریاض کے کسی پروجیکٹ میں ایک کروڑ روپے میں خرید ی ہوئی ایک فائل کو وہ چند ماہ بعد ڈیرھ کروڑ روپے میں فروخت کر دیتا ہے لیکن اگر وہ کوئی چھوٹا موٹا کار خانہ لگائے، کوئی دکان کھولے یا کوئی امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کر ے تو اسے اتنا منافع لینے کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے لہذا وہ کسی دوسرے بزنس میں جانے کے بجائے ملک ریاض یا اس جیسے کسی دوسرے پروجیکٹ میں فائل خریدنا مناسب سمجھتا ہے۔ماضی میں ایک عام آدمی بزنس کی طرف مائل تھا اگر ایسا اب بھی ہوتا اور وہ پراپرٹی کی فائل خریدنے کے بجائے کوئی بزنس کرتا، کوئی کارخانہ لگاتا، کوئی دکان کھولتا یا کوئی سروسز فراہم کرنے کا بزنس کرتا تو اس میں چند لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا ، ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھتیں۔ پیسہ پراپرٹی کی فائل میں بلاک نہ ہوتا اور ایک ہی شخص یا چند افراد کی جیبوں میں نہ جا رہا ہوتا ۔ اس طرح روزگار کے موقع اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا۔لیکن پراپرٹی کے بزنس کی وجہ سے معاشرے کو شدید نقصانات ہورہے ہیں ۔ اس میں ایک طر ف تو غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی گھر خریدنے کی استطاعت چھینی جا رہی ہے اور ان کی اپناگھر بنانے کی خواہش کا قتل عام کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ملک میں غیر معمولی طور پر بے روزگار بڑھ رہی ہے ۔ معاشی سرگرمیاں محدود ہو رہی ہیں اور دولت چند ہاتھوں تک محدود ہو رہی ہے ۔ اس کے ذمہ محترم ملک ریاض جیسے انسان دوست، غریب پرور ، غریبوں کے لئے دسترخوان چلانے والے لوگ ہیں ، شہیدوں کے لواحقین کو لاکھوں روپے دینے والے ہی تو ہیں کہ جو بھیس بدل کر لوٹ مار کر رہے ہیں اور آبادی کے ایک کثیر طبقے میں بے چینی اوراسطرابی کیفیت پیدا کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت وقت اور ماضی کی حکومتیں بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔کہاں ہیں وہ جو عوام کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگاتے ہیں؟
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.